مثالیت پسندی اور مصالحت پسندانہ سیاست

تلنگانہ اے پی ڈائری           خیراللہ بیگ
آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد مثالیت پسندی اور مصالحت پسندانہ سیاست کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ سیاست میں دل بدلی کا کمال رکھنے والوں کو ہی ترقی ملتی ہے۔ ریاست کی تقسیم اور نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد دونوں ریاستوں کے سیاسی قائدین کی پارٹیاں تبدیل کرنے کی مشق میں سب سے زیادہ تلگودیشم اور کانگریس کو نقصان ہوا۔ ٹی آر ایس میں اپنی سیاسی چھاؤں تلاش کرنے والوں نے بغاوت کی لیکن اس صورتحال کے گزرنے کے بعد سب کچھ بحال ہوگیا۔ دونوں ریاستوں کے حالیہ ختم ہوئے اسمبلی بجٹ سیشن کے دوران ہر لیڈر چاہے وہ حکمراں پارٹی کا ہو یا اپوزیشن کا خوش نظر آیا۔ عوام کو یہ گمان تھا کہ ایوان اسمبلی میں ان ارکان کے خلاف زبردست ہنگامہ ہوگا۔ جن لیڈروں نے اپنی پارٹیاں چھوڑ کر حکمراں پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے ان کے خلاف مورچہ بناکر احتجاج ہوگا لیکن عوام کو ایسی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دی۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کی اسمبلیوں میں جمع ہونے والے ارکان کا مزاج بالکل پُرامن دکھائی دیا۔ سمجھا تو یہ جارہا تھا کہ تلگودیشم اور کانگریس کے ارکان پارٹی چھوڑ کر حکمراں جماعت میں شامل ہونے والوں کے خلاف آواز اُٹھائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک خراب مثال قائم ہوگئی اور دل بدلی کو سیاست کی معراج سمجھ لیا گیا ہے۔ کانگریس اور تلگودیشم نے اس ہاتھی کی سونڈ کو ٹٹول لیا  ہے اس لئے یہ پارٹیاں حکمراں پارٹی سے خوف زدہ نظر آتی ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے اس وقت اپوزیشن کے وجود کے باوجود عدم وجود کا احساس حکمراں پارٹی کو ہوچکا ہے۔ خاص کر کانگریس کو جب اپنے وجود کو خطرہ لاحق محسوس ہونے لگا تو اس نے پھر سے مسلمانوں کا سہارا لینا شروع کیا۔ 12 فیصد تحفظات کے مسئلہ پر تلنگانہ کے مفلوک الحال مسلمانوں کی ہمدرد پارٹی بن کر دکھانے کا جوش پیدا ہوگیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ 12 فیصد تحفظات کے حصول کے لئے اپوزیشن متحرک ہوئی ہے لیکن سیاسی چوپال میں اقلیت دشمنی کے کاریگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو انگوٹھا دکھاتے آرہے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ جس جماعت کو سیاسی طاقت عطا کی آج اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرکے خاندانی وراثت بن چکی ہے۔ اس میں کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کی جماعتوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے نقصان پہنچایا ہے۔ لاٹھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جو بے آواز ہوتی ہے اور ایک وہ جو بے ضمیر ہوتی ہے۔ بے آواز لاٹھی جب حرکت میں آتی ہے تو بہت سے بگڑے کام سیدھے ہوجاتے ہیں بلکہ بے ضمیر لاٹھی جب اُٹھتی ہے تو معاملات کو اور زیادہ بگاڑ دیتی ہے۔ تحفظات کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کو یہ تحفظات کے سی آر کی حکومت میں ہرگز نہیں ملیں گے۔ سابق کانگریس حکومت میں بھی نہیں ملے تھے۔ اب کے سی آر حکومت بھی تحفظات کا دھوکہ دیتی رہے گی تو پھر آئندہ حکمرانی کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کرنے میں عوام کو خاص کر مسلمانوں کو جتنا عمل دخل حاصل ہوتا ہے کسی اور کو نہیں ہے۔

تلنگانہ میں مسلمانوں کی اکثریت کو دیکھ کر ہی حکمراں پارٹی نے 12 فیصد کا وعدہ کیا تھا۔ مگر سیاست میں حقیقت حال یہ ہے کہ جو جتنا بڑا جھوٹ بولے گا اتنی ہی ترقی حاصل کرے گا۔ حکمراں جیسا ہوگا اس کو ٹھگنے والے بھی پیدا ہوں گے۔ تلنگانہ میں اس وقت سرکاری فنڈس اور اسکیمات سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ حکومت عوام کی بہبود کے لئے اسکیم بناتی ہے لیکن اس سے اصل فائدہ فریبی لوگ اٹھاتے ہیں۔ حال ہی میں سی آئی ٹی سی 5 ایسے بروکرس کو گرفتار کرلیا جو چیف منسٹر کے ریلیف فنڈ سے دھوکہ دہی کے ذریعہ 74 لاکھ روپئے حاصل کرلئے تھے۔ یہ تو معمولی رقم ہے سرکاری سطح پر بڑی بڑی اسکیمات میں گھوٹالے ہورہے ہیں۔ عوامی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں تقریباً 100 فرضی مریضوں کے نام کا استحصال کرتے ہوئے جعلی میڈیکل ریکارڈ تیار کرکے دواخانوں اور آروگیہ مترا کے ملازمین سے معاملت کرتے ہوئے 100 مریضوں کے نام پیش کرتے ہوئے 50 مختلف دواخانوں سے حاصل کردہ 112 فرضی بلز داخل کئے اور چیف منسٹر ریلیف فنڈ سے لاکھوں روپئے حاصل کئے۔ تعلیمی شعبہ میں بھی طلباء کی اسکالرشپ ہڑپ لینے کے لئے کئی فرضی اسکولس اور کالجس قائم کئے گئے اور طلباء کی فرضی فہرست پیش کرکے اسکالرشپ کی بھاری رقم ہڑپ کرلی گئی۔ حکومت میں جتنے بڑے اسکامس ہورہے ہیں ان میں یہ معمولی بات ہے۔ دواخانوں میں ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو مریضوں سے پیسہ وصول کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ کارپوریٹ دواخانے تو ان دنوں مریضوں کی جیب کاٹنے والے جیب کترے بن گئے ہیں۔ تلنگانہ میڈیکل کونسل نے دواخانوں میں ہونے والی دھاندلیوں کا بروقت نوٹ تو لیا ہے مگر خاطیوں کو سزا ہوگی یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ کارپوریٹ دواخانے کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک نوجوان کو اپنے پستہ قد ہونے کی فکر تھی۔ ڈاکٹروں نے اس کا قد بڑھانے کے لئے آپریشن کیا۔

اب یہ واقعہ شعبہ میڈیکل کا نازک مسئلہ بن گیا ہے۔ بعض دواخانوں میں غیر ضروری آپریشن کے ذریعہ فیس اور خرچہ وصول کیا جارہا ہے۔ جلد سے جلد دولت مند بننے کی دوڑ نے پیشہ طب کی قدروں کو گھٹادیا ہے۔ لاولد جوڑوں کو اولاد کا انتظام کرنے والے ایسے کئی نرسنگ ہومس کام کررہے ہیں جو دھوکہ سے اولاد کے خواہاں جوڑوں کو بے وقوف بناکر پیسہ کمارہے ہیں۔ اس طرح کی فرٹیلیٹی کے نام پر تلنگانہ کے مواضعات خاص کر قبائلی علاقوں میں نوجوان لرکیوں سے ان کے رحم کا پانی یا انڈے حاصل کرکے اس کو لیباریٹری میں استعمال کرتے ہوئے لاولد جوڑوں کو فروخت کرتے ہیں۔ کئی ایجنٹس لڑکیوں سے ان کے انڈے حاصل کرکے دیہی علاقوں میں سرگرم ہیں۔ پولیس کی ناک کے نیچے یہ کام ہوتے ہیں۔ کالج طالبات کو خاص کر پسماندہ ، غریب اور ضرورت مند لڑکیوں کو بھاری رقم دینے کی لالچ دے کر ان کی صحت سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ فرٹیلیٹی سنٹرس کے یہ ایجنٹس پیسہ کا لالچ دے کر غریب لڑکیوں سے انڈوں کا عطیہ دینے کی ترغیب دینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ جبکہ طبی نکتہ نظر سے یہ عمل لڑکیوں کی صحت کے لئے مضر ہے۔ جب معاشرہ میں قانون شکن سیاستدانوں کی کثرت ہوتی ہے تو ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔
kbaig92@gmail.com