ماضی کے جھروکے حیدرآبادیوں کا حصہ برائے جدوجہد ِ آزادیٔ ہند

کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی
سروجنی نائیڈو کے علاوہ ایسے کئی حیدرآبادی رہے جنھوں نے ہندوستان کی جدوجہد ِ آزادی میں حصہ لیا۔ ان میں سے وہ اولین ہندوستانی بھی ہے جسے 1857ء کی غدر کے بعد 1858ء میں انڈمان کی سلیولر جیل کو بھیجا گیا اور جس نے وہاں سزا کاٹتے ہوئے اپنی آخری سانس لی، کوئی اور نہیں بلکہ نلگنڈہ کے متوطن مولوی علاء الدین رہے۔ اُن ہی کی مدد و اعانت رہی کہ نظامِ وقت کے فوجی صوبیدار طرہ باز خان نے برٹش ریزیڈنسی واقع سلطان بازار، حیدرآباد پر حملہ کیا تھا۔ تاہم، برتر آتشیں طاقت کے سبب اس حملے کو ناکام بنادیا گیا اور طرہ باز خان کو پھانسی دی گئی، جبکہ مولوی علاء الدین کو سزائے عمر قید پر انڈمان جزائر کو جلاوطن کردیا گیا۔ سچ ہے چھوٹا تارہ بھی تاریکی میں جگمگاتا ہے!
1942ء کی تحریک کے دوران دو حیدرآبادیوں عابد حسن صفرانی اور سریش چندر نے سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شمولیت اختیار کی اور اُن کے پرسنل سکریٹری اور اِنٹرپریٹر (ترجمان) بن گئے۔ عابد حسن 1943ء میں سبھاش چندر کے بحری سفر برائے جنوب مشرقی ایشیا میں جرمن یو۔ بوٹ U-180 میں اُن کے ساتھ بھی رہے۔ انجینئرنگ گرائجویٹ عابد حسن ہی رہے جنھوں نے ’جئے ہند‘ کی اختراع کی اور سبھاش چندر بوس کو تجویز کیا کہ یہی آئی این اے فوجیوں میں ایک دوسرے کو سلام کرنے والے الفاظ ہونے چاہئیں۔ بوس نے اس پر اتفاق کیا اور تب سے یہ یک جٹ کرنے والا نعرہ بن گیا جس سے ہندوستان کے اتحاد کا اظہار ہوا، اور اُسی کے تو سبھاش چندر بوس متمنی ہوا کرتے تھے۔
ہندوستان کی تاریخ میں کئی تضادات سے پالا پڑے گا، جن میں قومی پرچم بھی ہے جو ایک مسلمان کا تیار کردہ ہے یعنی بدرالدین طیب جی۔ ابتداء میں ترنگا میں گاندھی جی کے استعمال کردہ چرخہ کی علامت شامل تھی لیکن وہ پارٹی کا نشان تھا، اس لئے طیب جی نے سوچا کہ اس سے غلط تاثر پڑسکتا ہے۔ کافی ترغیب دینے کا نتیجہ ہوا کہ گاندھی جی نے ’اشوک چکّر‘ (wheel) پر اتفاق کرلیا کیونکہ شہنشاہ اشوک کو ہندوؤں میں عظیم درجہ حاصل ہے اور اُن کے اجتماعیت پر مبنی نظریات کی بناء وہ مسلم لوگوں میں بھی مساوی طور پر مقبول شہنشاہ ہے۔ وہ موقع بھی یادگار ہے جب جواہر لعل نہرو کی کار پر لہرانے والا پرچم خصوصیت سے طیب جی کی شریک حیات نے بنایا تھا۔ وہ حیدرآباد کے سَر اکبر حیدری کی قریبی رشتہ داروں میں سے تھیں۔