ماں کی بے بسی کا آنسو عرش کو ہلادیتا ہے

سید جلیل ازہر
’’عورت‘‘ چار حرفوں کا مجموعہ ہے۔ ع ۔ و ۔ ر۔ ت۔ عورت کے کئی کردار ہوتے ہیں۔ بچپن میں وہ بیٹی ہوتی ہے ، بہن ہوتی ہے اور جوانی میں کسی کی نظروںکا سہانہ خواب یعنی شریک حیات پھر وہ ماں کا روپ اختیارکرلیتی ہے ۔ خدا کی مخلوق پیدا کرنے والی ’’ماں‘‘ کبھی اس نے زلیخا کا روپ اختیار کیا تو کبھی یہ جھانسی کی رانی بنی تو کبھی اس نے اندرا گاندھی کا کردار ادا کیا ۔ کائنات جانتی ہے کہ ماں کے شفیق کردار میں جب ماں کی آغوش میں بچہ دنیا کے ہر غم سے آزاد ہوکر پرورش و تربیت پاتا ہے ۔ اگر اس کا بچہ بیمار ہوجائے تو وہ اس کی تیمارداری میں دن رات ایک کردیتی ہے ۔ اس کی بھوک پیاس سب غائب ہوجاتی ہے ۔ راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔ وہ اپنے لاڈلے بچہ کو اپنے خون سے سیج کر سماج میں رہنے والا ایک نیک شہری بناتی ہے لیکن جب ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو ان کی اولاد کے رویہ سے جو صدمہ پہونچتا ہے ، اس طرف نافرمان اولاد کو چاہئے کہ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر تنہائی میں اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم ضعیف ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔
پر کیا لگے کہ گھونسلے سے اُڑ گئے سبھی
وہ پھر اکیلی رہ گئی بچوں کو پال کر
یاد رکھو ضعیف ماں باپ کا دل دکھانے والا شخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا وہ ماں جس نے رات کے اوقات میں بجلی چلی جائے تو اپنے آنچل کے ڈوپٹہ سے تیرے پر پنکھا چلایا کرتی تھی ۔ رات کی پکی ہوئی روٹی خود کھاکر تجھے تازہ روٹیاں کھلاتی تھی ۔ آج ماں کو ہاتھ کا پنکھا دے کر ایک کمرہ میں ڈال دیتے ہیں اور خود اے سی کمرے میں لیٹ جاتے ہو ، کیا تمہاری ماں کو گرمی نہیں ہوتی ، ماں وہ عظیم ہستی ہے کہ مرجائے اور اس کے قریب تم روتے رہو تو ماں کا بس نہیں ، اگر وہ کفن میں ہو اور بچہ روتا کھڑا ہو تو اس کا بس چلتا تو وہ کفن سے باہر نکل کر اپنے بیٹے کو گلے لگا لیتی ۔ یہ بات ان سے پوچھو جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ نہیں ہے ، ان سے پوچھئے ماں کی قیمت کیا ہوتی ہے ۔ یاد رکھو ایک ماں کی فریاد ساری کائنات کو زیر و زبر کردیتی ۔ یاد رکھو ایک نیک سیرت عورت سے بڑھ کر کوئی خوبصورت نہیں ہوسکتی ۔ عورت کے یوں تو کئی روپ ہیں لیکن ان میں سب سے اہم اور سب سے اعلیٰ روپ ’’ماں‘‘ کا ہے جس کے سامنے بڑے بڑے شہنشاہوں کو بھی سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اب بھی ان بیٹوں کے لئے وقت ہے جن کی ماں ان کے رویہ سے ناراض ہے تو منالو کیونکہ ماں سے نافرمانی کرنے والے بیٹوں کے جذبات کے تناظر میں کسی شاعر نے اپنے جذبات کو یوں قلمبند کیا ہے کہ جن کی ماں خفا ہوگئی ہو ان کیلئے
ساتھ ساتھ چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
روٹھ گئی ہے میری ماں تو میں منالوں گا
موم کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
ایک ایسا واقعہ جو میرے مطالعہ میں آیا ہے جس کو قلمبند کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کم از کم اس واقعہ سے ان بیٹوں کا احساس جاگ اٹھے ، واقعہ یوں ہے ’’ایک رات تاریکی میں ضعیف جوڑا بے تحاشہ روتے ہوئے سڑک پر جارہا ہے، ان کی سسکیاں دور تک سنی جارہی ہیں، کچھ لوگ وہاں سے گزر رہے تھے ، رات کی تاریکی تھی ، چند آدمی ان کے سامنے آگئے جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں، ان میں سے ایک نوجوان نے دونوں سے پوچھا کہ کون ہو ، اس طرح کیوں رو رہے ہو۔ ان ضعیف میاں بیوی نے کہا کہ ہمارے بیٹے نے ہمیں گھر سے نکال دیا ۔ اب ہمیں اپنی منزل کا پتہ نہیں اس وقت کسی سرائے کی تلاش میں جارہے ہیں تاکہ رات تو گزار سکیں۔ ان لوگوں نے دونوں میاں بیوی کا جائزہ لیا وہ بہت بوڑھے اور کمزور تھے ، ان میں سے ایک نوجوان جو شائد ان کا سر دار تھا، ان سے کہا بابا آپ دونوں ہمارے ساتھ آئیں ہم اپنے مہمان خانہ میں رکھیں گے ۔ دونوں نے رات گزاری ، صبح ہونے کے بعد دوسرے دن انہیں عدالت میں پیش کیا اور قاضی شہر کو تمام تفصیلات سے واقف کروایا۔قاضی نے ان ضعیف ماں باپ کے بیٹے کو طلب کیا اور بیٹے سے تفصیلات حاصل کیں۔ بیٹے نے اقرار کیا کہ اس ماں باپ کو گھر سے نکالا ہے۔ قاضی نے اپنے درباری کو حکم دیا کہ پانی سے بھرا ایک گھڑا لایا جائے ، پانی سے بھرا گھڑا آگیا اور قاضی نے حکم دیا کہ یہ گھڑا اس نافرمان بیٹے کے پیٹ کو باندھا جائے۔ اگر گھڑا ٹوٹ گیا اور پانی گر گیا تو تجھے سزائے موت دیدی جائے گی ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ، اس کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا ، شام کے وقت ماں باپ کو بلایا گیا ۔ بیٹے کی حالت دیکھ کر اب بھی ماں باپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ بیٹے کی تڑپ دیکھتے ہوئے ضعیف ماں باپ نے قاضی سے گزارش کی کہ ہمارے بیٹے کو معاف کردو ۔ قاضی نے کہا کہ تیرے پیٹ پر گھڑا باندھے نو گھنٹے نہیں ہوئے ، تیری یہ حالت ہے تو غور کر تیری ماں نے نو ماہ تجھے پیٹ میں رکھا اور آج تو ان کو گھر سے نکال رہا ہے ، جنہوں نے تیری پرورش میں کوئی کمی نہیں کی اور پھر اس کے پیٹ سے گھڑا اتاردیا گیا ۔ بیٹا ماں باپ کے قدموں میں گرکر روتے ہوئے اس بات کا عزم کیا کہ میں آج کے بعد کبھی اپنے ضعیف ماں باپ کو تکلیف نہیں دوں گا۔ یاد رکھو ماں کی بے بسی کا آنسو عرش کو ہلا دیتا ہے۔ باپ کی بے بسی کی فریاد عرش کو ہلا دیتی ہے۔ ماں باپ کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو ان سے پوچھو جن کے ماں باپ اس دنیا میں نہیں رہے ، ماں کی ممتا سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں۔
سر پھری بھی ہوگئی تو کیا ہوا لے جائے گی
پھول کی خوشبو مہکنے کی ادا لے جائے گی
اور جان لیوا حادثہ کے درمیان سے کھینچ کر
تجھ کو گھر واپس تیری ماں کی دعا لے جائے گی
ایک اور واقعہ ہے جس سے ماں کی ممتا اور اس کے جذبات کی ترجمانی قلمبند کر رہا ہوں کہ ماں نے اپنے ایک پچیس سالہ بیٹے کو سامنے بٹھالیا کہ آج اس کا امتحان لیا جائے ۔ دھوپ ، چمک رہی تھی ، گھر کا سہن تھا ، ایک کوا دیوار پر بیٹھا تھا ، ماں نے بڑے پیار سے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے کہا ، کوا ، ماں نے دوبارہ پوچھا کیا ہے ، کوا ، اس طرح چار مرتبہ اپنے بیٹے سے ماں نے پوچھا تو لخت جگر نے ماں کو جھڑک دیا اور کہا کہ تم پاگل ہو کیا باربار کہہ رہا ہوں پھر پوچھ رہی ہو۔ ماں کی پلکوں کے حصار کو توڑکر آنسو نکل آئے ۔ درد بھری آوازنیں ’’ماں‘‘ نے کہا کہ بیٹا پچیس برس پہلے تو اسی جگہ بیٹھا تھا ، بار بارمجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کیا ہے ، ہر بار میں تیری پیشانی کو بوسہ لیتے ہوئے جواب دے رہی تھی۔ میں نے چار بار کیا پوچھ لیا تونے مجھے پاگل کہہ دیا ۔ ارے ایسے مقدس رشتوں کی قدر نہیں کروگے تو کیا حشر ہوگا غور کرو ۔ اگر ماں مرگئی ہو تو کبھی کبھی قبرستان چلے جایا کرو ، کچھ دیر اس کے قدموں میں بیٹھ جاؤ اگرماں زندہ ہے تو گھر جاؤ اس کے پیروں پر اپنے رخسار کو رگڑا اور اپنے ضمیر سے پوچھو کہ ماں نے مجھے جنم دیا ہے تو نہ ہوتی تو میں کہا ہوں ۔
یہ دنیا کی رعنیاں نہ ہوتی یہ زینت نہ ہوتی ۔ کبھی کبھی اپنی ماں کا دوپٹہ پکڑ کر دعا کرلیا کرو کہ یا اللہ تجھے میری ماں کے ڈوپٹہ کا واسطہ ہے ، ان کو صحت مند اور تندرست رکھ۔ دنیا جانتی ہے کہ ہماری مائیں جب بوڑھی ہوجاتی ہیں تو ان کے جوڑ کیوں درد کرتے ہیں۔ اس لئے کہ جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو بچے کی ناف سے ایک نالی ماں کے جسم کے ساتھ جوڑ جاتی ہے ، یہ قانون قدرت ہے جس سے وہ اپنی غذا لیتا ہے۔ اگر ماں متوازن خوراک نہ بھی لے تو اس نالی کے ذریعہ بہ ماں کی ہڈیوں اور جوڑوں سے نمکیات کھینچ کر اپنی ضرورت پوری کرلیتاہے اور ماں کی ہڈیاں اور جوڑ کمزور ہوجاتے ہیں جو بڑھاپے میں شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ؟
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے