مانسون سیشن

یہ اعلان تقدس اور یہ مئے خواریاں واعظ
تجھے منجملۂ ارباب فن کہنا ہی پڑتا ہے
مانسون سیشن
پارلیمنٹ مانسون سیشن میں رشوت ستانی کے مسئلہ پر اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی غیرمتوقع نہیں ہے۔ للت مودی اور ویاپم اسکام نے مودی حکومت کو اپوزیشن پارٹیوں خاص کر کانگریس کے سامنے جوابدہ بنادیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے کل جماعتی اجلاس میں پیش کردہ موقف پر اپوزیشن کا ردعمل مسائل پر بحث کی تکمیل تک ہی موقوف نہیں ہونا چاہئے۔ اگرچیکہ وزیراعظم نے تمام مسائل پر بحث کی پیشکش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی وزیر کے استعفیٰ کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ حکومت کا ادعا اپوزیشن کیلئے ناقابل قبول ہے کہ کسی بھی مرکزی وزیر نے کوئی غیرقانونی اور غیراخلاقی کام نہیں کیا ہے جبکہ ساری دنیا کے علم میں یہ بات آ گئی ہے کہ وزیرخارجہ سشماسوراج، چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے اور چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان بدعنوانیوں کا شکار ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلانا اور عوامی مسائل کی یکسوئی پر توجہ دینا ہر دو یعنی حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ صرف ایک مسئلہ کو لیکر پارلیمانی کارروائی کو مفلوج نہیں بتایا جاسکتا۔ اگر حکومت عوامی بہبود کے کاموں کی یکسوئی کے لئے نیک نیتی رکھتی ہے تو اسے اپنے بدعنوان وزراء کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تاکہ مرکزی حکومت کے نظم و نسق کو شفاف بنانے کے وعدہ کی تکمیل ہوسکے۔ وزیراعظم مودی نے ایک سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ ان کی حکومت صاف ستھری ہوگی مگر ایک سال کے اندر ہی اسکامس کے منظرعام پر آنے کے بعد مودی حکومت کی شبیہہ مسخ ہوگئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کے خلاف مؤثر مورچہ بندی نہیں کی ہے۔ حکمراں حلیف پارٹیوں میں جس طرح اتحاد دیکھا گیا ہے اپوزیشن کو مختلف مسائل پر اپنی رائے منقسم کرتے دیکھا گیا ہے۔ کل جماعتی اجلاس کے دوران تمام اپوزیشن پارٹیوں کو متحد ہوکر اپنی رائے رکھنے کی ضرورت تھی تاکہ حکومت کو ایوان کے اندر اپوزیشن  کی مضبوطی کا احساس ہوتا۔ حکمراں پارٹی بی جے پی بھی اپوزیشن کے سخت موقف سے فکرمند نہیں ہے۔ اس کو بظاہر ایسی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ رشوت ستانی کے معاملوں میں اس کی حکومت کی بدنامی ہورہی ہے۔ بدعنوان وزراء کی حمایت یا سرپرستی کرنا بھی مودی حکومت کے لئے مناسب نہیں ہے۔ این ڈی اے اتحاد کی یہ بڑی غلطی ہے کہ وہ بدعنوان یا داغدار وزراء کو کابینہ میں برقرار رکھا ہے۔ حکومت ہی عوام کو کابینی رفقاء کی خرابیوں کے لئے جوابدہ ہوتی ہے تو اس سلسلہ میں حکومت کو پہل کرکے بدعنوانیوں میں ملوث وزراء اور دیگر افراد کو سزاء دے۔ جب تک بی جے پی اپوزیشن میں تھی، رشوت ستانی اور بدعنوان وزراء کے تعلق سے اس کا نظریہ اور رائے مختلف تھا۔ اب وہ خود حکمراں پارٹی ہے تو اسے بدعنوانیوں کے معاملے میں اپنے ماضی کے موقف سے منحرف نہیں ہونا چاہئے۔ عام انتخابات میں اس کی پالیسی اور منشور کو دیکھ کر عوام نے ووٹ دیا تھا۔ اگرچیکہ عام انتخابات میں امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنا اور نااہل افراد کو ملک کی سیاست سے نکال دینا ایک اچھی جمہوریت کی علامت ہے مگر ہندوستانی رائے دہندوں کو بی جے پی اور اس کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نے اتنا گمراہ کیا تھا کہ رائے دہندوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر یہ یقین کر لیا کہ رشوت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس ملک میں اب کوئی اسکام نہیں ہوگا مگر ایک سال کی حکمرانی کے اندر بی جے پی کی چار خاتون سیاستدانوں کے نام بدعنوانیوں کی فہرست میں سرفہرست آ گئے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کا اقتدار ایسے لوگوں کے سپرد کردیا جاتا ہے ان کا ماضی داغدار ہوتا ہے جبکہ دنیا کی کسی بھی بڑی کمپنی میں جہاں ہزاروں لوگوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ بغیر تفصیلی جانچ پڑتال کے کسی اعلیٰ عہدے پر کسی کو فائز نہیں کیا جاتا لیکن ہندوستان میں جمہوریت کے حوالے سے ملک پر سفید پوش سیاستدانوں کو فائز کیا جاتا ہے جن کا کردار داغدار ہوتا ہے۔ بدعنوانیوں کے خاتمہ کیلئے بی جے پی اور اس کی قیادت نے جو عہد کیا تھا تو اس کو پورا کرنے کی ضرورت ہے اب تک حکومت نے ایسی کارروائی نہیں کی جس سے یہ محسوس ہوسکے کہ بلاشبہ مودی حکومت رشوت کے خلاف مہم چلانے اپنے وعدہ پر عمل پیرا ہے۔ قومی سیشن میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہیکہ وہ عوامی بہبود اسکیمات پر اپوزیشن کو اعتماد لے کر اقدامات کرے اور بدعنوانیوں کے خاتمہ کیلئے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا ایوان کو تیقن دے۔