محمد ریاض احمد
ماں تو ماں ہوتی ہے۔ اسے اپنے بچوں کا کوئی درد اور غم برداشت نہیں ہوتا وہ اولاد کی تکلیف کا احساس اپنے جسم میں محسوس کرتی ہے۔ بچوں کی خوشیوں پر اسے خوشی ہوتی ہے اور ان کی آنکھوں سے جب آنسو رواں ہوتے ہیں تو ماں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں جاری ہو جاتا ہے۔ ماں کو جب اپنے بچوں پر غصہ آتا ہے تو وہ رودیتی ہے اور اپنے بچوں کو چاہتے ہوئے بھی وہ پٹائی نہیں کرتی کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے جسموں پر پڑنے والے مار کا اثر اس کے رگ و پے میں اثر جاتا ہے۔ ماں بھوکی رہتی ہے لیکن اپنے بچوں کے حلق تر کرنے میں اسے راحت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی بچہ یا بچی بیمار پڑ جائے تو ماں کا سکون و چین اڑ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہو جاتی ہے اس کے باوجود اسے برا نہیں لگتا اپنے بچوں کے لئے اسے اپنی جان کی بازی بھی لگانی پڑ جائے تو وہ اپنی جان کی بازی بھی لگا دیتی ہے لیکن اپنے بچوں کے تحفظ ان کی خوشیوں کو یقینی بناتی ہے یہ خوبیاں دنیا کی ہر ماں میں ہوتی ہے کیونکہ محبت و مروت ، جذبہ، ہمدردی ، ایثار و قربانی کی خوبیاں خالق کائنات نے ماں کو عطا کی ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار تمہاری ماں ہے تمہاری ماں ہے تمہاری ماں ہے اور پھر تمہارا باپ، تمہاری ماں پھر تمہارے باپ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ کو اپنے بندوں کے لئے اللہ عزوجل کا بہترین تحفہ بھی کہا جاتا ہے۔ ماں کی محبت میں کوئی تصنع یا کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی اس کی محبت تو بے لوث ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہر ماں مجسم محب ہوتی ہے۔
اولاد اس کے آنچل کی تھنڈی ہواؤں سے اپنے وجود کو معطر کرتی ہے۔ قارئین … آج ہم آپ کو ایک ایسی ماں سے ملاتے ہیں جو اپنی شادی کے 5 برس بعد ہی بیوہ ہوگئی تھی لیکن اپنی ایکلوتی بیٹی کی پرورش کے لئے اس نے 40 برسوں تک خود کو ایک آدمی کی حیثیت سے پیش کیا۔ 65 سالہ سیسہ ابوداو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے شوہر کا جس وقت انتقال ہوا تھا اس وقت وہ 6 ماہ کی حاملہ تھیں چونکہ وہ سخت الاقصہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے اسے کوئی نوکری کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان حالات میں سبہ ابو داؤ نے خود کو ایک آدمی کی طرح ظاہر کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کی شروعات کی سب سے پہلے اس نے اپنا سرمنڈھوایا اور مردوں کی طرح ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے شروع کردیئے تاکہ اپنے آجرین کی نظروں میں وہ ایک آدمی دکھائی دے۔ سیسہ ابوداو نے اینٹوں کی فیکٹری میں کام شروع کردیا اور پھر جوتے چپلوں کو چمکانا شروع کردیا۔ یعنی جوتوں کی پالش کرتی رہی اور یہ کام وہ مسلسل 43 برس تک انجام دیتی رہی۔ اب اگرچہ اس خاتون کو اپنے آپ کو ایک مرد کی حیثیت سے پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہی اس کے باوجود وہ اب بھی ایک مرد کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وضع قطع اور لباس بالکل ایک مرد کی طرح ہوتا ہے۔ داد کو آج سارے مصر میں ایک ایسی ماں کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے جس نے اپنی بیٹی نواسے اور نواسیوں کے لئے اپنی زندگی کی ساری خوشیوں، آرام و آسائش کو قربان کردیا۔ اس عظیم خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت مصر نے اسے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ مصریصدر عبدالفاتح السیسی نے خود ایوان صدر میں سیسہ ابو داو کو ایوارڈ پیش کیا۔ اس موقع پر ان کی بیٹی بھی موجود تھی۔ اپنی ماں کی قربانیوں کو یاد کرکے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ سیسہ ابو داو کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ 21 سال کی کم عمر میں بیوہ ہونے اور خاندان والوں کی جانب سے دوسری شادی کرلینے دباؤ ڈالے جانے کے باوجود انہوں نے اپنی بیٹی کی پرورش کو ترجیح دی۔ مردانہ شکل احتیار کرلینے کے بعد وہ جنسی ہراسانی کے خطرہ سے محفوظ تو ہوگئی
لیکن ان پر کام کا بوجھ بہت زیادہ رہا۔ انہوں نے اب اپنی جنس کا مکمل طور پر انکشاف کردیا ہے پھر بھی وہ زندگی بھر ایک آدمی کی ہی طرح رہنے کی خواہاں ہیں۔ مصر کے گلف نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں ’’میرے بھائی چاہتے تھے کہ میں دوسری شادی کرلوں ہر وقت وہ میرے لئے دولہوں کو تلاش کرتے‘‘ لیکن ابو داو نے دوسری شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور خود کمانے کی خاطر مردوں کی وضع قطع اختیار کرلی۔ اس فیصلہ سے خاندان میں حیرت اور برہمی کی لہر دوڑ گئی لیکن ابوداو نے اینٹوں کی فیکٹری میں کام شروع کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 تا 30 سال کی عمر میں وہ 10 مردوں کی طرح طاقتور تھیں لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی انہوں نے اینٹیں بنانے کے کام سے گریز کرتے ہوئے جوتوں چپلوں کی پالش کا کام شروع کردیا۔ ابو داو بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک مرد کی حیثیت سے زندگی گذارنے کا فیصلہ صرف اور صرف اپنی بیٹی کی پرورش کے لئے کیا۔ ان کے پاس محنت مزدوری کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ وہ خود اعتراف کرتی ہیں وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھیں کیونکہ انہیں اسکول میں شریک ہی نہیں کرایا گیا تھا۔ بیٹی کی شادی کے بعد اگرچہ انہوں نے مردانہ وضع قطع ترک کرنے کا تہیہ کرلیا تھالیکن بدقسمتی سے ان کا داماد اچانک بیمار پڑ گیا وہ محنت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا ایسے میں انہوں نے پھر کام شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ الاقصر کے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ وہ خاتون ہیں انہیں ان کے حقیقی نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ الاقصر کی مقامی حکومت نے اس خاتون کو اپنے صوبہ کی بہترین ماں قرار دیا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com