متحدہ سیکولر ووٹ ، مودی کا توڑ

ظفر آغا
حالیہ پارلیمانی چناؤ یقیناً تاریخ ساز چناؤ ہیں ۔ ایک جانب نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا سیاست کا ایک سیلاب ہے ۔ کارپوریٹ سرمایہ سے حلق تک بھرا ہوا میڈیا ، مودی کی خدمت میں سربسجود ہے اور اپنی پوری قوت جھونکے ہوئے کہ کسی طرح مودی کو اگلا وزیراعظم بنا کر اس ملک کی سیکولر سیاست اور گنگا جمنی تہذیب کو ختم کردیا جائے ۔ دوسری جانب اس ملک کے سیکولر عوام ہندوستان کی تہذیبی روایات اور اس ملک کی سیکولر سیاست کو بچانے کے لئے بغیر کسی قیادت کے اپنی پوری قوت جھونک رہے ہیں ۔ اگر آپ ٹی وی چینل کھولیں تو مودی کا سر عام پروپگنڈہ دیکھ کر آپ کا دل بیٹھنے لگ جائے ۔ لیکن اسی ماحول میں پچھلے ہفتے دو خبریں ایسی آئیں جن کو سن اور پڑھ کر ہندوستان کی سیکولر روایت اور اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا کی امید جاگ اٹھی ۔ پہلی خبر تو یہ ہے کہ 17 اپریل کو اترپردیش میں جو چناؤ ہوئے ان میں مسلم ووٹ بینک میں اتحاد کی خبریں ملی ہیں اور امید یہی نظر آرہی ہے کہ اترپردیش کے روہیل کھنڈ کے جن حلقوں میں ووٹ پڑا ہے ان میں زیادہ تر سیٹوں پر سیکولر پارٹیوں کو کامیابی حاصل ہوگی ۔ اور دوسری خبر یہ ہے کہ بہار میں ایم وائی یعنی یادو ۔ مسلم اتحاد پوری طرح سے متحد ہوگیا ہے اور بہار میں لالو یادو اور کانگریس کی لہر چل پڑی ہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بہاری مسلمانوں میں تو مودی کی فرقہ پرست سیاست کو ہرانے کے لئے اتحاد کی ایک لہر چل پڑی ہے وہ کیسے اور کیوں ؟

سچ تو یہ ہے کہ بہاری مسلمانوں نے کمال کردکھایا ۔ ابھی کچھ روز قبل بہار سے یہ خبر آئی کہ صوبہ کے کشن گنج حلقے کے جنتادل (یو) کے نمائندے اختر الایمان نے ’’سیکولر ووٹوں‘‘ کی تقسیم کو روکنے کے لئے چناؤ سے اپنی نمائندگی ختم کرکے وہاں سے بی جے پی مخالف قوتوں کی حمایت کا اعلان کردیا ۔ ابھی اس خبر کو چند روز بیتے ہی تھے کہ بہار سے یہ خبر آئی کہ بہار کی مسلم سیول سوسائٹی کے افراد نے جنتادل (یو) کے ابو قیصر ، غلام غوث اور سلیم پرویز جو کہ بھاگلپور ، موھوبنی اور سارن جیسے کثیر آبادی والے مسلم حلقوں سے چناؤ لڑرہے ہیں ان تمام لوگوں پر یہ دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ بھی اختر الایمان کی طرح سیکولر ووٹ میں بٹوارہ روکنے کے لئے چناؤ سے ہٹ جائیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھاگلپور سے بی جے پی لیڈر اور نمائندے شاہنواز حسین کے ہوش اڑگئے ہیں اور ایک انگریزی اخبار کے بقول شاہنواز حسین مسلم علماء کے دربار میں بھاگ بھاگ کر جارہے ہیں ۔

بہار میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو کمال اور تاریخ ساز عمل نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ! اس کا سبب یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا کوئی قائد ایسا نہیں ہے جو اس کو راستہ دکھائے ۔ لے دے کر علماء الیکشن کا ماحول آنے پر اپنی اپنی ٹوپیاں اور عمامے پہن کر سیاست کے بازار میں کود پڑتے ہیں ۔ کہیں کوئی پیش امام کسی پارٹی آفس میں سودا کرتا ہے تو کہیں کوئی عالم کسی دوسری سیاسی پارٹی کے حق میں حمایت و فتوی جاری کرتا ہے ۔اس بار تو یہ صورت حال ہے کہ مودی کے دربار میں درگاہوں کے پیر و مرشد ، پرسنل لاء بورڈ کے بڑے بڑے عہدہ داران اور ہر موقع پر جمعیت کے ایک ونگ کے صدر سپر ڈال کر مسلم ووٹ کے انتشار کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں تاکہ مسلم ووٹ بٹ جائیں اور مودی کسی طرح ملک کے وزیراعظم بن جائیں ۔ جس طرح مودی نے کارپوریٹ ورلڈ کی دولت سے میڈیا خرید لیا ہے ویسے ہی اسی دولت سے علماء کی بھی خرید و فروخت ہوچکی ہے ۔ ہر آواز کو بند کردو اور اگر نہیں بند ہوسکتی تو منہ بولے دام لگا کر اس کو خرید لو ۔ سیکولر ووٹ کو بانٹنے کے لئے مودی ہر سودا کرنے کو تیار ہے اور خود ساختہ مسلم قائدین اس سودے کے لئے سب سے آگے ہیں ۔
لیکن حق پھر حق ہوتا ہے ۔ اس دولت کی ریل پیل میں جب مودی کی دولت کے آگے مسلمانوں کے نام نہاد قائد اپنا ضمیر بیچ رہے تھے ۔ ایسے ماحول میں بہار کے کشن گنج حلقے سے اخترالایمان نے امید کی وہ کرن جگائی جو اب پورے بہار میں ایک لہر بن کرچھاتی جارہی ہے ۔ خبریں ہیں کہ اب بی جے پی کے بھاگلپور کے نمائندے شاہنواز حسین کے پرانے مسلم بی جے پی کارکنان نے حالیہ چناؤ میں ان کا کام کرنے سے انکار کردیا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ اس چناؤ میں وہ مودی کے کسی علمبردار کے لئے ہرگز کام نہیں کریں گے کیونکہ اس چناؤ میں صرف مسلم قوم کی موت و زندگی کا ہی سوال نہیں بلکہ اس چناؤ میں ہندوستان کا آئین ، سیکولر سیاست اور گنگا جمنی تہذیب داؤ پر لگی ہے ۔ اس لئے اس چناؤ میں ہر سیکولر مزاج باشندے کو بہار سے سبق لینا ہوگا ۔ 2014 ء کے پارلیمانی چناؤ ہندوستان کی سیول سوسائٹی کی بقا کے چناؤ بن چکے ہیں ۔ اگر ہم آج خاموش بیٹھے رہ گئے تو کل کو ہماری آواز ہی ختم کردی جائے گی ۔ آج گجرات میں کیا ہورہا ہے ؟ سوائے مودی کی آواز کے پورے گجرات میں کسی کی کوئی آواز نہیں ہے۔ اگر کوئی مودی کے خلاف چوں بھی کرے تو وہ اعلی پولیس افسر بھٹ کی طرح جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے ۔ اس لئے ان چناؤ میں ہر سیکولر ہندو اور مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے ۔ سب سے پہلے سیول سوسائٹی کے حضرات کو گھر گھر جا کر یہ سمجھانا چاہئے کہ سیکولر ووٹ ہرگز تقسیم نہیں ہونا چاہئے ۔ راقم الحروف کی رائے میں کانگریس ہی قومی سطح پر بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے اسلئے سیکولر ووٹر کی پہلی پسند انکی غلطیوں کے باوجود کانگریس ہی ہونی چاہئے ۔ لیکن جہاں علاقائی پارٹیاں ہیں ان جگہوں پر اگر دو سیکولر علاقائی پارٹیوں کے درمیان سیکولر ووٹ بٹ رہا ہو تو ان میں سے سیول سوسائٹی کے افراد کو ایسی علاقائی پارٹی کو چن لینا چاہئے جو فرقہ پرست پارٹی کو ہرانے میں کارگر ہو ۔ جیسے بہار میں لالو پرساد اور کانگریس کا اتحاد اس بار فرقہ پرستی کو ہرانے میں کارگر ہے اس لئے وہاں کا سیکولر ووٹر متحد ہو کر اسی کو جتانے میں اپنی قوت لگارہا ہے ۔ اسی طرح اترپردیش میں جہاں کانگریس مضبوط ہو وہاں کانگریس ، جہاں سماج وادی پارٹی مضبوط ہو وہاں سماج وادی پارٹی اور جہاں بہوجن سماج پارٹی مضبوط ہو وہاں بہوجن سماج پارٹی کو متحد سیکولر ووٹ پڑنا چاہئے ۔ اسی طرح آندھرا پردیش کی علاقائی پارٹیوں میں سے سیکولر ووٹر کو متحدہ اسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہئے جو مودی کے حامی نہ ہوں ۔ پھر چندرا بابو نائیڈو جیسے سیکولرازم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے علاقائی لیڈروں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح ہر صوبہ میں وہاں کی سیکولر علاقائی پارٹی یا کانگریس سے ہاتھ ملا کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔

لب لباب یہ کہ میڈیا کے غوغے اور کارپوریٹ ورلڈ کی دولت کے باوجود مودی کو ہرایا جاسکتا ہے بشرطیکہ ہندوستانی سیکولر سیول سوسائٹی بہار سے سبق لے کر متحد ہو کر ہر حلقے میں کسی ایک مضبوط سیکولر پارٹی کے حق میں اٹھ کھڑی ہو ۔ وقت بہت کم ہے ۔ اب گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے سے کام نہیں چلے گا ۔ جتھوں میں نکلئے اور ووٹر کو سمجھایئے ۔ گھر ، گھر ، محلہ محلہ میٹنگیں کیجئے ۔ خود پرچے بانٹئے اور سیکولر ووٹ کو فرقہ پرستی کے خلاف متحد کیجئے ، اسی میں ہماری ، آپ کی اور ہندوستان کی بقا ہے ۔