محمود شام، کراچی (پاکستان)
ہماری کتنی بدقسمتی ہے کہ ہم ایک اسلامی مملکت ہیں۔ اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ لیکن اپنے مذہبی تہواروں پر خوف زدہ رہتے ہیں۔ دہشت گردی کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ سب ہی اپنے عظیم پیغمبر محمد ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کے تحفظ کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ جگہ جگہ بینر لگے ہوتے ہیں۔ غلامئی رسول میں موت بھی قبول ہے۔
لیکن عین روز جب دنیا کی اس محبوب ہستی کا مبارک دن آتا ہے تو چند روز پہلے سے ہی دہشت گردی کے خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ میلاد کے جلوسوں کی سکیورٹی کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ پی پی پی کے دور کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک دہشت گردی روکنے کے لیے موبائل فون بند کرنے کی روایت شروع کر گئے تھے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) جو اپوزیشن میں تھی۔ اس اقدام پر سخت تنقید کرتی تھی۔ اب جب حکومت میں ہے تو وہ بھی اس پر پابندی سے عمل کررہی ہے۔ محّرم کے دنوں میں بھی موبائل فون بند رہے۔ اب 12 ربیع الاول کو بھی کراچی میں صبح سے 10 بجے رات تک موبائل بند رہے۔ تجویز تو یہ بھی تھی کہ ای میل فیس بک وغیرہ پر بھی پابندی عاید کی جائے۔ لیکن صرف موبائل ہی بند رہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ انتہائی اہم اور با برکت دن خیریت سے گزر گیا۔ ملک بھر میں صبح سے شام تک جلوس نکلتے رہے۔ بچے، بڑے، نوجوان، خواتین سب ہی اپنے پیارے نبیؐ سے محبت کا اظہار کرتے رہے۔ شروع شروع میں پاکستان میں چند ایک شہروں میں بھی میلاد النبی کے موقع پر جلوس اور ریلیوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ لیکن اب چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں، سب جگہ ریلیاں نکلتی ہیں۔
یہ سب کچھ ٹی وی چینلوں کی نشریات کی بدولت بھی ہے۔ کیونکہ جس اہتمام سے محّرم کے جلسے، جلوس، مجلسیں دکھائی جاتی ہیں، اس طرح 12 ربیع الاول کی محفلیں اور جلوس بھی نشر کئے جانے لگے ہیں۔ ان جلوسوں میں سبز پگڑیاں، سبز ٹوپیاں، سبز پرچم لازمی حصّہ بن گئے ہیں۔ قیمتی گاڑیاں بھی شریک ہوتی ہیں۔ زیادہ تعداد موٹرسائیکلوں کی۔ اب اونٹ بھی عقیدت کا نشان بنا کر لائے جاتے ہیں۔ محّرم کے دنوں کی طرح اب ان دنوں میں بھی شرکا کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ اور اتنی ہی عقیدت، جوش اور جذبہ۔ دعا کیجئے کہ یہ مبارک دن جلوسوں پر خطرات سے آزاد ہوجائیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ جلد ممکن ہوسکے۔
پچھلے ہفتے دہشت گردوں نے اپنے ایک بڑے دشمن اور بہادر پولیس آفیسر چوہدری محمد اسلم کو کراچی میں گھر سے دفتر جاتے وقت بم دھماکے سے ہلاک کردیا۔ یہ کراچی ہی نہیں ملک بھر کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا۔ طالبان نے اسکی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ چند روز پہلے ہی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ نے چوہدری اسلم کو ٹیلی فون پر دھمکی بھی دی تھی کہ ان کا وقت آگیا ہے۔ چوہدری اسلم کے قتل کا مقدمہ طالبان کے سربراہ، طالبان کے ترجمان اور مقامی عہدیداروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔ یہ خودکش بم دھماکہ تھا۔ جائے وقوعہ سے حملہ آور کا ہاتھ بھی ملا۔ اسی کے ذریعے قاتل کی شناخت ہوگئی۔ باقی ساتھی بھی پکڑے گئے۔ چوہدری اسلم نے انتہائی دلیری سے طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کو چیلنج کیا تھا۔ بہت خطرناک ملزم پکڑے بھی گئے۔ مقابلے میں مارے بھی گئے۔ چوہدری اسلم کو سیاست دانوں نے تو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ مگر خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف نے بھی پہلی بار ایک سول افسر کی ہلاکت پر بیان جاری کیا۔
اس سانحے نے کراچی میں طالبان کی موجودگی کو تسلیم کروالیا ہے اور طاقت کو بھی کہ ان کے ہاتھ انتہائی اہم اور خبردار پولیس آفیسر تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ چوہدری اسلم پر پہلے بھی چھ سات حملے ہوچکے تھے۔ اس حملے میں وہ محفوظ نہ رہ سکے۔ جو طالبان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ کراچی پولیس اس کے بعد نئی صف بندی کررہی ہے۔ طالبان سے مذاکرات اس سانحے کے بعد پھر تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ مذاکرات کے مخالفین کی آواز زیادہ بلند ہوگئی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ آپ کے ممبئی کی طرح سمندر کے کنارے پر آباد ہے۔ غیر قانونی کچی بستیاں بڑی تعداد میں ہیں۔ ان سیکڑوں بستیوں میں طالبان کے ٹھکانے بتائے جاتے ہیں۔ جنہیں ’’نوگو ایریا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پولیس بھی مشکل سے داخل ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف، عمران خان، طالبان سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ روزانہ اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ لیکن کبھی کسی ڈرون حملے سے ہونے والی ہلاکتیں اور کبھی دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی اموات مذاکرات کا راستہ روک دیتی ہیں۔
مشرف صاحب ابھی تک فوجی ادارہ برائے امراض قلب میں ہیں۔ قوم اور سیاست دان اس غداری کے مقدمے پر دو گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ اسی طرح میڈیا اینکر پرسنز، کالم نویس بھی اس تقسیم میں مبتلا ہیں۔ یہ نکتہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف تو عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ پہلے بھی کئی عدالتوں میں حاضری دے چکے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ فوج اس حق میں نہیں ہے کہ ان کے سابق چیف غداری کے مقدمے میںعدالت میں پیش ہوں۔ لال مسجد، اکبر بگتی اور بے نظیر بھٹو کی ہلاکتوں کے مقدمے میں مشرف ذاتی طور پر نشانہ تھے۔ لیکن غداری کے مقدمے میں مشرف کی ذات نہیں، پوری فوج نشانہ بنے گی۔ اور اس وقت کے کورکمانڈرز وغیرہ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ فوج کے خلاف الزامات کا ایک سلسلہ چل نکلے گا۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے۔ اس وقت تک یہ واضح ہوچکا ہوگا کہ مشرف صاحب اس عدالت میں پیش ہوتے ہیں یا کہ نہیں۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800