مباحث ، سوالات لیکن کوئی جوابات نہیں

چدمبرم
سابق وزیر داخلہ و فینانس
جمعہ 20 جولائی کو حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو بحث کیلئے بادل نخواستہ قبول کرلیا گیا اور نریندر مودی کے چار سال دو ماہ کے دور ِ حکومت میں یہ پہلا موقع تھا ۔ اراکین کی جانب سے کئی سوالات اُٹھائے گئے ۔ آپ کی طرح میں بھی جوابات کا منتظر تھا خاص طورپر اُن سوالات کا جس کا تعلق معیشت سے تھا ۔ ملک کو وزیراعظم کی جانب سے (اُن 90 منٹ میں ) جو جوابات ملے وہ زیادہ تر کانگریس پر تنقید ، وہی تھکادینے والے فقرے ( جیسے میں کامدار ہوں ) ، سیاسی پرچوں کو پڑھ کر سنانا اور زیادہ سے زیادہ خود ستائی ( میں غریبوں کا مونس خوار ہوں ، میں نوجوانوں کے خواب کی تعبیر ہوں وغیرہ وغیرہ )
ملک کے طول و عرض میں سوالات کی بوچھار کی جارہی تھی ۔ چنانچہ میرے مندرجہ ذیل مضمون میں میں نے ان سوالات کو اُٹھایا ہے ( اور اُن کے حق گوئی پر مبنی ممکنہ سچ جوابات دینے کی سعی کیاہوں)
معیشت میں بگاڑ
سوال : مودی کے دوران حکومت میں معاشی ترقی کے لحاظ سے کونسے سال سب سے خراب تھا اور کیوں ؟
جواب ۔ 2017-18 کیونکہ حکومت نے اصلاحات کو خیرباد کرکے معاشی سرمایہ کاری پر کاربند ہوگئی ۔ حکومت نے معیشت کو اپنے قابو میں رکھنے کے مختلف حربے اختیار کرلی ، درآمدی متبادل ، قیمتوں پر قابو ، مقداری پابندیاں ، تمام اقسام کی درآمد و برآمد پر کنٹرول ، ماضی کے متعلق ٹیکس اور تادیبی قوانین کانفاذ ۔
سوال : ابھی تک بھرپائی کے آثار کیوں نظر نہیں آرہے ہیں ؟
جواب : کیونکہ مجموعی سرمایہ کاری کا رجحان ( سرمایہ کاری کا تناسب) 2013-14 کے 31.3 فیصد بی ڈی پی سے تیزی سے تنزلی کی سمت گامزن ہوگیا اور سابقہ چار سالوں میں تقریباً 28.5 فیصد تک آکر منجمد ہوگیا۔
سوال : صنعت کا کیا حال ہے خاص طورپر پیداواری صنعت ؟
جواب : ڈسمبر 2016 ء اور اکتوبر 2017 ء میں صنعتی پیداوار کا اشاریہ 2.6 فیصدی کم تھا ۔ نومبر 2017 ء اور فبروری 2018 ء کے درمیان میں بحالی کے کچھ آثار نظر آئے لیکن مارچ ، اپریل اور مئی میں شرح ترقی پھر سے تنزلی کا شکار ہوگئی یعنی 4.6 فیصد ، 9.8 فیصد اور 3.2 فیصدی پر چلی گئی ۔ مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں اس طرح کی تنزلی خاص طورپر دیکھی گئی۔
سرمایہ کاری میں کمی ، ملازمتوں کا فقدان
سوال : کیا شرح ترقی میں اچانک گراوٹ متوقع تھی ؟
جواب : نہیں کیونکہ شرح ترقی کریڈٹ سے جڑی ہوئی ہے اور بینکس کی جانب سے صنعتوں کو قرض کی فراہمی کئی ماہ تک صرف ایک فیصد تک ہی رہے اور یہ شرح تو کبھی کبھار منفی رجحان اختیار کرلی اور سب سے زیادہ قرض کی عدم فراہمی کاشکار چھوٹے اور متوسط ادارے جات رہے ۔
سوال : قرضوں کی فراہمی میں تساہل کی وجہ ؟
جواب : قرضوں کی فراہمی کا تعلق پوری طرح سے بینکوں کے صحت مند رہنے پر منحصر ہے ۔ آر بی آئی کی مالی استحکام رپورٹ کے مطابق مارچ 2018 ء میں ، بینکوں کے عدم کارکرد اثاثوں کا مجموعہ 11.6 فیصد تک جاپہنچا اور یہ ستمبر 2017 ء میں 10.2 فیصد تھا ۔ حکومت کے بینکوں کی کارکردگی میں مداخلت کے نتیجہ میں بینک بحران شدت اختیار کرلیا جس کے نتیجہ میں بینکس کو یا تو ٹیکس دہندگان کی رقم کو بینکس میں جمع کرنا پڑا یا پھر بینکس قریب قریب دیوالیہ کا شکار ہوگئے (IDBI) سے لیکر LIC تک ۔
سوال : سرمایہ کاری کی صورتحال کیا ہے؟
جواب : 2017-18 ء میں نئے سرمایہ کاری منصوبے جات 38.4 فیصد تک گھٹ گئے اور بہ نسبت سابقہ سال کے نئے منصوبوں کی تکمیل 26.8 فیصد تک تنزل پزیر ہوگئی ۔
کئی منفی رجحانات
سوال :کیا ملازمتیں مہیا کی جارہی ہیں ؟
جواب : دی سنٹر فار مانیٹرنگ آف انڈین اکانومی کی رپورٹ کے مطابق 2017-18 میں 406.2 ملین افراد کو ملازمتیں فراہم کی گئیں جو 2016-17 سے کم یعنی 406.2 ملین ہے ۔ وزارت صنعت ٹاملناڈو نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ 2017-18 ء میں تقریباً پچاس ہزار چھوٹے اور متوسط کاروبار بند کردیئے گئے جس کی بنیاد پر افراد کو پانچ لاکھ ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور اس کی اہم وجہ کرنسی کی تبدیلی بتائی گئی ۔
سوال : افراط زر کے بارے میں کیا نظریہ ہے ؟
جواب : جون میں ٹھوک افراط زر 5.8 فیصد تھا جو پچھلے چار تا پانچ سالوں میں سب سے زیادہ ہے اور صارف کی افراط زر قیمت جون میں پانچ فیصد تھی جو مزید بڑھ سکتی ہے ۔ آر بی آئی نے جون میں پالیسی شرح میں اضافہ کیا ہے اور ماہ اگسٹ میں اس میں مزید اضافہ کا اندیشہ ہے ۔
سوال : حکومت نے شعبہ زراعت کیلئے کیا امداد بہم پہنچائی ہے ؟
جواب : کچھ بھی نہیں ۔ ڈاکٹر اروند سبرامنین نے اپنی کتاب اکنامکس سروے 2018 ء میں تسلیم کیا ہے کہ 2014 ء سے حقیقی زرعی آمدنی جمود کا شکار ہے ۔ کسانوں کی تنظیموں اور زرعی سائنٹسٹ اورماہر معاشیات ( جیسے کہ ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن اور ڈاکٹر اشوک گلاٹی ) اس خیال پر متفق ہیں کہ حالیہ ایم ایس پی میں ضافہ کااعلان دراصل ایک جملہ ہے جس کااطلاق دھان ، گیہوں اور کاٹن کی حد تک میں ہے اور کئی ریاستوں میں عدم حصول ہے اور یہ کسانوں کی اکثریت کیلئے سودمند نہیں ہے ۔
سوال : ملک میں کلیاتی معاشیات Macro_Ecnomics کی کیا صورتحال ہے ؟
جواب : شائد ہی 2017-18 ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.87 فیصد تک جاپہنچا جو 2012-13 کے بعد سب سے زیادہ ہے اور توقع ہے کہ یہ 2018-19 ء میں دو فیصد کو پار کرلے گا اور بڑھتی ہوئی تجارتی جنگیں ہندوستان کیلئے منفی پہلو کی حامل ہیں ۔ چار سال کے دوران میں تجارتی اشیاء کی درآمد منفی رہی اور تجارتی توازن بھی منفی رہا اور روپئے کی قدر مسلسل روبہ زوال رہی جو جون میں ڈالر کے خلاف 64.50 سے گرکر 69.05 جولائی تک پہنچ گئی اور حکومت مالی خسارہ کو 3.3 فیصد تک ہدف حاصل کرنے کیلئے 2018-19 ء میں بڑی تگ ودو کرنی پڑے گی ۔
ان سارے عوامل پر اگر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم اُس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ معیشت سخت خطرہ میں ہے اور اُس کو حکومت کے غیردوراندیش اقدامات جیسے کرنسی کی تبدیلی ، جی ایس ٹی کا ادنیٰ نفاذ عمل ، اور ٹیکس دہشت زدگی جیسے اقدامات نے حال کا بے حال کردیا اور بی جے پی جس وقت اور زیادہ بے بس ہوجائے گی تو اُس کی آواز میں تیز و طراری ، قومیت کا خالی پٹارہ بجانا ، رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر منقسم کردینا اور سماج کو طبقہ واری اثاث پر بانٹ دینا وغیرہ ایجنڈہ پر سختی سے کاربند ہوجائے گی تاکہ اپنی ناکامی اور خفگی کو پوشیدہ رکھے۔
وزیراعظم کی جانب سے دیئے گئے جواب میں ان سارے عوامل کی جھلک نظر آتی ہے لہذا تحریک تو ناکام ہوچکی ہے اور عوام کے ان سوالات کے جوابات دینے کا بھی موقع ہاتھ سے نکل گیا ۔
pchidambaram.india@gmail.com