ایل پانڈو رنگا ریڈی
شہنشاہوں اور بادشاہوں میں شاید ہی کوئی ایسا گزرا ہے جس نے ایک سے زائد بیویاں نہیں رکھیں، جسے گھڑسواری یا شہسواری کا شوق نہ رہا ہو، جس نے اپنے اقتدار کو پھیلانے کی کوشش نہیں کی، اور جسے جنگ و جدال سے سابقہ نہ پڑا ہو۔ یہ چار چیزیں بادشاہوں کیلئے اکثر و بیشتر تمام دیگر چیزوں پر بھاری ہوتی ہیں۔ نظام ششم میر محبوب علی خان کا معاملہ کچھ مختلف نہ تھا۔ وہ شہسواری کے فن میں مہارت رکھتے تھے اور خود کو جسمانی طور پر چست و تندرست رکھنے کیلئے روزانہ شہسواری کیا کرتے۔
ایک روز محبوب علی پاشاہ کی نظر انتخاب سردار بیگم پر پڑگئی، جو اگرچہ گیت گانے والی تھی لیکن اُس کی خوبصورتی محبوب علی پاشاہ کو بھاگئی۔ وہ پہلی نظر میں ہی اُسے چاہنے لگے اور یہ چاہت برسہا برس تک برقرار رہی۔ سردار بیگم کیلئے اُنھوں نے دو محلوں کے ساتھ ساتھ محبوب مینشن بھی تعمیر کروائے ، جو ہپوڈروم (گھوڑوں کی ٹریننگ کا مقام) سے متصل تھا جہاں محبوب علی پاشاہ صبح میں اول وقت گھوڑوں کی سواری کرتے تھے۔ یہاں شاہی گھوڑوں کا دم خم اچھی طرح مضبوط کیا جاتا۔ وہاں ایک چھوٹا نشست نما پتھر تھا جو نظام وقت کو پسند تھا جہاں بیٹھ کر وہ اپنے گھوڑوں کی محنت کا معائنہ کیا کرتے۔ سردار بیگم کی ہمت افزائی کی جاتی کہ گھڑسواری کریں۔ ابتدائی طور پر انھوں نے عورتوں کیلئے مخصوص عام سواری کے گھوڑوں پر سواری کی۔ جب وہ گھڑسواری کے فن سے اچھی طرح آشنا ہوئیں تو انھوں نے تیزرفتار گھوڑوں کی سواری بھی کی۔ پھر ایک دن تفریح کے طور پر سردار بیگم نے اپنے شاہی محبوب کو گھوڑوں کی ریس کیلئے چیلنج کیا۔ یہیں سے ملک پیٹ میں ’ہارس ریسنگ ‘ کی راہ ہموار ہوئی۔
تاہم، ایک خاتون کیلئے یہ سرسری منظر کافی ہونا ممکن نہیں تھا؛ سردار بیگم کو داخلی گوشے سے مشاہدہ کرنا تھا۔ اُن کیلئے رکاوٹ کو کم سے کم کرنے کی خاطر محبوب علی پاشاہ نے زنانہ پردوں کو اس طرح بنوایا کہ وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر صاف طور پر دیکھ سکتی تھیں۔ اتفاق سے وہ ہندوستان میں ریس کے گھوڑوں کی مالکن پہلی عورت بنیں۔ سردار بیگم کو شاید اس حقیقت کا اندازہ نہیں تھا کہ گھڑسواری ہی مَردوں اور عورتوں دونوں کیلئے واحد مشترک کھیل تھا۔ اُن کے اصطبل میں کئی نامور فاتح گھوڑے تھے۔ اس طرح پہلا ہارس ریسنگ سنٹر ملک پیٹ میں قائم ہوا۔ 1911ء میں محبوب علی پاشاہ کے انتقال کے بعد ریسنگ کی سرگرمیاں ملک پیٹ میں عملاً ختم ہوگئیں۔گھوڑوں کی نسل بہتر بنانے کی خاطر محبوب علی پاشاہ نے اعلیٰ نسل کے گھوڑے یورپ سے منگوائے اور ان کی نسل کو پروان چڑھانے کیلئے سنگاریڈی (ضلع میدک) میں ایک اصطبل قائم کیا۔ یہ اصطبل گھڑسوار فوج اور ریسنگ دونوں کی ضرورتوں کی تکمیل کرتا۔ موجودہ طور پر اسے آم کے باغ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ تذکرہ بے محل نہیں کہ محبوب علی پاشاہ کے گھڑسوار فوجوں میں سے ایک کو ’7 کیولری‘ کے نام سے انڈین آرمی میں ضم کیا گیا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ حیدرآباد اسٹیٹ کیلئے سردَرد سکنڈ لیفٹننٹ جے این چودھری (بعد میں جنرل ہوئے) کو ’7کیولری‘ میں شامل کیا گیا تھا۔
ساتویں نظام میر عثمان علی خان اپنے والدین کے تئیں فرزندانہ سعادت مندی کیلئے معروف ہوئے۔ اپنے باپ کی یادگار کے احترام میں انھوں نے اس مقام کو جوں کا توں چھوڑ دیا۔ تاہم، 1963ء میں انھوں نے اپنی قیمتی اراضی سے 127 ایکڑ معمولی داموں پر حیدرآباد ریس کلب کو فروخت کردی۔ اس کے بعد سے ریس کورس میں گھڑدوڑ ہونے لگی۔ تاہم، موجودہ حکومت تلنگانہ اس ریس کورس کو شہر کے مضافات میں منتقل کردینے پر غور کررہی ہے۔ اب یہ حکومت اور کلب کیلئے درست اقدام ہوتا ہے یا نہیں، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔اتفاق سے حیدرآباد ریس کلب واحد ریس کلب ہے جو ریس کورس کی ملکیت کا حامل ہے۔ یہ وسیع و عریض اور شاداب ریس کورس نہ صرف گھڑدوڑ کیلئے ٹریک رکھتا ہے بلکہ گنجان آباد ملک پیٹ کیلئے ضروری کھلی فضاء بھی فراہم کرتا ہے۔ حیدرآباد ریس کلب کے انتظامیہ کو چاہئے کہ گھڑدوڑ نہ ہونے والے دنوں میں شہریوں کو صبح کی چہل قدمی کرنے کوئی رقمی چارجس لئے بغیر اجازت دے۔ یہ کلب کی سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ علاوہ ازیں، محبوب علی پاشاہ کی یاد قائم رکھنا اس کلب کا اولین فرض ہے (اس کلب کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ احاطے میں محبوب علی خان کا شہسواری کا مجسمہ تعمیر کرائیں اور اس ریس کورس کے گرانڈ اسٹانڈ کو سردار بیگم سے موسوم کریں۔