مارماڈیوک پکتھال حیدرآباد میں

آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد اشرف
ریاست حیدرآباد کی جانب سے اہم سرکاری عہدوں کے لئے بیرون ریاست و بیرون ملک سے جن ممتاز اور منتخب شخصیتوں کو طلب کیا گیا تھا اُن میں محمد ماماڈیوک پکتھالی بھی شامل تھے ۔ اگرچہ پکتھال نے حیدرآباد میں صرف دس سال ملازمت کی لیکن ملازمت کی اس مختصر مدت میں انھوں نے اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے علاوہ حکومت ریاست حیدرآباد کے تعاون سے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ مکمل کیا۔ پکتھال کا انگریزی ترجمہ اُس وقت تک کئے گئے تمام انگریزی ترجموں سے بہترین ترجمہ سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کے اس انگریزی ترجمے کے کام کی تکمیل و اشاعت وہ یادگار کارنامہ ہے جس کی وجہ سے پکتھال اور ریاست حیدرآباد کا نامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔

قرآن مجید کے شہرہ آفاق مترجم کئی معیاری ادبی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ا ور مشہور صحافی ماماڈیوک پکتھال 7 اپریل 1875 ء کو لندن میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے انگلستان اور یورپ کی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی ۔ پکتھال نے مصر ، ترکی ، بیروت ، شام اور بیت المقدس کی سیاحت کی جہاں کافی عرصے تک اُن کا قیام رہا ۔ ان ملکوں کی سیاحت اور قیام کے دوران پکتھال نے عربی زبان کی تحصیل مکمل کی اور اسلام کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کیا۔ انھوں نے اپنے گہرے اور وسیع مطالعے کی بنیاد پر 1917 ء میں اسلام قبول کیا۔

محمد مارما ڈیوک پکتھال 1920 ء میں بمبئی آئے ۔ مشہور انگریزی اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1924 ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ۔ حیدرآباد میں چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کے عہدے کے لئے ریاست حیدرآباد کی حکومت کی نظر انتخاب پکتھال پر پڑی ۔ اُس وقت اُن کی عمر لگ بھگ پچاس برس تھی لیکن اُن کی غیرمعمولی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں کے پیش نظر سرکاری ملازمت کے لئے عمر کی مقررہ حد کو نظرانداز کرتے ہوئے اس عہدے کے منظورہ گریڈ کی انتہائی یافت ایک ہزار کلدار ماہانہ کی پیشکش کی گئی ۔ پکتھال نے اس پیشکش کو قبول کیا ۔وہ حیدرآباد آکر جنوری 1925 میں چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کے عہدے پر رجوع ہوئے ۔ وہ چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے تھے لیکن انھیں محکمہ نظامت اطلاعات عامہ اور سول سرویس کانگراں کار بھی مقرر کیا گیا تھا۔

حیدرآباد کا معروف انگریزی رسالہ اسلامک کلچر 1927 ء میں پکتھال کی ادارت میں جاری ہوا جسے انھوں نے بلند پایہ علمی اور تحقیقی جریدہ بنانے کے لئے سخت محنت کی ۔ حیدرآباد کے قیام تک وہی اس رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ پکتھال کا عظیم کارنامہ ہے ۔ ریاست حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآن حکیم کے اس مترجم کو اس نے سرآنکھوں پر بٹھایا اور ممکنہ سہولتیں فراہم کیں۔ یہی نہیں بلکہ اس ترجمے کی تکمیل کے بعد بھی اس مترجم قرآن کے ساتھ شایان شان سلوک روا رکھا۔
محمد مارماڈیوک پکتھال کی حیات اور کارناموں پر اردو میں قبل ازیں چند مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں اُن کی حیدرآباد کی ملازمت کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔ اس ضمن میں حیدرآباد کی مشہور درس گاہ چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کے عہدے پر پکتھال کے تقرر ، ملازمت کے دوران قرآن مجید کے ترجمے کی تکمیل کے لئے انھیں سالم تنخواہ کے ساتھ دو سال کی رخصت صرف دس سالہ ملازمت کے بعد سبکدوشی پر مکمل وظیفے کی منظوری اور ان کے انتقال پر ان کی بیوہ کو تاحیات وظیفہ کی منظوری کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں جو آندھراپردیش اسٹیٹ ارکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ریکارڈ سے اخذ کردہ اہم اور مستند مواد پر مبنی ہیں ۔

چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کی خدمت کے انتظام کے متعلق سر راس مسعود ناظم تعلیمات نے اپنی ایک تحریک میں لکھا کہ محکمۂ تعلیمات کی ترقی کے لئے یہ امر ہمیشہ پیش نظر رہا ہے کہ فرسٹ گریڈ ہائی اسکولوں میں کم از کم ایک ہائی اسکول کا پرنسپل قابل انگریز رہا کرے ۔ اسی اُصول کے مدنظر چادرگھاٹ ہائی اسکول کی صدارت پہلے شاکراس اور ان کے تبادلے پر کرک پیاٹرک مامور کئے گئے تھے ۔ کرک پیاٹرک کا انتقال ہوچکا ہے ۔اس لئے اس خدمت کے لئے مارماڈیوک پکتھال کانام پیش کیا جاتا ہے ۔

پکتھال آج کل کی علمی دنیا میں مشاہیر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے انگلستان اور یوروپ کے دیگر ممالک میں تعلیم پائی ہے ۔ انگریزی ، جرمن ، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں سے واقف ہونے کے علاوہ عربی میں بھی بہت اچھی استعداد رکھتے ہیں۔ وہ 1875 ء میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی ممالک میں عربوں ، ترکوں اور مصریوں کی صحبت میں گزاراہے ۔ اسلامی ممالک کے بارے میں ان کی بہت سی تصانیف ہیں۔ انگلستان اور امریکہ کے تمام معتبر اخبارات اور رسائل میں ان کی کتابوں کی تعریف و توصیف کے ساتھ اس امر کا اعتراف کیا گیا ہیکہ مشرقی ممالک کے حالات اور تمدن کو سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ لازمی ہے ۔ یہ کتابیں اس قدر مقبول ہوئی ہیں کہ ان کا ترجمہ فرانسیسی ، جرمن ، ڈینش ، ہنگرین اور روسی زبانوں کے علاوہ ایشیا کی متعدد زبانوں میں بھی ہوا ہے ۔ مارماڈیوک پکتھال کے خلوص اور ہمدردی کی بنا پر ترکی کی حکومت ان کو اپنے ایک صوبے کا گورنر مقرر کرنا کا ارادہ کررہی تھی لیکن جنگ کا آغاز ہونے کی وجہ سے یہ تقرر عمل میں نہ لایا جاسکا تاہم ان کے لئے جو عزت و وقعت ترکوں کے دلوں میں تھی اس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ ترکی کی ایک اہم شاہرہ کو اُن کے نام سے موسوم کرنے کی تجویز تھی ۔ پکتھال 1924 ء سے چند ماہ قبل تک بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر تھے ۔

چونکہ ان کے جیسے قابل اور مشہور یورپین کی خدمات سے مستفید ہونے کا ہندوستان میں شاذ و نادر ہی موقع ملتا ہے اس لئے محکمہ تعلیمات کے لئے ان کی خدمات جلد سے جلد حاصل کی جائیں۔ چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کے عہدے 500 تا 1000 روپئے پر اس سے بہتر کوئی انتظام نہیں ہوسکتا ۔ اس سلسلے میں مارما ڈیوک پکتھال سے یہ استفسار کرنے کی اجازت دی جائے کہ آیا وہ اس خدمات کو دو سال تک اس کے انتہائی گریڈ ایک ہزار روپئے ماہوار کے ساتھ قبول کرنے کے لئے آمادہ ہیں یا نہیں۔ معتمد تعلیمات اور محکمۂ فینانس نے ناظم تعلیمات کی پیش کردہ اہم تحریک سے مکمل طورپر اتفاق کیا۔ ان سفارشات پر حکمران ریاست میر عثمان علی خان آصف سابع نے فرمان مورخہ 22 ڈسمبر 1924 ء کے ذریعے چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کے عہدے پر دو سال کیلئے ایک ہزار کلدار ماہوار پر مارماڈیوک پکتھال کے تقرر کے احکام جاری کرتے ہوئے لکھا کہ اس پیشکش کی نسبت پکتھال جو کچھ بھی جواب دیں اس کی اطلاع انھیں ( آصف سابع ) دی جائے ۔ اس فرمان کی تعمیل میں پکتھال کو فوراً بذریعہ تار مطلع کیا گیا ۔ انھوں نے اطلاع دی کہ انھیں یہ پیش کش قبول ہے ۔ پکتھال نے اس عہدے پر تقرر کے احکام جاری ہونے کے بعد 15 جنوری 1925 ء کو چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل کے عہدے کاجائزہ حاصل کرلیا۔

پکتھال نے چادرگھاٹ ہائی اسکول کی ترقی کے لئے بڑی محنت کی ، طلبہ کی کردارسازی پر خصوصی توجہ دی اور چادرگھاٹ ہائی اسکول کو ایک مثالی اسکول بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ڈاکٹر احمد محی الدین جو پکتھال کی پرنسپلی کے دور میں چادرگھاٹ ہائی اسکول کے طالب علم تھے اپنے ایک مضمون مطبوعہ ماہنامہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد ستمبر 1994 ء میں لکھتے ہیں کہ پکتھال کے مراسم مصر ، ترکی اور برطانیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے تھے ۔ وہ سول سرویس کے منتخب افراد کی تربیت بھی کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ترجمۂ قرآن کے کام میں غرق تھے مگر حیرت ہے کہ اس مصروفیت کے باوجود وہ بلاناغہ سوائے جمعہ کی تعطیل کے دن بھر مدرسے میں موجود رہتے ۔ دوپہر کے وقفے میں نماز ظہر کی امامت بھی کرتے اور اُسی گھنٹے میں اسکول کے صحن میں کچھ دیر کے لئے لڑکوں سے بے تکلف گفتگو بھی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں لطیف ظرافت جھلکتی رہتی تھی۔ طلبہ اُن کی مسکراہٹ کبھی نہیں بھول سکتے۔

پکتھال نے حیدرآباد کی ملازمت کے دوران قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ مکمل کرنے کاارادہ کیا ۔ چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک درخواست بتوسط ناظم تعلیمات پیش کی

جس میں انھوں نے لکھا کہ حکومت ریاست حیدرآباد کی ملازمت میں داخل ہونے سے قبل انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ شروع کردیا تھا تاکہ اُس کے محاسن ، جوش اور دبدبہ کا کچھ اظہار ہوسکے جو موجودہ ترجموں میں مفقود ہے ۔ یہاں آنے کے بعد انھیں اپنے گوناگوں فرائض میں اس قدر منہمک ہونا پڑا کہ ترجمے کے کام کو آگے بڑھانے کیلئے فرصت نہیں ملی ۔ وہ قرآن پاک کے ایک ثلث کا ترجمہ کرچکے ہیں جس میں آٹھ ماہ صرف ہوئے ۔ بقیہ کام کی تکمیل کیلئے کامل فرصت کے ساتھ دو سال کی مدت درکار ہوگی۔ اس مدت میں وہ ترجمے کو حواشی و مقدمے کے ساتھ مکمل کرلیں گے ۔ انھیں علماء سے مشورہ کرنے اور کتب خانوں سے مدد لینے کے لئے یوروپ ، مصر اور الجیریا بھی جانا پڑے گا ۔ اس لئے ان کی استدعا ہے کہ انھیں دو سال کی رخصت بطور خاص پوری تنخواہ کے ساتھ منظور کی جائے ۔ پکتھال نے اپنی درخواست میں یہ بھی لکھا کہ قرآن پاک کے موجودہ ترجموں میں مولوی محمدؐ علی کا ترجمہ محنت سے کیا گیاہے مگر اُس کی انگریزی ایسی ہے کہ کوئی انگریز اس کو روا نہیں رکھ سکتا ۔د وسرے تراجم ایسے اشخاص کے ہیں جو قرآن پاک کو مقدس نہیں سمجھتے تھے اس لئے انھوں نے طرز عبارت میں کوئی احتیاط روا نہیں رکھی ۔ پکتھال نے درخواست میں خود اپنے بارے میں لکھا کہ وہ عربی کے مختلف السنہ بخوبی جانتے ہیں ، قرآن پاک کی تلاوت میں ذوق و شوق کے ساتھ انھوں نے اپنی عمر صرف کی ہے ،

انگریزی ان کی مادری زبان ہے اور بحیثیت مصنف انھیں کسی حد تک شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ ان کی تمنا ہے کہ لندن میں مسجد نظامیہ کی تعمیر ختم ہونے سے قبل قرآن پاک کا ترجمہ صاف اورموثر انگریزی میں شائع ہوجائے جو لندن کے ہر کتب فروش کی دکان پر مل سکے اور جس کو انگریز مسرت کے ساتھ پڑھ سکیں اور آسانی سے سمجھ سکیں۔ ناظم تعلیمات نے اس درخواست پر یہ رائے تحریر کی کہ قرآن پاک کے بہترین اور صحیح ترجمے کا موقع حاصل ہورہا ہے ۔ اگر آصف سابع پکتھال کی درخواست منطور فرمالیں تو تمام اسلامی دنیا پر احسان ہوگا۔ اس وقت دنیائے ادب میں پکتھال کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جو قرآن پاک کا ترجمہ اس خوبی سے کرسکے کہ اس کے حقیقی حسن میں فرق نہ آئے ۔لہذا وہ پرزور ستائش کرتے ہیں کہ اس خاص کام کے لئے حسب استدعا پکتھال کو دو سال کی رخصت پوری تنخواہ کے ساتھ منظور کی جائے اور انھیں یورپ ، مصر اور الجیریا جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ وہاں کے علماء سے مشورہ اور کتب خانوں سے مدد لیں۔

ناظم تعلیمات کی رائے اور سفارشات سے معتمد و صدرالہام تعلیمات ، محکمہ فینانس اور مہاراجا سرکشن پرساد صدر اعظم نے کامل اتفاق کیا۔ آصف سابع نے ان سفارشات کی بنیاد پر فرمان مورخہ 16 جولائی 1928 ء کے ذریعے قرآن شریف کے انگریزی زبان میں ترجمے کے لئے پکتھال کو پوری تنخواہ کے ساتھ دو سال کی رخصت منظور کی ۔ پکتھال ترجمہ مکمل ہونے پر مصر گئے اور وہاں انھوں نے جامعہ ازہر کے اساتذہ اور دیگر علماء سے اپنے ترجمے پر مشورہ اور قرآن مجید کے مشکل مقامات پر بحث و مباحثہ کیا جس کی روشنی میں انھوں نے اپنے ترجمے میں کہیں کہیں نظرثانی کی ۔ ان کا ترجمہ 1930 ء میں Meaning of th Glorious Koran کے نام سے بیک وقت لندن اور نیویارک سے شائع ہوا۔ اُس میں قرآن مجید کا متن شامل نہیں ہے۔ گورنمنٹ سنٹرل پریس حیدرآباد سے 1938 ء میں اس ترجمے کی قرآن مجید کے متن کے ساتھ اشاعت عمل میں آئی ۔ یہ انگریزی ترجمہ ایک ایسے عالم کا ہے جس کی مادری زبان انگریزی تھی اور جو عربی داں بھی تھا ۔ اس لئے یہ ترجمہ انگریزی بولنے والوں کیلئے دیگر انگریزی ترجموں کے مقابلے میں یقینا قابل ترجیح ہے ۔ اس ترجمے کے اب تک بے شمار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔

ابتدا میں پکتھال کا تقرر دو سال کے لئے ہوا تھا جس کے بعد انھیں پہلے دو سال اور اُس کے بعد دو بار تین تین سال کی توسیع دی گئی ۔ پکتھال نے دس سالہ مدت ملازمت کی تکمیل پر وظیفۂ حسن خدمت پر سبکدوش کرنے کے لئے درخواست دی ۔ اُن کی درخواست پر ناظم تعلیمات نے لکھا کہ تاریخ ابتدائی ملازمت سے توسیع کی مدت ختم ہونے تک پکتھال کی جملہ مدت ملازمت دس سال اور عمر ساٹھ سال ہوتی ہے ۔ پکتھال نے زمانۂ ملازمت میں نہ صرف پرنسپل کی خدمت قابل تحسین طریقے پر انجام دی بلکہ انھوں نے مفوضہ فرائض کو انجام دیتے ہوئے محکمۂ نظامت اطلاعات عامہ اور سول سرویس ہاؤس کی نگرانی کی خدمت بھی انجام دی ۔ انھوں نے قرآن مجید کا وہ بے مثل ترجمہ انگریزی میں کیا ہے کہ قرآن کریم کے جتنے ترجمے انگریزی زبان میں ہوئے ہیں اُن سب میں پکتھال کا ترجمہ بہترین مانا جاتا ہے۔

از روئے ضابطہ استحقاق سے زیادہ وظیفہ نہیں دیا جاسکتا لیکن پکتھال کا تقرر اُن کی مستند قابلیت کی وجہ سے اور خاص حالات کے تحت عمل میں آیا تھا اور اُن کی خدمات قابل قدر اور قابل ستائش رہی ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر پکتھال کو اُن کی دس سالہ ملازمت پر بطور خاص اُن کی نصف تنخواہ کے مساوی وظیفہ اُن کی خدمات کی قدردانی کے معاوضے میں منظور کیا جائے ۔ ناظم تعلیمات کی رائے اور سفارشات سے معتمد تعلیمات و وزیر تعلیمات اور محکمۂ فینانس نے اتفاق کیا ۔ باب حکومت (کابینہ ) نے بھی ان سفارشات کو قبول کرتے ہوئے قرارداد منظور کی ۔ آصف سابع نے ان سفارشات کو منظور کرتے ہوئے فرمان مورخہ 26 اگست 1934 ء کے ذریعے احکام صادر کئے کہ مسٹر پکتھال کو اُن کی خواہش کے مطابق جنوری 1935سے ریٹائر کرکے اُن کے نام پانچ سو کلدار وظیفہ بطور خاص جاری کیا جائے۔

محمدؐ مارماڈیوک پکتھال وظیفہ پر سبکدوش ہونے کے بعد لندن چلے گئے ۔ اُن کا 19 مئی 1936 ء کو انتقال ہوا ۔ پکتھال کے انتقال کی اطلاع ملنے پر آصف سابع نے از خود تحریری طورپر استفسار کیا۔ ’’مسٹر پکتھال نے اس ریاست میں مختلف خدمات عمدگی سے ایک عرصے تک انجام دیں۔ اس کے مدنظر ان کی بیوہ اس ریاست سے وظیفہ پانے کی مستحق ہے ۔ کونسل کی رائے عرض کی جائے کہ بیوہ کے نام کس قدر وظیفہ جاری ہونا مناسب ہے ‘‘۔ ان احکام کی تعمیل میں باب حکومت کی سفارشات پیش کی گئیں اور آصف سابع نے بذریعہ فرمان 16 ستمبر 1936 ء مسز پکتھال کے نام دو سو پونڈ سالانہ وظیفۂ رعایتی تاحیات جاری کرنے کے احکامات صادر کئے ۔