کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی
ہمیں بالعموم یہ یقین دلایا جاتا رہا ہے کہ چھترپتی شیواجی نے مغل بادشاہ اورنگ زیب سے لڑائی کی تاکہ مہاراشٹرا کو آزاد کراتے ہوئے ’ہند۔پر۔پادشاہی‘ قائم کرسکے اور اسی طرح اورنگ زیب نے مراٹھاؤں کے خلاف لڑتے ہوئے دار الاسلام قائم کرنا چاہا۔ تاریخ کے یہ دونوں بیانات نہ صرف یکطرفہ بلکہ غیرتاریخی بھی ہیں۔ وہ دونوں ہی اپنی عملداریوں کو وسعت دینے کیلئے لڑتے رہے اور ’تخت یا تختہ‘ کے نظریۂ بادشاہت پر کاربند تھے۔
شیواجی نے قطب شاہی سلطانوں سے وعدے کی پاسداری نہیں کی اور اقرباپروری میں پڑگیا۔ اورنگ زیب نے گولکنڈہ پر کئی بار حملے کئے اور سلطنت کو متزلزل کیا۔ قطب شاہی سلاطین کو کچھ سجھائی نہ دیا کہ کیا کریں اور وہ بُری طرح دباؤ میں آگئے۔ اس نازک موڑ پر ابوالحسن تاناشاہ کے وزیر اَکنّا نے شیواجی کے برہمن قاصد پرہلاد نیرج کی خدمات حاصل کئے۔ اس کے ذریعے اکنا کو شیواجی کے مقابل کامیابی ملی۔ دونوں نے کرناٹک (سابقہ ریاست ِ میسور) کو مغلوب کرنے کا منصوبہ بنایا اور تمام مصارف قطب شاہی سلاطین کے ذمے تھے۔ یہ سب ابوالحسن کے علم و اطلاع کے بغیر کیا گیا؛ تاہم، اسے کسی طرح منالیا گیا۔ 1677ء کی شروعات میں اپنی راجدھانی رائے گڑھ سے روانہ ہوکر شیواجی اوائل فبروری میں حیدرآباد پہنچا۔ اُس کا استقبال ابوالحسن تاناشاہ نے کیا اور حیدرآباد میں ایک ماہ کے قیام کے دوران حکومت کے ساتھ حملہ اور دفاع کے سلسلے میں اتحاد قائم کیا۔ اس کی مطابقت میں سلطان نے اتفاق کرلیا کہ اُسے ماہانہ 41/2 لاکھ روپئے کی سبسیڈی ادا کی جائے گی اور کرناٹک کو فتح کرنے میں تعاون کے طور پر 5,000 گھڑسواروں اور توپوں کے ذریعے اعانت رہے گی۔ اس کے عوض شیواجی نے قطب شاہوں سے اپنی فتح کے ایسے حصے حوالے کردینے کا وعدہ کیا جو سابقہ طور پر اُس کے باپ شاہی جی کے نہیں تھے۔ علاوہ ازیں، ابوالحسن تاناشاہ نے مغلوں کے خلاف اپنی حفاظت کیلئے شیواجی کو ہر سال 1 لاکھ کے اعزازیہ کا وعدہ کیا۔
شیواجی نے قطب شاہی گھڑسوار فوج کی مدد سے مضبوط قلعہ پر حملہ کیا اور ویلور کو قبضے میں لیا۔ تریچناپلی کے گورنر عادل شاہ کو بھی شکست ہوئی اور وہ مقام پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس جارحانہ مہم کے عمل میں شیواجی نے جو علاقے قبضہ کئے ان کا رقبہ 2880 کیلومیٹر ضرب 1520 کیلومیٹر معہ 86 قلعے رہا اور 44 لاکھ روپئے کی مالگزاری عملداری میں آئی۔ اس کے بعد اُس نے کولار، اسکوٹا، بنگلور اور میسور پر آسانی سے قبضے کئے۔ اس مہم جوئی کے تمام مصارف قطب شاہ نے برداشت کئے لیکن شیواجی نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا؛ فتح کئے گئے قلعوں میں سے ایک بھی حوالے نہیں کیا اور نا ہی اُس سونے کی سرزمین سے حاصل غیرمعمولی مالِ غنیمت کی حصے داری کی۔ اس کی بجائے اُس نے بنگلور اور میسور اپنے بھائی ویانکوجی کو سونپ دیا (بحوالہ : گزٹ آف انڈیا، مہاراشٹرا اسٹیٹ، ہسٹری، ہسٹری پارٹ۔III ، صفحات 18، 19 )۔
شیواجی کو ذاتی مفاد کی تکمیل میں کچھ بھی عار محسوس نہیں ہوا۔ اُسے کوئی ’ہندواِزم‘ سے مطلب نہ تھا بلکہ صرف اپنے ذاتی مفادات کی غرض تھی۔ 1656ء میں بیجاپور کی حکومت نے اورنگ زیب کے ساتھ صلح کرلی تھی۔ اس کے فوری بعد شیواجی نے مغلوں سے مصالحت کا فیصلہ کیا۔ اُس کے قاصد رگھوناتھ پنت نے اورنگ زیب سے ملاقات کی اور مراٹھا چیف کیلئے معافی نامہ حاصل کیا۔ تاہم، اس کے بعد شیواجی نے اپنی روِش کے مطابق مغلیہ قلعوں کے خلاف مہم شروع کردی۔ اورنگ زیب نے مہماتی فوج جئے سنگھ کی کمان میں بھیجی۔ اُس نے مراٹھاؤں کو شکست دی اور شیواجی پر اتنا دباؤ ڈالا کہ مغلوں کے ساتھ معاہدہ کرلے۔ اس معاہدہ کو 1665ء کے میثاقِ پورندر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ معاہدے کی شرطوں کے مطابق شیواجی نے مغلوں کی تائید میں بیجاپور کے خلاف ایک جتھے کی خود قیادت کی۔
بے شک، مندروں کی بے حرمتی اور ان کو لوٹ لینا اور مساجد کو مسمار کرنا یقینا غنڈہ گردی کی حرکتیں ہیں۔ کوئی بھی ان کو ٹھیک نہیں سمجھتا ہے۔ تاہم، شیواجی کے جنرل مراری راؤ نے نرسمہا سوامی مندر واقع اہوبیلام کو لوٹا، جو آندھرا پردیش کے موجودہ ضلع کرنول میں ہے۔ قطب شاہی سلطانوں نے اُسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی۔ اُس مندر کو نقروی زیورات کا عطیہ ابوالحسن نے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ابوالحسن تاناشاہ نے نہ صرف سرکاری خزانہ سے غبن پر بھدراچلم کے رام داس کو معاف کردیا؛ رام مندر تعمیر کرائی بلکہ سری رام نومی تہوار کے دوران بھدراچلم کی رام مندر کو سرکاری حفاظت میں تلمرالو (موتیاں) بھیجنے کی روایت بھی ڈالی۔ آصف جاہی سلاطین اصطفائیت میں کسی سے کم نہ تھے اور اس کا مظاہرہ کیا۔ جہاں آصف جاہیوں نے ایسٹ گوداوری ڈسٹرکٹ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حق میں دستبرداری اختیار کی، وہیں بھدراچلم مندر کو اپنی عملداری میں برقرار رکھتے ہوئے اس کی دیکھ بھال کی۔ انھوں نے سری رام نومی فیسٹیول کے دوران بھدراچلم کو موتیاں بھیجنے کی روایت جاری رکھی۔