ماما

مرزا فرحت اللہ بیگ
مرزا جی آپ کیا ہر شخص مجھ سے یہی پوچھے گا کہ ’’ نیک بخت تجھے جائیداد سے پچیس روپئے مہینہ کی آمدنی ہے تو پھر اس آٹھ روپئے کی نوکری کو کیوں لے بیٹھی ہے گھر بھر کی باتیں سنتی ہے ، بدنام ہوتی ہے پھر بھی نوکری چھوڑنے کا نام نہیں لیتی ۔ مار اس نوکری پر لات اور جو کچھ خدا نے دیا تھا اسی پر گذارہ کر اور اللہ کا شکر ادا کر جو تجھے گھر بیٹھے رزق بھیج رہا ہے ‘‘۔
تو میاں آپ کا یہ فرمانا میرے سر آنکھوں پر مگر میں یہ پوچھتی ہوں کہ میرے پاس یہ بیس تیس روپئے مہینہ کی جائیداد آئی تو کہاں سے آئی ۔ آخر ان ہی آٹھ روپیوں اور تھوڑی بہت دست غیب سے آْئی نا ’’ ان ‘‘ کی تو آپ بھی جانتے ہیں کمانا تو کیا کمانے کا خیال اُن کے دل میں نہیں آتا ۔ سچ پوچھو تو انہیں منہ بھر کر کھانے کی عادت پڑ گئی ہے اور مزایہ ہے کہ دن بہ دن اپنا قدم بڑھاتے چلے جارہے ہیں ۔ پہلے تو کبھی کبھار پی لیا کرتے تھے ۔ میں بھی کہتی تھی جانے دو انسان اس دنیا میں کچھ مزا کرنے ہی کو پیدا ہوا ہے ۔ مگر جب سے ان کو افیم کی لت پڑ گئی ہے اس وقت سے خرچ بڑھ کر کہیں سے کہیں پہونچ گیا ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ اس افیم کی وجہ سے ان کا غصہ بہت کچھ دھیما پڑ گیا ہے

۔ پہلے تو یہ حالت تھی کہ ذرا میں نوکری سے ایک آدھ دن کیلئے رکی اور انہوں نے قیامت بپا کردی ۔ گالیاں رہیں ایک طرف مارنے پیٹنے سے بھی وہ نہیں چوکتے تھے اور اب تو اللہ کی قسم یہ حال ہے کہ بیچارے ’’ گئو ‘‘ ہوگئے ہیں میں کام کچھ ہی کروں وہ پھر کر بھی نہیں پوچھتے کہ تونے کیا کیا اور کیوں کیا میاں ان کا خرچ تو بڑھ گیا ہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ہر روز کی دانتا کلکل جانے سے میری جان کو آرام مل گیا ہے ۔ آٹھویں دسویں گھر آئی بی عابی کو کھانے پکانے کا خرچ دے دیا ۔ خود ان کو افیم کیلئے تھوڑے بہت پیسے دے دئے ۔ چلو چھٹی ۔ اب کوئی میری طرف سے ان کو لگائی بجھائی کرے بھی تو وہ قیامت تک نہ یقین کیا ہے اور نہ کریں گے ۔ میں بھی سمجھتی ہوں کہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے خیر گھر میں چیں چاں سے امن و اماں تو ہوگیا ۔ گھر والے کا ڈر تو ان کے افیمی ہونے کی وجہ سے گیا اور جہاں پر نوکر ہوں وہاں کا ڈر سرکار کی ایک روز کی باتوں سے گیا اور میں نے دل میں پکا ارادہ کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے کام سمجھ بوجھ کر کرنا چاہئے اور وقت کا خیال رکھنا چاہئے ۔ بے وقت کوئی کام کرنا ہمیشہ فائدہ تو کیا الٹا نقصان پہونچا جاتا ہے ۔ آپ پوچھیں گے کہ سرکار کی وہ باتیں کیا تھیں تو وہ بھی سن لیجئے ۔

ہوا یہ کہ ایک روز میں بیوی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ سرکار باہر سے ہنستے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ ’’ دیکھو آئندہ سے جو بات کرنا وقت پر کرنا ۔ نہیں تو نقصان اٹھاؤ گی ۔ بیوی نے کہا اوئی یہ آج آپ وعظ کہنا کہاں سے سیکھ آئے ۔ لو ۔ اور سنو اس بڑھاپے میں مجھے عقل سکھائی جارہی ہے ، کہیں سے لکچرو کچر سن کر آئے ہو ۔ جو اس کو اب دہرایا جارہا ہے ۔
سرکار نے کہا ’’ لکچر کی بھی خوب ہوئی ۔ لکچر سننے اس لئے تھوڑی جاتے ہیں کہ کچھ سنا جائے ۔ اس پر عمل بھی کیا جائے ۔ اس لئے جاتے ہیں کہ یار دوستوں سے ملنا ہوجاتا ہے ۔ کچھ سعی سفارش ہوجاتی ہے ۔ کچھ غب شپ ہوجاتی ہے اور اس طرح دوچار گھنٹے مزے سے گذر جاتے ہے ں۔ ہم جو سن کر آئے ہیں وہ حکیم محمود خان سے سن کر آئے ہیں اور خود دیکھ کر آئے ہیں کہ وقت پر کام کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے اور بے وقت کام کرنے سے کیا نقصان ہوتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ پھر ہنسنے لگے ۔ حکیم محمود خان کا نام سن کر تو بیگم صاحبہ بھی ذرا سوچ میں پڑ گئیں۔ کیونکہ حکیم صاحب جو بات کہتے ہیں

وہ باون تولے پاؤرتی کی ہوتی ہے ۔ اس لئے انہوں نے ذرا خوشامدانہ لہجہ میں کہا ’’ تمہیں میرے سر کی قسم ذرا ہم بھی تو سنیں کہ آخر ہوا کیا ۔ مگر دیکھنا سچی سچی باتیں کہنا ۔ تم نے اگر بے پر کی اُڑائی تو پھر میری تمہاری لڑائی ہوجائے گی ۔ میں نے سوچا کہ بابا یہاں اگر تو سامنے بیٹھی رہی تو سرکار شاید کھل کر قصہ بیان نہ کریں ۔ اس لئے وہاں سے اٹھ گئی مگر باورچی خانہ میں جانے کی بجائے دیوار کی آڑ میں کھڑی ہوگئی ۔ جب سرکار نے دیکھا کہ اب وہ دونوں اکیلے رہ گئے تو بڑے مٹھار مٹھار کر باتیں کرنے لگے اور کہا ’’ قصہ تو کہتا ہوں مگر تم بندوں کا جو روز تقاضہ کرتی ہو وہ کرنا چھوڑ دو جب ہاتھ میں پیسہ ہوگا لادوں گا ۔ ہے منظور ؟
بیوی نے کہا ’’ منظور ہے ‘‘
اس اقرار مدار کے بعد سرکار نے کہا ’’ لو سنو ہوا یہ کہ آٹھ دس دن ہوئے میں حکیم جی کے ہاں گیا نزلہ کی وجہ ضرورت ہوگئی تھی ارے تمہیں تو یاد ہوگا نا تم ہی نے تو انگریزی دوائیں پلاپلاکر نزلہ کا ستیاناس کیا تھا ۔
بیوی نے کہا ’’ اچھا صاحب اچھا سچ ہے بھلا کرے تو عذر ۔بُرا کروں تو بندی نہیں میں ۔ خیر اس جھگڑے کو تو آگ لگاؤں ۔ اصل تصہ سناؤ‘‘ ۔

سرکار نے کہا کہ ’’ تو ہاں ۱؎ جب میں پہونچا تو مطب خوب گرم تھا بیسیوں مریض آئے ہوئے تھے ۔ میں بھی ایک کونہ میں جا بیٹھا ۔ حکیم جی ایک مریض کو دیکھتے ۔ نسخہ لکھ دیتے ، دوسرے مریض کو دیکھتے نسخہ لکھ دیتے ۔ آخر ہوتے ہوتے ایک مریض کی باری آئی جس نے کھانس کھانس کر سب کے نام میں دم کردیا تھا ۔ حکیم جی نے نبض دیکھی ۔ قارورہ دیکھا ۔ حال پوچھا ۔ اس بیچارے نے کہا ۔ ’’ حکیم جی ۔ کیا کہوں چار برس سے کھانسی کی مصیبت میں مبتلا ہوں ۔ دنیا جہاں کے علاج کر ڈالے کھانسی ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ آپ کا نام سنا تھا سینکڑوں کوس کی منزل مار کر آیا ہوں ۔ دیکھئے گھر جانا بھی ہوتا ہے یا یہیں کہیں دلی میں ختم ہوجاتا ہوں ‘‘ ۔
حکیم جی نے کہا ’’ میاں ۔ اتنے مایوس کیوں ہوتے ہو ، نسخہ دیتا ہوں ، پی کر تو دیکھو ، اللہ شفا دے گا ‘‘۔

یہ کہہ کر انہوں نے نسخہ لکھ کر اس کے حوالے کیا ۔ اس نے پڑھا اور پڑھ کر حکیم جی کو واپس کردیا ۔ بھلا محمود خان جیسی طبیعت کا آدمی اور ایسی باتیں گوارا کرے ۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ حضرت اب مطب سے گالیاں کھاکر اور دھکے دیکر نکلوائے جائیں گے مگر خدا معلوم اللہ میاں نے حکیم جی کے دل میں کیا ڈالی کہ وہ ذرا نیچی آواز میں ’’ یہ کیوں ‘‘ کہہ کر خاموش ہوگئے ۔
مریض نے کہا ’’ حکیم جی ! اس کم بخت مرض نے خود مجھے حکیم بنادیا ہے اب آپ ہی دیکھئے کہ جو نسخہ آپ نے لکھا ہے یہ پہلے سے میرے پاس موجود ہے چار مہینے پی چکا ہوں ، ذرا بھی فائدہ نہیں ہوا ، آپ سمجھتے ہوں گے کہ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں ، لیجئے یہ نسخہ حاضر ہے ۔ دیکھ لیجئے ۔

یہ کہہ کر اس جیب میں سے نسخوں کی یہ موٹی گڈی نکالی اور اس سے ایک نسخہ چھانٹ کر حکیم جی کے حوالہ کیا ۔ انہوں نے اس کو اپنے نسخہ سے ملایا دوائیں تو دوائیں وزن میں بھی رتی برابر فرق نہ پایا ۔ ہم تو سمجھے تھے کہ بات بڑھی لیکن اس خدا کے بندہ نے بڑے ٹھنڈے دل سے کہا کہ ’’ میاں ! میرا علاج کرنے آئے ہو تو میں جو دوا دوں وہ پیو ، نہیں تو خدا حافظ اپنے گھر سدھارو ، تم کہتے ہو ان نسخوں میں فرق نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ بڑا فرق ہے ۔ میرے نسخہ پر ’’ ھوالشافی ‘ لکھا ہوا ہے تمہارے ہاں صرف دو لکیریں کھینچی ہوئی ہیں ۔ بھلا ایسا نسخہ پینے سے کیا خاک فائدہ ہوگا جس پر اللہ کا نام تک نہ ہو ۔ خیر میرا نسخہ پیو تو سہی ۔ دو چار روز میں فائدہ نہ ہوا تو علاج چھوڑ دینا ۔
یہ کہہ کر حکیم جی دوسرے مریض کو دیکھنے لگے اور وہ صاحب رخصت ہوئے ۔ خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ آج میں مطب میں موجود تھا کہ وہی صاحب پھر آئے اور آتے ہی حکیم صاحب کے ہاتھ چوم لئے ۔ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر زبان نے یاری نہ کی اور بیچارے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
حکیم جی نے کہا ’’ کہوں بھئی ھوالشافی کا اثر دیکھا ‘‘ بابا ۔ اللہ کے نام میں بڑا زور ہے ‘‘ ۔

اس نے ذرا مسکرا کر کہا ’’ حکیم جی! آپ کا فرمانا میرے سر آنکھوں پر ۔مگر یہ تو بتائیے کہ آخر یہ ہے کیا بات ۔ ایک حکیم کا نسخہ مہینوں تک رتی برابر اثر نہ کرے اور دوسرے کا وہی نسخہ مہینوں اور برسوں کے مرض کو تین دن میں جڑ مول سے اکھیڑ پھینکے ۔
حکیم جی بہت ہنسے اور کہنے لگے ۔ ’’ میاں دوا اپنے وقت پر کام کرتی ہے ، جن صاحب نے تم کو پہلے نسخہ دیا تھا وہ یہ تو جانتے تھے کہ کھانسی میں یہ یہ دوائیں مفید ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے دینے کا کونسا وقت ہے ۔ بھلا بے وقت پلانے میں یہ نسخہ کیا خاک اثر کرتا ۔ الٹا نقصان ہی دے گا ۔ حضرت بات یہ ہے کہ اور تو اور بے وقت کی راگنی بھی بری لگتی ہے ، سمجھے یا اور سمجھاؤں ۔
یہ سن کر ہماری بیگم صاحبہ تو ہنس دیں ۔ مگر میں نے کہا ۔
’’ بی کریما حکیم جی نے بات بڑی پتہ کی کی ہے تو اس کو پلو میں باندھ لے ۔ آئندہ بات وقت کو دیکھ کر اور موقع کو سمجھ کر کیجئو ۔ انشاء اللہ فائدہ ہی ہوگا ۔

آپ کو تعجب ہوگا کہ آج کل کے گھروں میں جھاڑو دینے والیاں سب سے زیادہ مزے میں رہتی ہیں سودالانے والے بھی نقصان میں نہیں پڑتے اور روز کچھ نہ کچھ گھسیٹ ہی لیتے ہیں مگر جھاڑو دینے والی کو کبھی کبھی اتنا مل جاتا ہے کہ وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور اگر اس جھاڑو دینے والی ماما پر بیوی کو اعتبار ہوجاتا ہے تو چوری تو کرتی وہ ہے اور پولیس میں دھر لئے جاتے ہیں بیچارے دوسرے نوکر ۔ اپنا رنگ بدلنے کے بعد ہی میں نے اپنے کاموں کو بڑھانا شروع کیا ۔ پہلے میرا تعلق صرف باورچی خانہ سے تھا ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ تعلق گھر کے تقریباً سب کاموں سے ہوگا ۔ کھانا پکاؤں تو میں پکاوں برتن دہوؤں تو میں دھوؤں ۔ جھاڑو دوں تو میں دوں ۔ سامان کی جھاڑپونچھ کروں تو میں کرو ۔

غرض گھر کی مالکہ تو بیوی تھیں اور داروغہ ہوں تو میں ہوں ۔ جھاڑو دینے والی ماما کو چاہئے کہ جھاڑو دینے کے بعد جو کچھ کوڑا کرکٹ ہو وہ بیوی کے سامنے لے جاکر ٹٹولے کہ یہ کہنے کو جگہ نہ ہوسکے کہ کوڑے میں کوئی چیز ماما سمیٹ کر لے گئی ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اگر اس میں کوئی اچھی چیز سمٹ آئے تو اس کو آہستہ سے علحدہ کرکے کہیں رکھ دے ۔ اس کے بعد کوڑا سب کو اچھی طرح دکھاکر باہر پھینک آئے اور پھر وہ چیز موقع دیکھ کر اپنے گھر پہونچا دے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جب تک گھر میں اس چیز کی ڈھنڈیا ہوکر معاملہ ٹھنڈا نہ پڑ جائے ۔ اس وقت تک اپنے گھر نہ جائے کیونکہ سب سے پہلے اسی ماما پر چوری کا الزام لگتا ہے ۔ جو کسی چیز کے کھوئے جانے کے بعد ہی اپنے گھر جاتی ہے ۔ مثلاً ایک دن یہ ہوا کہ میں دالانوں میں جھاڑو دے رہی تھی ۔ بیگم صاحبہ نو بجے تک پڑی سوتی رہتی ہیں ۔ اس روز بھی پڑی کروٹیں بدل رہی تھیں کہ خدا معلوم کس طرح ان کے کان کا ایک بندا پلنگ کے نیچے گر پڑا ۔ روز مرہ کے پہننے کا تھا ۔ کوئی آٹھ دس روپئے کا ہوگا جھاڑو دینے میں وہ مجھے ملا ۔ میں نے سوچا بی کریما اپنی ایمانداری کا رعب بٹھانے کا سب سے اچھا موقع ہے ۔ جھاڑو دینے میں جو کوڑا سمیٹا تھا وہ میں نے دالان کے ایک کونہ میں جمع کیا اور اس طرح کٹ پٹ کی کہ بیوی ہوشیار ہوگئیں اور پوچھا ۔
’’ اری کیا کر رہی ہے ‘‘

میں نے کہا ’’ جھاڑو دی تھی ، کوڑے میں دیکھ رہی ہوں کہ کوئی چیز تو نہیں آگئی ۔ وہ بھی پڑی پڑی دیکھتی رہیں ۔اتنے میں اس کوڑے میں سے وہ بندا نکلا ۔ میں نے اٹھاکر بیوی کو دیا اور کہا واہ بیگم صاحبہ واہ آپ اپنی چیزیں خوب رکھتی ہیں اور جو کہیں بغیر دیکھے میں یہ کوڑا باہر پھینک دیتی تو کیا ہوگا ‘‘ بیگم صاحبہ میری اس کارگذاری سے بڑی خوش ہوگئیں اور اس طرح میرا اثر ان پر اور بھی بڑھ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کے پاندان میں سے کئی چیزیں اڑا دیں اور مجھ پر ان کو رتی برابر شبہ نہیں ہوا اور آخر میں تو وہ بھی پر اتنی مہربانی ہوگئیں کہ میرے میاں کا کھانا بھی اس گھر سے ملنے لگا ۔ چلو اس طرح کئی روپئے مہینے کا نہ صرف مستقل فائدہ ہوگیا بلکہ چیزوں کے بآسانی گھر پہونچادینے کا بھی رستہ نکل آیا ۔

اب میاں نے بھی مجھ سے ذرا گھل مل کر باتیں کرنی کم کردی ہیں کیونکہ اول تو میں نے اپنی شکل چڑیلوں کی سی بنالی ہے ۔ دوسرے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیوی کی چہیتی ماما ہے کہیں کچھ الٹی سیدھی لگاکر گھر میں کوئی فساد برپا نہ کردے ۔ اس لئے وہ مجھ سے کبھی بات کرتے بھی ہیں تو کچھ ناک چڑھا کر کرتے ہیں اور میں بھی کچھ اکھڑا اکھڑا جواب دیتی ہوں ۔ یہ وہ چیز ہے جس نے میری قدر بیوی کی آنکھوں میں بہت بڑھادی ہے ۔ گھر سے چھوٹی موٹی چیزیں آہستہ آہستہ کھسک رہی ہیں ۔ غل مچتا ہے مگر اس لڑکی کے مرنے کا دھچکا سب پر کچھ ایسا بیٹھا ہے کہ کسی ماما یا نوکر کو پولیس میں دینے کی اب کسی کو ہمت نہیں ہوتی اور میری چوری کا راستہ بڑھتے بڑھتے اب خاصی تڑک بن گیا ہے ۔ خدا ان میاں بیوی کو خوش رکھے ان کی بدولت ہماری تو دنیا بن گئی اور حکیم محمود خان کو قبر میں کروٹ کروٹ چین نصیب ہوکہ ان کی اس بات نے جو کام کرو وقت دیکھ کر کرو کم سے کم میرا تو بیڑا پار کردیا ہے اب کیا ہے نوکری گئی بھی تو گذارے کیلئے بیس پچیس روپئے مہینے کی جائیداد ہم دو جانوں کیلئے بہت کافی ہے پھر بھی سوچ رہی ہوں کہ اگر یہ جائیداد بڑھ کر پچاس کی ہوجائے تو اس نوکری پر لات ماروں اور مزے سے خود بیوی بن کر گذارہ کروں اور اللہ کا شکر ادا کروں کہ اس بے نیاز نے مجھ کو نوکری کی محنت سے نکالا ۔ کہئے مرزا جی آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ( مرسلہ ڈاکٹر طلعت خان )