مجتبیٰ حسین کو کون نہیں جانتا

ظفر آغا
ارے صاحب ! حیدرآباد میں ایسا کون سا شخص ہے جو مجتبیٰ حسین صاحب کو نہیں جانتا۔ جناب، حیدرآباد تو کیا مجتبیٰ حسین کا ڈنکا تو تمام عالم اردو میں بجتا ہے۔ اور اب’ عالم اردو ‘ محض ہندوستان و پاکستان کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ خدا بھلا کرے اس دور کا کہ جس میں اردو والے دنیا کے کونے کونے میں بسے ہیں۔ چنانچہ اردو دنیا میں تقریباً 10برس قبل ایک نئی اصطلاح شروع ہوئی’’ اردو کی نئی بستیاں ‘‘۔ ہوا یوں کہ جب1980 کی دہائی میں اردو مشاعرہ دوبئی میں شروع ہوا تو اردو والے چونکے، دیکھتے ہی دیکھتے اردو مشاعروں کا چلن تمام عالم عرب میں پھیل گیا۔ ادھر لندن میں تو ایک عرصہ سے اردو محفلیں ہوا کرتی تھیں لیکن جب عرب ممالک کے مشاعرے مشہور ہوئے تو یورپ اور امریکہ میں بسے اردو والوں کو بھی جوش آیا اور بس پھر کیا تھا لندن، نیویارک اور ٹورنٹو جیسے مقامات پر بھی بڑے بڑے اور کامیاب مشاعرے ہونے لگے۔ ایک شاعر نے تو خود مجھ سے فرمایا کہ بھائی، اب ہم پیاکیج پر مشاعرہ کا سفر کرتے ہیں۔ ہم نے دریافت کیا حضور کیا مراد آپ کی۔ حضرت شاعر نے فرمایا کہ حکم یہ ہوتا ہے کہ آپ کو دوبئی، لندن، نیویارک اور ٹورنٹو کا سفر کرنا ہے اور ان تمام شہروں میں مشاعروں میں شرکت کرنی ہے۔

خدا نظرِ بد سے بچائے، یہ عالم ہے اردو زبان کا کہ اب یہ دنیا پر چھائی ہوئی ہے، اور بس یوں سمجھیئے کہ جہاں جہاں اردو ہے وہاں وہاں مجتبیٰ حسین صاحب ہیں اور کیو نہ ہوں، مجتبیٰ حسین موجودہ اردو ادب کے سب سے بلند و بالا طنز و مزاح نگار ہیں۔ آپ یہ پوچھیں گے کہ آپ یعنی میں ٹہرا ایک ادنیٰ سیاسی و سماجی کالم نگار، بھلا آپ یعنی مجھ کو مجتبیٰ حسین جیسے ادیب پر قلم اٹھانے کی جرأت کیونکر ہوئی، تو اپ کا اعتراض بجا ہے۔ لیکن ہوا یوں کہ ابھی پچھلے ہفتہ دہلی میں ’جشنِ ادب ‘ نام کی ایک سوسائٹی ہے جس نے دہلی کے مشہور انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ایک اردو ادبی محفل سجائی، اس محفل میں ہندو پاک کی مشہور اردو شخصیت کشور ناہید جیسی پاکستانی شاعرہ نے شرکت کی۔ ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ اس محفل کو منعقد کرنے والے ہمارے جیسے کوئی اردو والے نہیں بلکہ اس محفل کے روح رواں تھے کنور رنجیت چوہان اور ڈاکٹر اجئے شرما جو اردو کے دیوانے ہیں۔ الغرض ! قصہ مختصر یہ کہ اس محفل میں مجتبیٰ حسین نے بھی شرکت کی اور یقین جانیئے کہ جس سیشن میں مجتبیٰ صاحب شریک ہوئے اس محفل میں ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دہلی کی مشہور و معروف شخصیتیں مجتبیٰ صاحب کی بناء پر اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے موجود تھیں اور کیوں نہ ہوتیں، مجتبیٰ صاحب کا رشتہ محض حیدرآباد سے ہی نہیں ہے وہ ہیں تو حیدرآبادی لیکن بطور اردو ادیب اب ایک عالمی شخصیت ہیں، لیکن انہوں نے ملازمت کے سبب دہلی میں تقریباً 40برس گذارے ہیں اس لئے دہلی میں ان کا ایک لمبا چوڑا حلقہ احباب آج بھی موجود ہے جو انکا مداح ہے اور ان کے حلقہ احباب میں آنجہانی خشونت سنگھ سے لے کر نہ جانے کتنے ادیب، جج، صحافی اور کون کون شامل ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بہت سارے افراد مجتبیٰ حسین صاحب کو سننے دہلی کی اس محفل میں پہونچ گئے اور ہم بھی ان میں سے ایک تھے اور بھلا ہم اس محفل میں کیوں نہ جاتے۔ ہمارا تو مجتبیٰ صاحب سے خاص رشتہ ہے اور اسی رشتہ نے مجھ کو اخبار ’سیاست‘ اور اردو صحافت سے جوڑ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ذکر یہاں لازمی ہے۔
یہ ذکر ہے 1990 کی دہائی کا جب ہندوستان میں بابری مسجد۔ رام مندر قصہ کا شور تھا اور سارا ہندوستان ’ مندر وہیں بنائیں گے‘ جیسے نعروں سے گونج رہا تھا یہ وہ دور تھا کہ جب ہم انگریزی صحافت کے اپنے دور کے عروج پر تھے۔ ’ انڈیا ٹو ڈے ‘ کے ذریعہ سارے ہندوستان میں ہمارا نام بھی بطور انگریزی صحافی جانا جاتا تھا۔ جیسا کہ آپ واقف ہیں کہ 6 ڈسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی گئی اور ملک میں قیامت مچ گئی۔ظاہر ہے کہ ایک صحافی کیلئے یہ بڑا اہم دور تھا، چنانچہ جب مسجد شہید ہوئی تو ہمارے ایڈیٹر ارون پوری نے ایڈیٹ میٹنگ میں مجھ سے بطور ایک مسلمان یہ سوال کیا بھائی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بابری مسجد تو ایک ٹوٹی پھوٹی سی خستہ حال مسجد تھی، آخر مسلمان اسے ہندوؤں کو دینے کیلئے کیوں تیار نہیں ہوئے؟۔ میں نے برجستہ جواب دیا کہ جس طرح رام مندر کی تحریک چلائی گئی اس سے آہستہ آہستہ غیر شعوری طور پر بابری مسجد محض ایک مسجد نہیں بلکہ مسلم تشخص کی علامت بن گئی، ظاہر ہے کہ اپنے تشخص کا سودا کون کرتا ہے۔ یہ بات ہمارے ایڈٹر کو بہت پسند آئی اور انہوں نے کہا کہ تم اسی بات پر ایک مضمون ’ انڈیا ٹو ڈے ‘ کے لئے لکھو۔ چنانچہ ہم نے یہ مضمون لکھا اور بہت مشہور ہوا۔ اس مضمون پر ’ انڈیا ٹوڈے‘ کو سینکڑوں خطوط آئے۔ خیر ان دنوں ہم برابر پریس کلب آف انڈیا جاتے تھے اور وہاں مجتبیٰ صاحب بھی تشریف فرما تھے چنانچہ مجتبیٰ صاحب نے بھی میرا مضمون پڑھا تھا۔ ایک روز میرا مضمون پڑھنے کے بعد وہ بولے ’’ ارے بھائی ظفر صاحب، آپ اردو میں ’سیاست‘ کے لئے بھی کالم لکھیئے‘‘۔ میں سکتہ میں آگیا، میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی اردو میں کالم لکھ سکتا ہوں، کیونکہ میں اردو میں محض رشتہ داروں کو خط لکھنے کے علاوہ کبھی کچھ لکھا ہی نہ تھا، ہاں گھر میں ضرور اردو اور اردو ادب کا زور تھا۔ میں نے مجتبیٰ صاحب کو جواب دیا بھلا یہ ممکن کیسے ہے، میں تو اردو میں لکھ نہیں سکتا ہوں، پھر میں بطور ’ انڈیا ٹو ڈے ‘ صحافی کہیں اور لکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی۔

1997 میں، میں نے ’ انڈیا ٹوڈے ‘ سے استعفی دے کر فری لانس دنیا بھر میں انگریزی کالم لکھنے شروع کئے، بس اسی دور میں مجتبیٰ صاحب کا میرے پاس فون یا کہ ’’سیاست‘‘ کے ایڈیٹر جناب زاہد علی خاں صاحب دہلی تشریف لائے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔  میں جناب زاہد علی خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، ابھی چائے کا پیالہ میز تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ جناب زاہد علی خاں صاحب نے ’سیاست‘ کیلئے کالم لکھنے کی فرمائش کردی۔ میں نے پھر وہی انگریزی میں لکھنے کا عذر پیش کیا۔ مجتبیٰ صاحب جھٹ سے بولے ’’ ارے بھائی، انگریزی میں ہی لکھ دیجئے ہم ترجمہ کروادیں گے‘‘۔ زاہد صاحب نے بھی مجھ کو دلاسہ دیا اور کہا کہ آپ نہ گھبرایئے ترجمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے اسی ہفتے انگریزی میں اپنا کالم بھیجا، اس کا ترجمہ ہوا اور وہ شائع ہوا۔ دو تین کالم اسی طرح انگریزی میں لکھ کر بھیجے جو ترجمہ ہوکر شائع ہوئے۔ لیکن میں ترجمہ سے مطمئن نہیں تھا اور پھر میں نے ہمت کی کہ اور خود اردو میں لکھا اور زاہد صاحب سے فون پر کہا کہ زاہد صاحب، میں نے اردو میں لکھنے کی ہمت کی ہے غلطیاں درست کروادیجئے گا۔ زاہد صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا آپ گھبرایئے نہیں۔ اور بس اس طرح زاہد صاحب اور مجتبیٰ صاحب کی بدولت میں اردو صحافی بن گیا اور اب مجتبیٰ صاحب کے ساتھ ہی روز نامہ ’سیاست‘ میں ہر ہفتہ کالم لکھ رہا ہوں۔

تو جناب ! مجتبیٰ حسین صاحب ایک پایہ کے ادیب ہی نہیں بلکہ وہ تو ایک نفیس انسان، بہترین دوست، اعلیٰ درجہ کے کالم نگار و صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کئی لوگوں کو اچھے کاموں کی ترغیب دی اور لوگوں کی زندگی بدل دی۔ میں ’سیاست‘ خاندان کی اس عظیم الشان شخصیت کو اس کالم کے ذریعہ سلیوٹ کرتا ہوں اور ان کی طویل عمر کیلئے دعا گو ہوں۔ خدا مجتبیٰ صاحب کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رکھے۔