مائنمار کارروائی پر جشن فتح عسکری حملوں کا شدید خطرہ

پرافل بدوائی
مائنمار سرحد پر 9 جون کو ہندوستانی خصوصی افواج کی جانب سے دو شمال مشرقی شورش پسند گروپس کے خلاف کارروائی پر اب بحث ختم ہوچکی ہے ۔ اس کارروائی پر دو ردعمل سامنے آئے پہلا ردعمل کارروائی پر جشن منانے والے وزیراعظم مودی کابینی وزراء کی جانب سے مائنمار سرحد پر کارروائی کو این ایس سی این (کے) کے خلاف بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ باغیوں کو کچلا جانا چاہئے ۔ دوسرے ردعمل میں خفیہ کارروائی کی مدافعت کرتے ہوئے تاہم اسطرح کی کارروائیوں کی تشہیر کو غیر دانشمندانہ عمل قرار دیا گیا ۔ ابتدائی طور پر جو بیانات سامنے آئے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس کارروائی کو ایک طرح سے منی پور میں ہندوستانی افواج پر ناگا باغیوں کے گھات لگا کر حملہ کا بدلہ قرار دیا جارہا ہے ۔ مرکزی وزیر اطلاعات راجے وردھن راٹھور نے کہا کہ ہم بشمول پاکستان تمام ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہندوستان اپنی مرضی سے جہاں جس وقت چاہے کارروائی کرسکتا ہے اور کرے گا ۔ مرکزی وزیر سمجھتے ہیں کہ سخت فوجی قوانین کے برخلاف فوجی کارروائی کی تشہیر ضروری تھی کیونکہ نہ صرف این ایس سی این (کے) بلکہ پڑوس کے تمام باغی عناصر کو پیغام دینا تھا تاہم یہ جواز احمقانہ ہے ۔ یہ ہندوستانی تاریخ سے میل نہیں کھاتا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہندوستان ایک قوم ایک تہذیب نہیں ہے ۔ تمام پڑوسی ممالک جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ صحت مندانہ تعلقات ان کی اپنی حفاظت کے لئے اہم کڑی ہے ۔ سرحد پار سخت فوجی تعاقب ناتمام کارروائی بھی ثابت ہوتی ہے ۔

بین الاقوامی قوانین میں سمندری قزاقی ، اسمگلرس پر قابو پانے کے لئے سخت فوجی تعاقب کی اجازت ہے ۔ اگر آپ کے سمندری حدود میں جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے تب مجرمین کا سمندروں میں تعاقب کیا جاسکتا ہے ۔ حفاظت خود اختیاری بظاہر معقول جواز معلوم ہوتاہے تاہم اس جواز کو لیکر امریکہ نے سپٹمبر 2001 میں اس پر ہوئے حملے کے خلاف افغانستان پر جنگ مسلط کردی ۔ منی پور میں 4 جون کو کپلانگ زیر قیادت علحدگی پسندوں نے ہندوستانی ڈوگرہ رجمنٹ کے اٹھارہ فوجی جوانوں کو گھات لگا کر ہلاک کردیا ۔ ہندوستان ان باغی عناصر کے خلاف مائنمار فوج کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائی کرسکتا تھا جبکہ مائنمار کے ساتھ ہندوستان کے بہتر تعلقات ہیں ۔ ہندوستان نے آئی ایم اور این ایس سی این (کے) کے ساتھ بالترتیب 1997 اور 2001 میں جنگ بندی معاہدہ کیا تھا ۔ اس جنگ بندی معاہدہ کو برقرار رکھنے کا اس کے پاس موقع تھا ۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں منی پور اور ناگالینڈ میں عسکریت پسند گروپس کھپلانگ ، الفا اور بوڈو کے درمیان بڑھتی نزدیکیوں کو نظر انداز کردیا اور یہی قربتیں شاید 4 جون کو ہندوستانی فوجیوں پر حملہ کی وجہ بنی ۔ ہندوستانی کارروائی جلد بازی میں کی گئی جو سرحد پار بڑی تعداد میں جمع باغیوں سے قطعی نظر شاید سیاسی اغراض ومحرکات پر مبنی تھی ۔ اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق فوجی کارروائی میں ہلاکے ہونے والے باغیوں کی تعداد مختلف 20، 50 اور 100 بتائی جارہی ہے جبکہ صرف سات نعشیں برآمد ہوئی ہیں ۔ ہندوستان یہ جانتا تھا کہ مائنمار حکومت نے حال میں این ایس سی این (کے) سے مصالحت کی تھی ۔ کیا ہندوستان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مائنمار افواج کے ساتھ باغیوں کو نکال باہر کرنے کے لئے مشترکہ اقدام کرتا جس طرح بھوٹان اور بنگلہ دیش حکومتوں کے ساتھ کیاگیا ۔

دوسری جانب ہندوستان کا کہنا ہے کہ مائنمار دوسرے ممالک کی طرح اپنی سرزمین کو ہندوستانی افواج کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ مودی حکومت کے جنگجویانہ وطن پرستی عزائم ، قومی سلامتی مشیر اے کے دوول اور وزیر دفاع منوہر پاریکر جو کہ ایک کے بعد دیگرے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے عزائم رکھتے ہیں کے ارادوں سے ہندوستان خود کو دور نہیں رکھ پایا ۔ دوول جو کہ سابق ڈائرکٹر انٹلیجنس بیورو رہ چکے ہیں ڈپلومیسی سے زیادہ جنگجویانہ عزائم رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کو قطعی ناممکن قرار دیا ہے ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک نیوکلیئر اسلحہ سے لیس ہیں اور دونوں کے درمیان نیوکلیئر جنگ کے خطہ میں کتنے بھیانک اور خطرناک نتائج برآمد ہونگے ۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ باغیوں ، دہشت گردوں کو بے اثر کرنے کے لئے خفیہ کارروائیاں ثمر آور ثابت ہوتی ہیں تاہم ہندوستان کے اپنے ذاتی تجربہ کو لیجئے ۔ 1950 کے دہے میں ہندوستان نے سی آئی اے کی مدد سے تبتی گوریلاؤں کی تربیت کی تاکہ وہ چین کے خلاف نبرد آزما ہوسکیں ۔ اس طرح ہزاروں تبتی جنگجوؤں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ۔ چین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں دراڑ آگئی جس کے بھیانک نتائج 1962 کی ہند چین جنگ کی شکل میں سامنے آئے ۔ سی آئی اے نے 1965 میں چین کی نیوکلیئر سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے نندادیوی چوٹی سے ایک خفیہ مہم انجام دینے کی کوشش کی تاہم برفانی تودوں کے سرکنے کے سبب یہ خفیہ مشن ادھورا رہ گیا ۔ سال 1987 میں ہندوستان نے سری لنکا میں یہاں کی دہشت گرد تنظیم ایل ٹی ٹی ای کی سرکوبی کے لئے اپنی امن فوج روانہ کی قریباً 1200 ہندوستانی فوجیوں کی امن مشن کے دوران ہلاکت واقع ہوئی اور یہ تعداد ہندوستان کی تمام پچھلی جنگوں میں ہلاک ہوئے فوجیوں سے کہیں زیادہ تھی جبکہ ایل ٹی ٹی ای کے بدلے کی کارروائی میں راجیو گاندھی کے قتل کا واقعہ پیش آیا ۔ افغانستان شام اور عراق میں خفیہ کارروائیاں غیر موثر ثابت ہوئی ۔ دوسری بات فوجی حملوں کے دوران پیش آنے والی ہلاکتوں ، اذیت ، حراست ، گردن زنی ، فرضی انکاؤنٹرس کا حساب لگانا مشکل رہتا ہے ۔ یہ تمام لازمی کارروائی کے نام پر کئے جاتے ہیں ۔ سینکڑوں زندگیوں کو بچانے کے نام پر کسی ایک کو اذیت دیا جانا بھی ایک طرح سے غلط ہے ۔ کیونکہ اس سے کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کے خراب نتائج سامنے آتے ہیں اگر کسی جمہوری ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تب یہاں قانون جائز حقوق کی پامالی ہوتی ہے اسی لئے دیکھا جاتا ہے کہ فرضی انکاونٹر پیش آنے پر شدید عوامی برہمی پائی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر وادی کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں کئی دہوں سے اسی طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ میزورم میں ہندوستان نے بندوق کے خوف کے سائے میں دیہاتوں میں گروپ بندیوں کے ذریعہ ملیالا ۔ ویٹنامی اسٹائل میں لشکر کشی قصبوں کو وجود میں لایا ۔

ناگالینڈ ،منی پور اور آسام میں اپنے ہی عوام پر جنگ مسلط کی گئی یہ امر ملک کی افواج کے درمیان مزید افسردگی کا باعث بنا، افواج کے مظالم میں اضافہ ہوا جس کے نتیجہ میں شہریوں کی بڑی تعداد نشانہ بنی ۔ منی پور میں 1999 میں آپریشن ’’لوک ٹک‘‘ کے نام پر سینکڑوں شہریوں پر فوجیوں کی اذیت رسانی کا قہر ٹوٹا ، جبراً شہریوں کو مزدور بنایا گیا اور ظالمانہ گرفتاریاںعمل میں آئی اور پھر آپریشن ’لوک ٹک‘ کو کامیاب قراردیا گیا ۔ بالآخر ہندوستانی حکومت اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ ہندوستانی افواج کی کارروائیوں کو کہاں روکا جائے ، مسلح افواج خصوصی اختیارات قانون کو 1958 میں عارضی بنیاد پر متعارف کیا گیا ۔ اس قانون نے فوجی افسروں کو سزا کے خوف سے آزاد کردیا جس کے نتیجہ میں فوجی افسران کسی پر بھی قانون شکن ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے اس کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے ، مسلح افواج خصوصی اختیارات قانون وادی کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں تریپورہ ، آسام (سوائے گوہاٹی) میں لاگو ہے ۔ ہندوستانی پولیس سالانہ اوسطاً چودہ سو زیر حراست افراد کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے ۔ وہ ٹاڈا ، پوٹا اور انسداد غیر قانونی سرگرمیوں قانون جیسے قوانین کے ذریعہ مزید اختیارات چاہتی ہے ۔ جبکہ ٹاڈا قانون کے ذریعہ قصوروار پائے جانے والوں کی تعداد صرف ایک فیصد بتائی جاتی ہے ۔ مائنمار کارروائی بھی مسلح افواج خصوصی اختیارات قانون کا ہی حصہ معلوم ہوتی ہے ۔ اس طرح کی کارروائیوں کو ضرور ختم ہونا چاہئے ۔ بہرحال حقیقی طویل مدتی امن کے لئے ہندوستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ متحارب ممالک کے شہریوں کے ساتھ جابرانہ تشدد آمیز رویہ اختیار کرنے کے بجائے صاف دلی کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا ضرور آغاز کریں ۔