کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی
انیسویں صدی کے اوائل میں نظام دکن کو موقع کا انتظار تھا کہ دیشمکھوں سے کسی طرح چھٹکارہ پالیا جائے اور انھیں یہ موقع 1818ء میں پیشوائی ختم ہونے کے بعد ہی حاصل ہوا۔ آخری پیشوا باجی راؤ ۔II بے عقل شخص تھا اور کوڈے گاؤں کی لڑائی میں انگریزوں سے شکست کھائی اور پنشن مقرر کرکے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ اس پر دیشمکھوں کو زیر کرنے نظام کو حوصلہ ملا۔ پانچویں نظام سکندر جاہ کے وزیراعظم سالار جنگ اول نے 1867ء میں مالی اصلاحات (ضلع بندی) کے نام پر چاوتھ وصول کرنے کے انھیں قبل ازیں دیئے گئے حقوق واپس لے لئے اور اس کے عوض انھیں زمینات عطا کئے۔ دیشمکھوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں سالار جنگ نے وطن داری سسٹم متعارف کیا۔ اس کے دو مقاصد تھے، دیہی نظم و نسق میں اصلاحات اور نئے طبقہ کی تشکیل تاکہ دیشمکھوں کو مات دی جاسکے۔ یہ بھی خیال پیش نظر رہا کہ کسی واحد شخص کے پاس اقتدار کو مرکوز نہ کیا جائے۔ اکثروبیشتر ولیج لینڈ ریکارڈ کیپر پٹواری ہمیشہ کرنام (برہمن) اور چوکسی دار ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد سے دیشمکھوں نے اپنی ملٹری سرویس چھوڑ دی اور پُرسکون اور متمکن زندگی پر اکتفا کرنے لگے۔ ان میں سے بعض شراب اور شباب کے متوالے ہوگئے۔
جب ہم آصف جاہی مالی نظم ونسق کے بنیادی وسائل کو گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو 19 ویں صدی کی شروعات میں کرنام اور پٹیل جیسی نئی قوتیں ابھر آئیں۔ وہ دیہی نظم و نسق میں چھاگئے اور روایتی دوراؤں کو پست کردیا۔ 1875ء میں سالار جنگ کی اصلاحات کے بعد دستور العمل رائج ہوا۔ یہ نیا ریونیو کوڈ (دستور دیہی) تجویز کیا گیا: بندوبست، مائنا (سروے)، سالانہ جمع بندی، رقم … معافی، سوائے جمع بندی، کمی، اگزالا، جس نے روایتی پٹواریوں کو دیہی ریکارڈز رکھنے کے علاوہ سفارشی اتھارٹی کے طور پر اعزاز بخشا۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ تمام زمینداروں بشمول دوراؤں نے کرناموں (پٹواریوں) کو خوش رکھنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت شروع کردی۔ گزرتے وقت کے ساتھ پولیس پٹیلوں اور منی پٹیلوں کے بچے تعلیم یافتہ ہوئے اور کرناموں کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے لگے۔ تاہم، دونوں مل کر نفع کو بانٹنے لگے اور دیشمکھوں، دیشپانڈوں اور دوراؤں کی طاقت کو گھٹانے لگے۔ مندومولا نرسنگ راؤ نے دورا حکمرانی کے خاتمہ اور کرنم دیہات میں پٹیل حکمرانی کی شروعات کے تعلق سے لکھا ہے۔ کرنم … پٹیل گٹھ جوڑ نے آندھرا کمیونسٹوں کی سرحدی اضلاع ورنگل اور نلگنڈہ میں پیش قدمی کرنے میں مدد کی۔ پولیس ایکشن کے بعد کرنم اور پٹیل طبقے سیاسی اقتدار پر قبضے کیلئے جھگڑا کرنے لگے اور حیدرآباد اسٹیٹ کے تین حصوں میں ٹکڑے ہوجانے کا موجب بنے اور آخرکار تلنگانہ کو 1956ء میں آندھرا والوں کے حوالے کردیا۔
سرکاری خزانہ کیلئے وسائل کو ریونیو فارمنگ یعنی دیہات کو اعلیٰ ترین بولی دہندہ کو دے کر بڑھاتے ہوئے سالار جنگ نے وطن داری سسٹم متعارف کرایا۔ اس سسٹم میں پٹیل اور پٹواری تقررات تجویز کئے گئے۔ اس کا مقصد دیشمکھوں کی طاقت کو ختم کرنا بھی رہا۔ پٹیل گاؤں کا مکھیا ہوا کرتا، جس کے پاس اپنے گاؤں کا عمومی کنٹرول اور انتظام ہوتا اور ان میں سے زیادہ تر تلنگانہ علاقے میں ریڈی ہوا کرتے؛ تاہم، پٹواری برہمن (کرانم) ہوتے۔ کوئی بھی پٹواری ایک یا زیادہ دیہات کی زمینات سے جڑے تمام کھاتے اپنے پاس رکھتا تھا۔ پٹیل اور پٹواری طبقوں کے پاس غیرمعمولی اختیارات رہے اور انھوں نے دیہاتیوں کو اپنا مطیع بنا رکھا تھا۔ اس پر سالار جنگ اول نے زمیندار صنف کا ایک اور طبقہ متعارف کیا۔ خزانہ کو بڑھانے کی سعی میں انھوں نے مہم جو افراد کی حوصلہ افزائی کی کہ جنگلات کو صاف کریں اور زمین کو کاشت کے قابل بنائیں اور وہاں قریے قائم کریں۔ اس طرح نئی آبادیاں وجود میں آئیں۔ کچھ وقت گزرنے پر یہ افراد نے خود کو ’ڈورا‘ قرار دیا اور یہ ڈورا عناصر اور وطن دار لوگ تمام گورنمنٹ کنٹراکٹس جیسے اکسائز، پی ڈبلیو ڈی ہتھیاتے ہوئے تونگر بن گئے، اور انھوں نے سرکاری فنڈز بھی دھوکے سے اینٹھ لئے۔ بسا اوقات وہ جھوٹے ریونیو ریکارڈز بنا گئے۔ ان دونوں گروپوں میں باہمی تال میل نے انھیں تمام تر اختیارات کا حامل بنایا اور دیہات اُن کے تصرف میں آگئے۔ ان پٹیلوں اور پٹواریوں نے خود کو ’دورا‘ قرار دیا اور طرز زندگی میں دیشمکھوں کی تقلید کی اور گادیوں جیسے بڑے بڑے مکانات تعمیر کرائے۔ اکثر و بیشتر وہ اپنی عورتوں کو مہنگے ملبوسات اور زیورات پہناتے، انھیں درجنوں خادمائیں فراہم کرتے ہوئے بگاڑ دیا جو آپس میں ایک دوسرے کی حریف ہوتیں۔ کسی نئے امیر کی مانند وہ زن مرید تھے۔ وہ سماجی تغیرپذیری کیلئے ’سنسکرت نوازی‘ بھی کئے۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ تمام دورا دیشمکھ نہیں تھے اور اُن کا وجود نظام کی مرہون منت تھا۔ تاہم، جہاں دیشمکھ تھے وہاں انھیں پٹیل کہا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیشمکھوں سے حسد کرتے تھے، اور یہی حال متوسط درجہ کے ریڈیوں کا تھا۔
لہٰذا، دیشمکھوں کے وجود کیلئے آصف جاہی سلاطین کو مورد الزام ٹھہرانا حق بجانب نہیں ہے۔ تاہم، اس کے برعکس وہ بعد والے مغلوں کی طرف سے مسلط کئے گئے تھے۔ دیشمکھوں کی غاصبانہ حرکتوں کی وجہ سے آصف جاہی سلطنتوں کے خزانے مسلسل دباؤ میں تھے اور امن و بھائی چارہ کا ماحول نہ تھا۔ کوڈے گاؤں کی لڑائی کے بعد ہی سالار جنگ اول قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوسکے اور اپنی عملداریوں میں اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ دیشمکھ طبقے کی تمام تر غلطیوں کیلئے آصف جاہی سلطانوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔