ماضی کی جھلکیاں

کے این واصف
’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے عنوان سے ایک عرصہ سے روزنامہ سیاست کے سنڈے ایڈیشن میں جہان دیدہ حضرات سے انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے ، جس سے جہاندیدہ بزرگ ہستیاں اپنے ذہن میں محفوظ کل کے حیدرآباد کی یادوں کے جھروکے کھولتی ہیں ، جس سے حیدرآباد کی تہذیب ،روایات ، ماضی کے شب و روز ، رسم و رواج ، عید وتہوار ، مختلف فرقوں میں رواداری ، ادب ولحاظ ، رہن سہن ، ایام گزشتہ کے معاشی حالات ،سماجی زندگی وغیرہ پہلوؤں پر گفتگو سے آج کی نسل اپنے ماضی قریب اور ماضی بعید کے بارے میں بہت کچھ جان پارہی ہے اور ہمارے بزرگوں کے ذہن میں محفوظ یہ اثاثہ دستاویز بھی ہوتا جارہا ہے ۔

اس ہفتہ ہمارے ذہن میں اس موضوع پر کچھ لکھنے کا خیال تب آیا جب ہم نے گزشتہ دنوں ریاض میں ایک شادی میں شرکت کی ۔ اس شادی کی مختلف تقاریب میں قدیم طرز پر جو رسومات ادا کی گئیں ، اس سے لگا کہ کسی نے ہماری تہذیب گزشتہ کے اوراق کھول دئے ہیں ۔ دیکھنے والوں کے ذہن میں نصف صدی سے قبل کے طور طریقے ، رسم و رواج اور روایات کی یاد تازہ ہوگئی۔ یہاں ہندوستانی کمیونٹی آج کل وطن جا کر اپنے بچوں کی شادی رچانے کی بجائے یہیں اپنے بچوں کی شادی کرنے لگی ہے۔ لیکن ان شادیوں میں وطن کی طرح قبل ازنکاح اور شادی کے بعد کے روایتی رسوم ادا نہیں کئے جاتے ، بس بڑے پیمانے پر ایک دعوت طعام کا اہتمام کردیا جاتا ہے ، کیونکہ نکاح اور ضروری دستاویز کی تکمیل تو سرکاری دفتر قضات میں مکمل کرنے صرف لڑکا ،لڑکی اور ان کے والدین وغیرہ ہی جاتے ہیں ۔ نیز یہاں بہت سی شادیاں تو انٹرنیٹ پر طے ہورہی ہیں اور نکاح کی تقاریب ویب کے ذریعہ انجام پارہی ہیں ۔ یعنی لڑکی اپنے ملک اور لڑکا یہاں بیٹھا ایجاب و قبول کررہے ہیں ۔

نئے زمانے کے نئے طور طریقوں کے اس دور میں ریاض کے ایک کامیاب ترین حیدرآبادی بزنس مین میر مظفر علی صاحب نے اپنے فرزند میر مبشر علی کی شادی کی تقریب قدیم حیدرآبادی رسم و رواج کے مطابق کی ۔ آج جبکہ یہاں شادی کے دعوت نامے تک ای میل whats App وغیرہ جیسے عصری طریقوں سے روانہ کئے جانے لگے ہیں ۔ میر مظفر علی صاحب نے نہ صرف بہترین شادی کے دعوت نامے تیار کرواکر تقسیم کئے بلکہ اپنے قریبی عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو شادی کے دعوت نامے کے ساتھ قبل نکاح منعقد ہونے والی تقاریب یعنی ’’رسم مانجہ‘‘ اور ’’رسم سانچق‘‘ کے تک طبع شدہ کارڈز بھیجے ۔ اور ایک بڑی ہوٹل کے ہال میں منعقد اس تقریب میں انھوں نے ایک چھوٹے ہال میں زیور ، کپڑے ، سنگھار کی قدیم روایتی اشیاء سجا کر رکھیں ۔ انھوں نے سنگھار کی اشیاء زیور اور کپڑوں کے جو نام بتائے وہ تقریب میں موجود حضرات کی اکثریت نے یا ان کے بارے میں کبھی سنا ہی نہیں یا کچھ حضرات نے چالیس پچاس سال قبل سنا ہو اور وہ ان کے ذہن کے کسی حصہ میں محفوظ ضرور رہا ہو ، لیکن عرصہ دراز سے دیکھا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہاں رہنے والے اکثر افراد ایسے ہیں جو ربع صدی یا اس سے زیادہ عرصہ سے یہاں مقیم ہیں اور وطن میں ہونے والی شادیوں کی تقاریب میں گاہے ماہے ہی شریک ہوتے ہیں ۔ رسم سانچق کیلئے ٹریز میں سجا کر رکھا گیا روایتی سنگھار کا سامان اور زیورات کے نام ہم یہاں درج کررہے ہیں ۔ جو ہم نے مظفر صاحب سے معلوم کئے ۔ یہ ہماری نئی نسل کے قارئین کیلئے نئی معلومات ہوں گی ۔ کمر بند ، جگنی مالے ، نٹ ،کالی موتیوں کا لچّھا (کالی پوتھ) ، ماتھے کی بندیا ، کنگن ، آرسی ، بازو بند ، بروش ، جگنی ٹیکہ ،پازیب و بیڑیا ، توڑے ، بچھوے ، ڈنڈپٹی ، سر کا ٹیکہ ، جھمکے ، جھومر ، جڑاوی لچّھا ، ست لڑا ، کرن پھول ، ناک کی دال ، مونگے موتی کا ہار ، چوٹی بند ، مباق ، مسّی ، افشاں (عام زبان میں ارّاش) اگر بڑیاں ، سرمہ ، کاجل کی ڈبی ، عطردان ، چکسا ، ہلدی ، مہندی ، بالوں کے مسالے ، تیل ، دھوان لینے کے مسالے ، مٹھائیاں ، خشک و تر میوے سے بھری ٹریز وغیرہ وغیرہ ۔ ہر تقریب میں مظفر صاحب اور ان کے فرزندان میر غضنفر علی ، میر منتصر علی ، میر مجتبیٰ علی اور میر مسفر علی حیدرآباد کے روایتی انداز میں استقبال اور مہمان نوازی کرتے نظر آئے ۔

دراصل مظفر صاحب کو نوادرت جمع کرنے کا شوق ہے ۔ ریاض میں ان کا گھر خود ایک منی میوزیم کی طرح ہے ۔ اکثر وہ کاروبارکے سلسلے میں مملکت سے باہر کے سفر پر رہتے ہیں اور جہاں کہیں کوئی نادر و نایاب قدیم چیز نظر آتی ہے ،گھر لے آتے ہیں ۔ مظفر صاحب کا تعلق حیدرآباد کے ایک قدیم زمیندار گھرانے سے ہے ۔ چونکہ وہ خود آزادی کے بہت بعد میں پیدا ہوئے لہذا انھوں نے زمینداروں کے ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت اپنی آنکھ سے تو نہیں دیکھ سکے لیکن اپنے بزرگوں سے اس کے بارے میں سنا ہے ۔ ان کے دادا میر امیر علی نظام آباد کے انعامدار اور نانا جن کا نام بھی میر امیر علی ہی تھا ، ضلع میدک کے انعامدار تھے ۔ ریاست حیدرآباد کے زمیندار جو پولیس ایکشن کے وقت لُٹ گئے ان میں یہ خاندان بھی شامل تھا ۔ مظفر صاحب 1970 کے دہے میں تلاش معاش کے سلسلے میں سعودی عرب آئے اور بہت ہی چھوٹے پیمانے پر کاروبارکا آغاز کیا ۔ اور اپنی سخت محنت اور لگن سے ایک اعلی مقام تک پہنچے ۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ابتدائی عمر سے ان کی یہ خواہش رہی کہ وہ اپنے بزرگوں کی وہ زمینیں جو ان کے ہاتھ سے چلی گئیں ، انھیں پورا نہیں تو اس کا کچھ حصہ ضرور واپس حاصل کریں ۔ جب سعودی عرب میں کچھ وقت گزارا اورحالات اچھے ہوئے تو انھوںنے ایسی کچھ زمین واپس خریدی جو کبھی ان کے بزرگوں کی ملکیت ہوا کرتی تھیں ۔ انھوں نے زمینوں کے علاوہ وہ قدیم اور روایتی زیور جو ان کے بزرگوں کے پاس ہوا کرتے تھے اور جن کے بارے میں انھوں نے سنا تھا وہ بھی اپنی جستجو اور تلاش سے حاصل کرلئے ۔

قدیم طرز کے ان زیورات کے بارے میں مظفر صاحب نے کہا کہ اگلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ لڑکی شادی سے قبل ایک تتلی کی مانند ہوتی ہے اور شادی کرکے اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ اب تمہاری گردن ، ہاتھ ، پیر میں سونے ، چاندی کی زنجیریں اور بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں ۔ اب تم تتلی نہیں بلکہ ایک ذمہ دار عورت ہوگئی ہو ۔ اسی تصور کے تحت بھاری بھرکم سونے چاندی کے زیورات سے دلہن کو لاد دیا جاتا تھا ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بے حد سادگی کے ساتھ شادی کی رسم انجام دی جائے بھی تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ لیکن شادی کی رسومات کا تعلق کسی مذہب سے نہیں بلکہ اس کا تعلق علاقہ کے کلچر سے ہے ۔ اس میں کہیں اسراف کا عنصر بھی آجاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ میں بھی اسراف کا قائل نہیں لیکن ہم نے اپنے بچوں کی شادیوں میں اسراف غالب ہونے نہیں دیا ۔ ہاں لڑکی کو انواع و اقسام کے زیور جو ہم نے دئے یہ اسراف میں نہیں آتا ۔ مظفر صاحب نے یہ بھی کہا کہ آج کل کچھ لوگ سادگی کے اظہار کیلئے محفل عقد مسجد میں منعقد کرنے لگے ہیں ۔ یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے ۔ بشرطیکہ مسجد میں عقد نکاح جیسے سادگی کے عمل کے بعد دولہا مسجد سے ہی دلہن کو لیکر اپنے گھر روانہ ہوجائے اور دوسرے روز اسی سادگی سے دعوت ولیمہ دی جائے ۔ مگر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ مسجد میں نکاح کے بعد عالیشان شادی خانے میں دعوت اور پھر وہی دھوم دھڑاکا ، رقص و موسیقی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تضاد اچھا پیام نہیں دیتا ۔

میر مظفر علی نے آخر میں کہا کہ حیدرآباد کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے ۔ اس کی روایتیں اور تہذیب موتیوں کی لڑی کی مانند تھیں جو بکھر گئیں ۔ مگر کچھ لوگ اب بھی یہ بکھرے موتی چننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ حیدرآبادی باشندے دنیا کے مختلف ممالک میں جا بسے مگر ہر جگہ اپنی زبان ، اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں بھی اپنی روایتوں اور تہذیب کی پاسداری کی مقدور بھر کوشش کرتا ہوں۔

بہرحال یہاں جو بھی آتا ہے وہ اپنے ساتھ کچھ خواب لیکر آتا ہے اور ان خوابوں کی ترجیح میں پہلا مقام ایک متمول زندگی کا خواب ہوتا ہے اور پھر ان خوابوں کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے ۔ کسی کو اپنے خوابوں کی تعبیریں مل جاتی ہیں اور کسی کے خواب صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں ۔ لیکن ہر حال میں انسان کو خواب دیکھنا چاہئے ۔ کیونکہ خواب حقیقت کا زینہ ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں ان کی راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں اور جن کے خواب حقیقت بن جاتے ہیں ان کے دن چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ذہن میں خواب سجا کر یہاں آنے والے جن خوش نصیبوں کے دن چھوٹے ہوجاتے ہیں ان میں میر مظفر علی بھی ایک ہیں جنہوں نے عام تارکین وطن کی طرح ایک متمول زندگی کے خواب کے علاوہ جو ایک منفرد خواب دیکھا تھا وہ تھا اپنے قدیم روایتی کی بازیابی اور اپنے تہذیبی ورثے کی حفاظت ، جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔