متحدہ ووٹ کا استعمال ، مسلمانوں کی طاقت

کریم نگر۔/27مارچ، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) نئی تلنگانہ ریاست بن رہی ہے ، اقتدار پر کون ہوں گے فی الحال یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ کانگریس، بی جے پی، ٹی آر ایس، ٹی ڈی پی جماعتیں تو دعوے بہت کررہی ہیں کہ حکومت ان کی ہی ہوگی، کس کے دعوے کو سچ مانا جائے کس پر یقین کیا جائے ۔ دوسری طرف مسلمانوں میں جو کہ بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں دور دور تک اتحاد نہیں، ایک سیاسی پارٹی ہے جو حیدرآباد کے پرانے شہر تک محدود تھی اب مجلس بلدیات، ایم پی ٹی سی اور زیڈ پی ٹی سی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اس سے آگے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں آیا تلنگانہ کے اضلاع میں بھی چناؤ میدان میں ہوگی اس کے آثار تو نہیں ہیں صرف میونسپل کارپوریشن میں اس پارٹی کا عمل دخل ہوگا۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل سے قبل پتہ چل جائے گا۔ ایک نو تشکیل شدہ پارٹی جو ویلفیر پارٹی آف انڈیا ہے فی الحال میونسپل چناؤ میں حصہ لے رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ کس حد تک کامیاب ہوگی۔ کانگریس جو سیکولر کردار کی دعویدار ہے درحقیقت یہ بھی پوری طرح سچ نہیں ہے۔ ویسے حالات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو نہ صرف آندھرا تلنگانہ بلکہ سارے ملک میں صرف دو ہی جماعتیں ہیں ایک مسلم اور دوسری غیر مسلم، کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے آئینی حقوق کی کما حقہ پاسداری میں پوری طرح سے ناکام ہے۔ اس سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا طریقہ یا طرز عمل اختیار کریں۔ اپریل؍ مئی میں جبکہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات ہوں گے کس کا ساتھ دیں، اور کس کا ساتھ نہ دیں۔ ایسے میں بہتر یہ ہوگا کہ حقیقی سیکولر کردار کے حامل امیدواروں کو اپنا ووٹ دیں چاہے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی بھی جماعت سے ان کا تعلق ہو۔ کسی بھی طرح کے بہکانے یا ترغیب دینے پر گمراہ نہ ہوں جہاں جس نشست پر کوئی بھی امیدوار ٹھیک نہ اور سیکولر کردار کا حامل نہ ہو وہاں سب سے کم برائی والے کی نشاندہی کرکے مسلمان اپنے فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے متحد ہوکر ووٹ دیں اور اسے کامیاب کریں۔ اس میں آپسی مفاد یا اختلافات کو ذہن میں رکھ کر نہ سوچیں۔