متاعِ شوق انتخاب کلام مومن خاں شوق

ڈاکٹر ناظم علی ، نظام آباد
مومن خاں شوق کی کتاب متاعِ شوق انتخاب کلام 2018 کو شائع ہوئی۔ کتاب کا انتساب اپنے والدین، شریک حیات اور تمام رشتہ داروں کے نام معنون ہے۔ اس انتخاب میںنظم کی تمام قسمیں موجود ہیں۔ حمد، نعت ، سلام، شب قدر، غزلیں، قطعات، نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کے صفحہ نمبر دو پر والد جناب منور خاں، برادر محترم جناب عمر خاں عاصی، فرزندان اشرف خاں، اکبر خاں، اشفاق خاں کی تصاویر شائع ہوئیں۔ انتخاب ہے تو اس میں شعر بھی معیاری ہونا چاہیئے کیونکہ انتخاب کی تعریف یہی ہے کہ تمام کمزور غیر اہم اشعار کو چھوڑ کر عمدہ اور معیاری شعروں کا انتخاب ہوتا ہے۔ مومن خاں شوق کی شاعری پر پروفیسر میر تراب علی کہتے ہیں:
مومن خاں شوق نے کئی شعری اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن غزل میں ان کی ادراکی قوت تخلیق بھرپور سانس لیتی ہے۔ غزل کا فن جگر سوزی اور جان کا ہی سے عبارت ہے ۔ اس فن کی آبیاری میں وہی لوگ شاد کام ہوتے ہیں جو فن کی نزاکت کے ساتھ شرافت‘ شائستگی‘ وضعداری اور ثقافت کے اعلیٰ اقدار کے علمبردار ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار میں معنی کی گہرائی پر غور کریں:
جسم اور چہرے الگ
آگہی کے شہر میں
یہ کیسا دور ہے کیسا جہاں ہے
جسے دیکھو امیر کارواں ہے
احساس درد مندی انسان کا ہے جوہر
اخلاص ہو جہاں بھی انسانیت وہاں ہے
نسل اور رنگ کا یہ فرق مٹایا جائے
پھر سے انسان کو انسان بنایا جائے
کیسے معنویت والے اشعار تخلیق ہوئے ہیں ، عصری حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ انسان کو انسان بنانا ہی عصری دور کا تقاضہ ہے۔
پروفیسر مقبول فاروقی حرف تاثر میں کہتے ہیں جناب مومن خاں شوق حیدرـآباد کے ایک ممتاز شاعر ہیں ، وہ ایک نہایت مخلص انسان کے ساتھ حساس شاعر انہ ذہن و فکر رکھتے ہیں، اور ایک عرصہ دراز سے اردو شعر و ادب کی آبیاری میں اپنا حصہ ادا کررہے ہیں ۔ انہوں نے شعری روایات کو بڑے حسن و خوبی کے ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے شعر پیش کیا ہے۔
مومن خاں شوق کئی ایک شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ بدلتے موسم ، چاندنی کے پھول، نشاطِ آرزو کرن کرن اُجلا، یہ موسم گُل اور سوغات نظر‘ قابل ذکر ہیں۔ انتخاب کے معیار سے ہی اہم اور معیاری اشعار کی شناخت ہوتی ہے۔ مومن خاں شوق نے زندگی اور زمانے کی باتیں کی ہیں اور اپنے کئی اشعار میں عصر حاضر کے انسان اور انسانیت کے مسائل کو موثر انداز سے پیش کیا ہے۔ وہ انسان میں شرافت، اخلاق اور روحانیت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی اور اس سے متعلق نشیب و فراز مل جاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
زندگی کے واسطے ہم نے کئے سو سو جتن
موت آخرت موت ہے اُس کو بہانہ چاہیئے
کسی کی ضِد نے مچائی ہے ایسی بربادی
عمارتوں کی جگہ اب کھنڈر کا منظر ہے
میں نے حق کی ہمیشہ ہی تائید کی
یہ خطا ہے تو مجھ کو سزا دیجئے
حق اور سچ کا ساتھ دینا ہے چاہے جان کیوں نہ نکل جائے۔ حق اور سچ کی ترجمانی کرنی چاہیئے، ایسے عمل پر نیکیاں ملتی ہیں۔ پھر کہتے ہیں :
اپنی اَنا کا پھر کوئی سودا نہ کیجئے
اے شوقؔ مصلحت میں تو اب تک گذر گئی
انسان کو مصلحت سے دور رہنا چاہیئے۔ مصلحت پسندی سے حقدار کا حق مار کھا جاتا ہے۔ اس طرح غزل اور نظموں میں مومن خاں شوق نے سماجی، معاشرتی حالات کی عکاسی کی ہے اور غزل کا جو فن ہے ایجاز و اختصار کو ملحوظ رکھ کر غزل لکھی ہے۔ غزل میں الفاظ مختصر مگر جامع استعمال کرتے ہیں۔ اس انتخاب میں مزید انتخاب اشعار کا کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مومن خاں شوق کا غزل اور تاریخ میں کیا مقام ہے:
اتنے برس تو گذرے یونہی ہنسی خوشی میں
اُفتاد آ پڑی ہے اکیسویں صدی میں
دیکھئے پھولوں کو کانٹوں میں بسر کرتے ہیں
اور انسان ہیں کہ آپس میں لڑ مرتے ہیں
ہم بھلا کس سے ملاقات کی خواہش کرتے
اپنے ہی شہر میں ہر شخص تھا تنہا تنہا
اِک تماشہ روز و شب
ہورہا ہے دہر میں
منتظر ہوں میں ایک مدت سے
کوئی آواز دے محبت سے
اس جفا کے شہر میں کیا کیا نہیں ہے دوستو
بے وفائی ہے ہنر تو ہے وفا جلتی ہوئی
ہے وطن میرے لئے اِک آبروئے زندگی
اس کی خاطر جان کی بازی لگانا چاہیئے
آدمی اب کہاں آدمی ان دنوں
زندگی اب کہاں زندگی ان دنوں
صرف باتوں سے مٹتی نہیں ظلمتیں
اِک چراغ محبت جلادیجئے
زندگی کتنی حسین لگتی ہے
آپ زینے سے اُتر کر دیکھیں
اس طرح مومن خاں شوق ؔنے اپنی غزلوں میں فکر و فن کے جلوے بکھیرے ہیں اور غزل کے گیسو فنکارانہ انداز سے سنوارے ہیں۔ ان کو نہ ستائش کی تمنا ہے اور نہ صلہ کی پرواہ۔ خاموش اردو نظم و نثر کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔124 صفحات کا یہ شعری انتخاب اردو ادب میں معتبر و مستند اضافہ ہے۔