مبارک جنوری سب کو مبارک

مگر ایسا ڈسمبر پھر نہ آئے

رشیدالدین

ہندوستان نے سال 2014 ء کو کئی تلخ تجربات کے ساتھ وداع کیا اور 2015 ء کا اس امید کے ساتھ استقبال کیا کہ نیا سال امن ، خوشحالی ، ترقی ، باہمی اخوت، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کی نوید ثابت ہوگا۔ 2014 ء کا جائزہ لیں تو انتخابی تیاریوں اور سرگرمیوں سے اس کا آغاز ہوا تھا اور پھر سال کے اختتام تک نریندر مودی حکومت کے 7 ماہ مکمل ہوگئے۔ یوں تو ہر سال ،گزرنے کے ساتھ کچھ تلخ اور خوشگوار یادوں کو چھوڑ جاتا ہے لیکن 2014 ء عوام کیلئے تلخ اور مایوسی کے جذبات کے ساتھ رخصت ہوا۔ اس سال عوام کے لئے خوشی منانے کی گنجائش بہت کم رہی۔ مایوسی اس اعتبار سے کہ نریندر مودی نے انتخابی مہم میں خوش کن وعدوں اور نعروں سے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی تھی لیکن 7 ماہ کے عرصہ میں عوام کے خواب بکھرنے لگے اور وعدوں و اعلانات کی سچائی بے نقاب ہونے لگی۔ تلخیاں اس لئے کہ گزشتہ 7 ماہ میں سنگھ پریوار نے سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والی آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کیلئے 2014 ء عروج کا سال تھا۔ تمام زعفرانی تنظیمیں اس سال جیسے بے لگام تھیں۔ دستور اور قانون کو بے خاطر کرتے ہوئے نفرت کے یہ سوداگر وقفہ وقفہ سے مختلف عنوانات کے ذریعہ سماج میں زہر گھولتے رہے اور نریندر مودی اپنی خاموشی کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں 30 سال بعد اکثریت حاصل کرنے پر بے قابو ہے۔ 31 تا 33 فیصد ووٹ سے کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی جمہوریت کی طاقت سے جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ جن رائے دہندوں نے بی جے پی کو اقتدار کے تخت تک پہنچایا ۔ وہی رائے دہندے اسے تخت سے اکھاڑ پھینکنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ آزادی کے بعد ملک نے کئی مضبوط حکومتوں کے زوال کو دیکھا ہے۔ ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے نریندر مودی 7 ماہ میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل توکجا اس راہ پر پیشرفت کرنے میں ناکام رہے۔ حکومت نے کئی اہم مسائل پر یو ٹرن لے لیا۔ روٹی اور روزگار کا مطالبہ کرنے والوں کو مذہبی منافرت کی افیون پلاکر سماج کو بانٹنے کی سازش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے وعدوں اور مقبولیت کی ہوا اب اکھڑنے لگی ہے، جس پر سوار ہوکر ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ تھا۔ لوک سبھا کے بعد بعض ریاستوں میں کامیابی نے بی جے پی کو جیسے جنون کی منزل میں پہنچادیا تھا لیکن 2014 ء کے اختتام کے قریب مودی کے ’’وجئے رتھ‘‘ کی رفتار دھیمی ہونے لگی ہے۔ دہلی اور پھر بہار میں جاریہ سال عوامی فیصلہ مودی حکومت پر عوامی ریفرنڈم رہے گا۔ سوچھ بھارت کے نام پر ملک بھر میں صفائی کی مہم چلانے والے نریندر مودی کو چاہئے کہ ملک کی صفائی سے زیادہ پارٹی قائدین کے ذہنوں کی صفائی کریں۔ حکومت سے سنگھ پریوار کے نمائندوں کی صفائی ہونی چاہئے

جو ملک کو ترقی کے بجائے مزید پسماندگی کی طرف ڈھکیلنا چاہتے ہیں۔ مودی کے 7 ماہ کے دور حکومت میں عوامی وعدوں کی تکمیل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن جارحانہ فرقہ پرستی کے علمبرداروں کو کچھ ایسی چھوٹ دی گئی جیسے ملک میں دستور، قانون اور حکومت کا وجود ہی نہ ہو۔ سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کو سزا کے بجائے انعامات دیئے گئے۔ جن کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا تھا، انہیں مرکزی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ مظفر نگر فسادات کے ملزم سنجیو بلیان اور مودی مخالفین کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے گری راج سنگھ کی کابینہ میں شمولیت اس کا کھلا ثبوت ہے۔ الغرض 2014 ء کو کٹر پنتھی طاقتوں کے استحکام کا سال اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی سے ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں شروع ہوچکی تھی اور بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔ مرکزی وزراء اور بی جے پی کے نامزد گورنرس بھی آر ایس ایس کے لہجہ میں بات کرنے لگے۔ جن لوگوں نے دستور سے وفاداری کا حلف لیا ، وہ سیوم سیوک اور سنگھ پریوار سے تعلق پر کھلے عام فخر کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ جب دستور کی پاسداری کا حلف لینے والے ہی خلاف ورزی پر اتر آئیں تو سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کا بے قابو ہونا فطری ہے اور گزشتہ 7 ماہ سے یہی کچھ ہورہا ہے۔

لوک سبھا کے عام انتخابات سے قبل شروع ہوئی نفرت کی مہم سال کے اختتام تک عروج پر پہنچ گئی۔ 2014 ء کے آخری ماہ ڈسمبر میں تو ایسا محسوس ہوا جیسے نفرت کے ان پرچارکوں نے تمام حدود کو پار کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کے مذہبی تشخص پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں نے آخری ایک ماہ یعنی ڈسمبر میں جس طرح شدت سے منافرت کی مہم چلائی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پانچ برس کا زہر ایک ماہ میں اگل دیا ہو۔ رام مندر، یکساں سیول کوڈ ، بم دھماکوں میں مسلمانوں کو پھانسنے کی کوشش، دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز قرار دینا ، بھکوت گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دینے کی تجویز، سنسکرت کو لازمی قرار دینا، تعلیمی نصاب کو زعفرانی بنانے کی کوشش بی جے پی کے مخالفین کو حرام زادے کہنا ، لو جہاد کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم ، الغرض وقفہ وقفہ سے حساس اور متنازعہ مسائل پر سماج کے سیکولر تانے بانے بکھیرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ سرگرمیاں اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئیں جب گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبراً ہندو بنانے کی تحریک شروع کی گئی۔ مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ سمیت بی جے پی کے کئی قائدین نے کھل کر اس مہم کی تائید کی۔ اتنا ہی نہیں بابائے قوم گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو دیش بھکت کا خطاب دیتے ہوئے اس کے نام پر مندر کی تعمیر کا اعلان کردیا گیا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ جب گوڈسے کو گاندھی جی کے برابر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب کچھ نریندر مودی کی نگرانی اور سرپرستی میں ہوتا رہا اور وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے رہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں پر وزیراعظم کی خاموشی کو ’’نیم رضامندی‘‘ نہیں تو کیا سمجھا جائے؟ جبری تبدیلی مذہب کا آگرہ سے آغاز ہوا اور پھر ملک کے مختلف حصوں میں آر ایس ایس ، وی ایچ پی ، بجرنگ دل اور ان کی محاذی تنظیموں نے باقاعدہ پروگرام منعقد کرنے شروع کئے۔ موہن بھاگوت، اشوک سنگھل اور پراوین توگاڑیہ نے اس مہم کی قیادت کی کمان سنبھال لی۔ بی جے پی کے ایم پی یوگی ادتیہ ناتھ نے تبدیلی مذہب پروگرام میں حصہ لیا جبکہ دوسرے ارکان پارلیمنٹ ساکشی مہاراج اور ونئے کٹیار ، ناتھورام گوڈسے کی تائید میں دکھائی دیئے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی زبان بند رہی۔ مخالفین مودی کو مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی نے حرام زادے قرار دیا تو مودی نے پارلیمنٹ میں افسوس کا اظہار کیا لیکن گھر واپسی کے نام پر جبری تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر کئی دن تک پارلیمنٹ کی کارروائی مفلوج رہی لیکن مودی نے زبان نہیں کھولی۔ ظاہر ہے کہ یا تو سنگھ پریوار کا خوف یا پھر ان سرگرمیوں کو ان کی تائید۔ یہ دو وجوہات ہی خاموشی کا سبب ہوسکتی ہیں۔ گھر واپسی مہم کی آڑ میں تبدیلی مذہب پر امتناع سے متعلق قانون سازی کا منصوبہ ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ قوم دشمنی کے مترادف ہوگا کیونکہ دستور ہند نے اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے

اور اس کے پرچار کا حق دیا ہے، جسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ کیا مودی حکومت ہندوستان کو اسرائیل اور میانمار میں تبدیل کرنا چاہتی ہے؟ 7 ماہ کی حکمرانی میں مودی حکومت نے ملک کے اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز بھارت رتن کو بھی زعفرانی رنگ دیدیا۔ اٹل بہاری واجپائی اور ہندو مہا سبھا کے بانی مدن موہن مالویا کو اس اعزاز کیلئے منتخب کیا گیا۔ اگر یہی روش رہی تو آنے والے دنوں میں ویر ساورکر ، گرو گولوالکر اور ناتھورام گوڈسے جیسے نام بھی اس اعزاز کے لئے زیر غور آسکتے ہیں۔ نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس اور 10 سال تک فرقہ پرست سرگرمیوں پر روک لگانے جیسے اعلان پر قائم نہ رہ سکے جس کا انہوں نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے اعلان کیا تھا لیکن ستمبر سے سنگھ پریوار کی سرگرمیوں میں شدت مودی کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار کو ہر سال کے اواخر میں ہی نفرت کی مہم کا خیال کیوں آتا ہے اور فرقہ پرستی کا جنون عروج پر کیوں ہوتا ہے۔ سابق میں ستمبر تا ڈسمبر سنگھ پریوار کی کئی حرکتیں تاریخ میں درج ہے۔ ستمبر 1990 ء میں ایل کے اڈوانی نے رام مندر کی تعمیر کیلئے رتھ یاترا کا آغاز کیا تھا۔ اکتوبر 1990 ء میں ایودھیا میں کار سیوا کی کوشش کی گئی اور 6 ڈسمبر 1992 ء بابری مسجد شہید کردی گئی۔ شاید بی جے پی اور سنگھ پریوار کو اپنی سرگرمیوں کیلئے ڈسمبر کا مہینہ ہی پسندیدہ ہے۔ 7 ماہ کی مودی حکومت پر کئے گئے 2 سروے بی جے پی سے عوامی ناراضگی کا ثبوت ہیں۔ ایک سروے میں قومی سطح پر مودی مقبول قائد کی حیثیت سے برقرار ہیں لیکن دہلی میں اروند کجریوال ان سے زیادہ عوامی سطح پر مقبول دیکھے گئے۔ ایک اور سروے میں ملک کے 62 فیصد عوام نے اس احساس کا اظہار کیا کہ سنگھ پریوار کی سرگرمیاں حکومت کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ سروے نریندر مودی کیلئے آئی اوپنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وعدوں پر عمل آوری کرتے ہوئے ’’راج دھرم‘‘ نبھائیں جس کا درس گجرات فسادات کے وقت اٹل بہاری واجپائی نے دیا تھا۔ عوام کے ساتھ ساتھ ہم بھی امید کرتے ہیں کہ 2015 ء فرقہ واریت اور نفرت کے بجائے محبت ، اخوت اور ترقی کا سال ہوگا۔ معراج فیض آبادی کا یہ شعر عوامی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
مبارک جنوری سب کو مبارک
مگر ایسا ڈسمبر پھر نہ آئے