ماضی کے جھروکے حیدرآباد ۔ بریانی

کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی
یہ مفروضہ ہے کہ آصف جاہی سلاطین اعلیٰ درجے کے طعام پر ماہرانہ نظر رکھنے والے اور لذتی تھے۔ اس کے برعکس، اگرچہ شاہی مطبخ میں نہایت عمدہ پکوان ہوا کرتے لیکن وہ سادہ کھانے کو ترجیح دیتے تھے۔ نظام ششم میر محبوب علی خان نے خطہ اور اس کے اقدار کی شناخت کرنے میں فخر محسوس کیا۔ جب وائسرائے آف انڈیا لارڈ کرزن نے حیدرآباد کا دورہ کیا تب نظام ششم نے بڑی ضیافت کا اہتمام کیا، جہاں سب سے پہلے جو ڈش پیش کی گئی وہ راگی سنکتی رہی۔ انھوں نے فخریہ طور پر کہا کہ یہ ’ملک کا کھانا‘ ہے جبکہ ہماری تلنگانہ حکومت اڈلی، وڈا، اُپما، آندھرا کے جھینگے یا خاص خطوں کے شوربوں کے ساتھ ضیافت کرتی ہے۔
یہ دلچسپ واقعہ ہے کہ مقبول عام ڈش بریانی اتفاقی طور پر بابر کے دستوں نے بنائی تھی۔ 1526ء میں جب بابر ہندوستان میں پیش قدمی کررہا تھا، اُس وقت فوجی دستے پکوان کے برتن ساتھ رکھنا بھول گئے۔ جب بابر کو اطلاع دی گئی تو اُس نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ پکوان کی تمام اشیاء ایک ہی بڑے برتن میں ڈال کر پکاؤ۔ اس ڈش کا ذائقہ اچھا رہا اور باہر کے دستوں نے اسے بابرین قرار دیا اور پھر یہ لفظ بگڑتے ہوئے ’بریانی‘ بن گیا۔ زیادہ تر مغلائی ڈشیں باقاعدہ برتنوں کے بغیر پکائے جاتے ہیں، جیسے پتھر کا گوشت جو بہت گرم پتھر پر گوشت رکھ کر بنایا جاتا ہے؛ اسی طرح سیخ کباب: بابر کے سپاہی اپنی تلواروں پر گوشت لگا کر اسے شعلوں کی گرماہٹ سے پکاتے تھے۔نظام سابع میر عثمان علی خان سادہ اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ اُبلے ہوئے سادہ چاول استعمال کرتے جو بطور خاص اسٹیشن گھن پور علاقہ سے لائے جاتے تھے۔ آج کل بریانی شمالی ہند سے لائے جانے والے باسمتی چاول سے بنائی جاتی ہے۔ یہ چاول بھلے ہی مخصوص خوشبو کا حامل ہوتا ہے لیکن وہ ذائقہ نہیں ہوتا جو گھن پور چاول کا خاصہ ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس چاول میں تیل کی آمیزش ہوتی ہے۔ اگر ہم گھن پور چاول کو چند منٹ کیلئے کسی دستی میں رکھیں تو آپ دستی پر تیل کے دھبے دیکھوگے۔
یہ بھی مفروضہ پر مبنی بیان ہے کہ تندوری اشیاء کی شروعات غیرمنقسم پنجاب میں ہوئی اور یہ اُن کا اعلیٰ درجے کا طعام ہے۔ تاہم، یہ بھی بابر نے متعارف کرائی۔ اسے کچی مٹی سے بنے چولہے (تندور) کے اطراف آگ کی گرماہٹ سے پکایا جاتا ہے۔ یہاں بھی باضابطہ برتنوں کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پانی پت (موجودہ ہریانہ میں ہے) کی پہلی لڑائی 1526ء میں لڑی گئی تھی۔ اس جنگ کے بعد باہر کے متعدد دستے اور دیگر لوگ وہیں مقیم ہوگئے اور مسالہ اور تیل سے عاری سادہ غذا استعمال کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ہم تلنگانہ میں جسے پھلکا اور شمال ہند میں چپاتی کہتے ہیں وہ بھی مغلوں کی متعارف کردہ ہیں۔ سپاہی گیہوں یا کوئی دیگر اناج کا گوندھا ہوا آٹا لیکر اس کے گول ٹکڑے بنالیتے اور اپنی لڑائی کی ڈھال پر رکھ کر آگ سے سینک لیتے، اس کے بعد نیم پکے ٹکڑوں کو انگارے یا سلگتی ہوئی لکڑی سے پورا پکا کر نوش کرلیتے۔ اب ڈھال کی جگہ توا استعمال ہوتا ہے۔