شفیع اقبال
متحدہ عرب امارات یقیناً دنیا کی سرفہرست خوبصورت مملکتوں میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔اس کا اعتراف وہ سبھی لوگ کریں گے جنہوںنے متحدہ عرب امارات میں قیام کے دوران ہر نکتۂ نظر سے وہاں کا تفصیلی جائزہ لیا ہو۔ میری یہ خوش نصیبی ہے کہ مجھے 2014 ء میں 5 فروری تا 5 مارچ ایک ماہ کے قیام اور پھر دوسری بار 19 ڈسمبر تا 18 جنوری 2017 ء دبئی میں قیام اور نئے سال کے جشن منانے کا منظر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔
2014 ء میں مجھے دبئی، شارجہ ، ابو ظہبی ، فوجیرہ ، اجمان جانے اور وہاں پر تفصیلی مشاہدے کے مواقع حاصل رہے۔ برج خلیفہ ، دبئی شاپنگ مال ، ابوظہبی کی مسجد شیخ زائد ، دبئی گلوبل فیسٹول اور فوجیرہ میں صدیوں قبل صحابۂ کرام کے ہاتھوں سمندر کے کنارے تعمیر شدہ قدیم مسجد سے متعلق تفصیلات پر مبنی ایک سفرنامہ لکھ چکا ہوں جو روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور روزنامہ ’’منصف‘‘ میں شائع ہوچکا ہے ۔
اب کی بار مجھے امہ القویس، ’’ دبئی مراکل گاڑڈن‘‘۔ جبلِ جیس ، راس الخیمہ ، برج العرب اور متحف المحط (AlMahata Museum) کے مشاہدے کا موقع ملا ۔ دبئی پہنچنے کے پہلے ہفتے میں اپنے فرزند حامد اور ان کے کچھ احباب کی فیملیز کے ساتھ رات تقریباً 10 بجے ہم لوگ امہ القویس پہنچے جو شارجہ سے تقریباً (70) کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہاں کے شیوخ کا یہ معمول ہے کہ چھٹیوں (Vacant) کے موقعوں پر شہر کے باہر کھلے مقامات پر پاسمندر کے کنارے مخصوص مقامات پر پکنک مناتے ہیں جس میں مرد حضرات ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیںاور خصوصاً چکن ، مٹن وغیرہ کے گوشت اور اس کے کباب وغیرہ کی تیاری عموماً مرد حضرات کے ذمہ ہوتی ہے اور خواتین کی تواضح کی جاتی ہے ۔ اپنی پسندیدہ غدا کے استعمال ، ہنسنے بولنے اور نوجوانوں اور بچوں کو کھیلنے کودنے اور کھل کر لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ بعض افرادِ خاندان تو عارضی Tent ڈال کر رات بھر یہیں قیام کرتے ہیں۔
یہ علاقہ سمندری کنارے کا ایک ایسا علاقہ ہے جوا یک اونچ پلیٹ فارم کی شکل میں واقع ہے جس کی دوسری جانب بڑی بڑی سڑکیں ہیں۔ سمندر کے کنارے اس علاقہ میں لائیٹ کے پولس نصب ہیں جس کی وجہ سے یہاں کافی رو شنی رہتی ہے اور اندھیرے کا احساس نہیں ہوتا ۔ لوگ ایک طرف دور تک پھیلے ہوئے سمندر اور دوسری طرف کشادہ سڑکوں پر کاروں کی آمد و رفت کے ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی اسی ماحول میں جوش و خروش کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے اور رات 4 بجے گھر لوٹے ، ہمارے لئے یہ ایک نیا اندازِ تفریح تھا ۔
’’دبئی مراکل گارڈن‘‘ (Dubai Miracle Garden) جو دبئی شہر میں واقع ہے ۔ جب ہماری کار ’’مراکل گارڈن‘‘ کے قریب پہنچی جہاں تین چار روڈ ٹریکس تھے ، تھوڑی سی غلطی سے کار Exit کی بجائے بازو والی ٹریک پرچلی گئی تو پھر ہمیں تقریباً تین چار کیلو میٹر جاکر یو ٹرن لینا پڑا اور پھر وہیں واپس آکر گارڈن کی ٹریک پر جانا پڑا۔ ہمارے ملک کی طرح کہیں سے بھی وہاں ’’یو ٹرن‘‘ نہیں لیا جاسکتا ۔ بہرحال ہم ’’مراکل گارڈن ‘‘ یہ سوچ کر پہنچے کہ عام گارڈنوںکی طرح ایک گارڈن ہوگا جہاں پھولوں کی کیاریاں ، ہریالی والے میدان اور کچھ تفریحی چیزیں ہوں گی لیکن جونہی ہم گارڈن کی گیٹ میں داخل ہوئے، مختلف رنگوں کے پھولوں کی سجاوٹ نے ہمیں حیران کردیا ۔ شائد دنیا بھر کے تمام پھولوں کے اقسام جمع کر کے ان کی کاشت کی گئی اور ہر طرف رنگ برنگے پھولوں سے مختلف ماڈلس بناکر انہیں سجایا گیا ۔ اس گارڈن میں ،،ولا‘‘ کی شکل میں مکانوں کے ماڈل بنائے گئے اور ان کے در و دیوار کو مختلف ڈیزائنوں میں رنگ برنگے پھولوں سے سجایا گیا ہے ۔ مختلف پرندوں کی شکل میں ماڈلوں کو ان ہی قدرتی رنگا رنگ پھولوں سے سجایا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ Emarate کے ایک فلائیٹ کا ایک ماڈل اس کے حقیقی سائز میں پھولوں کی سجاوٹ سے تیار کیا گیا ہے ۔ بیک نظر دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں حقیقی امارات کے ایک جہاز کو رکھ دیا گیا ہے ۔ اندرون احاطہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بناکر ان پر رنگ برنگے قدرتی پھولوں کے پودے لگادیئے گئے ہیںاور چاروں طرف رنگین روشنیوں کا مرقع بنادیا گیا ہے ۔ جدھر دیکھو رنگین پھولوں اور روشنیوں کا نظارہ دکھائی دیتا ہے ۔ بہرحال Miracle Garden پھولوں کی جنت کا منظر پیش کرتا ہے۔
دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے افراد خصوصاً مغربی ممالک کے مرد و خواتین کی کثیر تعداد ’’گلوبل ویلیج فیسٹول‘‘ میں سیر و تفریح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ’’دبئی کا گلوبل ویلیج فیسٹول ‘‘ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’ڈائنا سور گارڈ۔‘‘ دبئی ہی کے علاقہ میں ایک طویل و عریض احاطہ پر قائم کیا گیا ہے ۔ پارک میں داخل ہوتے ہی ڈائنا سور کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک ڈائنا سور حرکت کرتے ہوئے آوازیں نکال رہا ہے اور اس کی آنکھیں ، دم اور پیر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اس طویل اور عریض پارک میں ڈائنا سور کی جتنی قسمیں ہیں اتنی تمام قسموں کے ڈائنا سور بنائے گئے ہیں ۔ حتی کہ تقریباً بیس فٹ لمبی گردن اور دس بارہ فٹ اونچی جسامت والا ڈائنا سور بھی بناکر کھڑا کیا گیا ہے جو حرکت بھی کرتا ہے اور اپنی مخصوص آواز میں چیختا بھی ہے ۔ تقریباً پندرہ فٹ اونچے قدر والا ایک شیر بھی بناکر رکھا گیا ہے جسے دیکھ کر قریب جانے ڈر لگتا ہے جس کی آنکھیں چمکدار ہیں اور حرکت بھی کرتی ہیں اور وہ اپنی آواز میں دھاڑتا بھی ہے ۔ ڈائنا سور کو ہاتھ لگاکر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تمام جانور ربر پا اسپنچ کی طرح کسی میٹریل (Material) سے اس قدر ہو بہو بنائے گئے ہیں کہ ان پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے ۔ Butter Fly Garden بھی اپنی مثال آپ ہے۔
جتنے بھی پارک بنائے گئے ہیںان تمام میں کروڑہا روپیہ خرچ کیا گیا ہے اور دیکھ بھال اور Maintenence پر بھی لاکھوں روپیہ خرچ کر کے عوام کی خوشحالی اور سیاحوں کی دلچسپی کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے ۔
’’جبلِ جیس‘‘ کی پہاڑیاں جو راس الخیمہ کی سرحد سے شروع ہوتی ہیں۔ مرکزی پہاڑی کی چوٹی سطح زمین سے چھ 6 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنے کیلئے پہاڑی کے درمیان و اطراف دو دو ٹریک والی بہترین سڑکیں بنائی گئی ہیں اور تع میر اس مہارت سے کی گئی ہے کہ نہ تو پہاڑی پر جاتے ہو ئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اونچائی پر جارہے ہیں اور نہ اترتے وقت ڈھلان کا احساس ہوتا ہے ۔ اوپر جانے پر محسوس ہوتا ہے کہ ہم بادلوں کو چھو رہے ہیں اور آسمان کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پہاڑی کی چوٹی پر پکنک منانے کیلئے کافی سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ چھ ہزار فٹ کی اونچائی پر لائیٹ کی اور پانی کی سربراہی کا بھی معقول انتظام ہے ۔ یہاں تفریح کیلئے جانے والوں کیلئے تمام سہولتیں مفت فراہم کی گئی ہیں۔
برج العرب ایک بہت ہی خوبصورت ، بہت اونچی اور سمندر میں واقع عمارت ہے جو سیون اسٹار ہوٹل پر مشتمل ہے۔ برج خلیفہ کی تعمیر سے قبل برج العرب ہی دبئی کی سب سے خوبصورت عمارت کہلائی جاتی تھی ۔ برج العرب میں داخل ہونے کیلئے ایک چھوٹے سے کشادہ پل سے گزر کر جانا پڑتا ہے جو سمندر پر واقع ہے ۔ ایسے ہی لوگ اس عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں جنہوں نے لنچ ، ڈنر یا کسی پارٹی کیلئے بکنگ کروائی ہو اور ظاہر ہے کہ وہاں کسی بھی چیز کی قیمت بیرونی ہوٹلوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
متحف المحط شارجہ کاپہلا ایرپورٹ ہے جہاں پہلا ایر کرافٹ (HANNO) امپیریل ایرویزکی فلائیٹ پہلی بار 5 اکتوبر 1932 ء کو 4 بجے شام شارجہ پہنچی تھی ۔ یہ فلائیٹ اب بھی شارجہ کے سابقہ ایرپورٹ میں بغرض نمائش رکھی گئی ہے اور ایرکرافٹ کی تیاری میں پرندوں کے جسموں کی ساخت ، پرواز میں پروں کے استعمال پر تحقیقات سے متعلق تفصیلات مختلف تحریروں اور تصویروں کے ذریعہ پیش کی گئی ہیں۔
یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ ہمیں نئے سال 2017 ء کو خوش آمدید کہنے کا موقع دبئی میں نصیب ہوا ۔ برج خلیفہ کے دامن میں میوزیکل فاؤنٹن کے اطراف شام ہی سے عوام کا ہجوم جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے اور رات کے بارہ بجتے بجتے وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ۔ بارہ بجتے ہی میوزیکل فاؤنٹن میں رنگ و موسیقی کا پروگرام شروع ہوجاتا ہے ۔ رنگ برنگے فوارے بلندیوں تک رنگ و نور کا منظر پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مسلسل رنگیں Crakers آسمان پر زوردار پٹاخوں کے ساتھ بلندیوں تک جاکر مختلف رنگوں کی روشنیاں بکھیرتے ہیں اور سارا علاقہ رنگ و نور سے دمک اٹھتا ہے ۔ ان آوازوں کے ساتھ خوشی و انبساط کے عالم میں لوگ بھی خوشیوں سے آوازیں بلند کر نے لگتے ہیں اور اس طرح دبئی میں بہت شاندار طریقے سے نئے سال کا استقبال کیا جاتا ہے ۔
بہرحال متحدہ عرب امارات میں تعمیری و تفریحی مقامات کا مشاہدہ عام انسان کو مسرور و مسمور کردیتا ہے اور ہمیں اس بات پر سوچنے پرمجبور کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں عوامی مفادات اور خوشحالی کا ایسا دور کب آئے گا ؟