مجتبیٰ حسین فراز رضوی

ڈاکٹر سید بشیر احمد

سید مجتبیٰ حسین رضوی خاندانی نام ہے ۔ ان کے والد کا نام ساجد رضوی تھا ۔ فراز رضوی کے نام سے شاعری کے جوہر دکھارہے ہیں ۔ وہ 1967 ء میں حیدرآباد کے محلہ دارالشفاء میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سٹی ماڈل پرائمری اسکول اور اعزا اسکول میں ہوئی ۔ انہوں نے انوارالعلوم کالج سے انٹرمیڈیٹ کامیاب کیا اور ایل این گپتا ایوننگ کالج سے 1989 میں گریجویشن کی تکمیل کی ۔دوران تعلیم ہی ملازمت اختیار کرلی ۔ 1993 سے 2004 کے دوران وہ چارمینار بینک میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ 2004 تا 2013 وہ دبئی میں بحیثیت منیجر وابستہ رہے ۔ کالج کے زمانے ہی سے انہوں نے شاعری شروع کی ۔ ان کا کلام ہندوستان کے مختلف رسالوں میں شائع ہوتا رہا ۔ ابتدا میں ان کا کلام ایل این گپتا ایوننگ کالج کے سالنامے ’’چاندنی‘‘ میں شائع ہوا ۔ انھیں نعتیہ اور منقبتی شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی ۔ اب ان کا دیوان زیر ترتیب ہے ۔ذیل میں ان کے چند اشعار بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں ۔
مجھ سے پوشیدہ نہیں ترا احوال فرازؔ
میری نظروں کے مقابل ترا چہرہ بولے
مانا کہ تم ہے نزد رگ جاں تو کیا ہوا
لیکن کبھی کبھی تو مجھے بھی دکھائی دے
فراز رضوی نے اپنی شاعری میں اہل بیت اطہار اور سانحہ کربلا کے تعلق سے بڑی وضاحت سے نشاندہی کی ہے ۔ اس تعلق سے ان کے چند اشعار ذیل میں درج کئے گئے ہیں ۔

تاقیامت نہ اٹھے گی کبھی دین پر تلوار
بڑھ کے عباس نے کیوں کاٹے ہیں تلوار کے ہاتھ
غم حیات کا میں کیسے مرثیہ لکھتا
کہ مجھ پہ کیفیت کربلا زیادہ تھی
حضرت امام حسین نے روز عاشورہ سے قبل والی رات کو پیش آئے وہ واقعات پر نظر کرتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا تھا کہ جس کو جانا ہے وہ چلا جائے اس بات کو انہوں نے اپنے شعر میں اس طرح ادا کیا ہے ۔
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
حضرت عباسؓ پانی لانے کیلئے دریا کے کنارے گئے مشکیزہ میں متعلقین کیلئے پانی ضرور لے لیا لیکن خود پیاسے لوٹے ۔ حضرت عباسؓ کی فکر اور احساس کو فراز رضوی نے اپنے شعر میں اس طرح واضح کیا ہے ۔
وہ پیاسا لوٹ کے دریا سے کر گیا ثابت
کہ اس کی پیاس سے اس کی وفا زیادہ تھی
قافلہ حسینؓ کا جذبہ ایمانی کا ذکر فراز رضوی نے اپنے شعر میں اس طرح کیا ہے ۔
سردیں گے بیعت نہ کریں گے کبھی ہم لوگ
یہ فیصلہ بیعت کے طلبگار سے کہنا
امام عالی مقام کے جذبہ حریت کو انہوں نے یوں منظوم کیا ہے ۔

کہا حسین نے بیعت کی بات جب آئی
ہمارے عزم کے آگے تمہارا لشکر کیا
حضرت حُر جنہیں وقت آخر ہدایت خداوندی حاصل ہوئی اور وہ لشکر یزید سے الگ ہو کر حسین علیہ السلام کے قافلہ کے حامی ہوگئے جسے فراز رضوی نے شعر میں اس طرح بیان کیا ہے ۔
وہ رات بھر سفر میں تھا سورج کے ساتھ ساتھ
دنیا سمجھ رہی تھی کہ حُر تیرگی میں ہے
حضرت حُر کی قربانی سے متاثر ہو کر وہ کہتے ہیں ۔
مزاج کشمکش تیرگی سے جیت کے جنگ
افق کی سرخی میں حُر تیرا نام روشن ہے
ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے۔
یہی ہے رونق گلشن کا راز سربستہ
بغیر خاروں کے گل بھی تو رہ نہیں سکتے
غزل کے جدید افکار اور اہل بیت اطہار کی مدح کے ذریعہ فراز رضوی کا شعری سفر جاری ہے ۔