لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل

کے این واصف
حرم مکی میں پچھلے تین سال سے بڑے پیمانے پر تعمیر و توسیعی کا کام جاری ہے جس سے حرم کی گنجائش میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس کی اطلاع ساری دنیا کے مسلمانوں کو ہے کیونکہ حرم میں تعمیری کام جاری رہنے کی وجہ سے سارے ممالک کے حج کوٹے میں تخفیف کی گئی ہے ۔ حرم مکی کی تعمیر و توسیعی سے متعلق اخبارات میں مختلف اطلاعات اور خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن اس ہفتہ ایک چھوٹی سی خبر جو شائع ہوئی کس قدر تشویش ناک اور حیرت انگیز تھی ،جس میں بتایا گیا تھا کہ حرم شریف کے ملبے کے منتخب حصے بلیک مارکٹ میں فروخت ہونے لگے ۔ یہ رپورٹ حرمین شریفین کی ان یقین دہانیوں کے برعکس سامنے آئی ہے جس میں جنرل پریسیڈنسی نے تاکیداً کہا تھا کہ حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے کے تحت منہدم کئے جانے والے حصے منصوبہ بند طریقے سے باقاعدہ شکل میں محفوظ کئے جارہے ہیں ۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ملبے کے منتخب حصے 6 ہزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ ریال تک میں فروخت ہورہے ہیں ۔ قیمت کا تعین منتخب حصے کی تاریخ اور اس کی نوعیت سے کیا جارہا ہے ۔

مقامی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی ۔ دریں اثناء حرمین شریفین انتظامیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ توسیعی منصوبے کے باعث منہدم ہونے والی عمارت کے تمام تاریخی ٹکڑوں کی فہرست تیار کرلی گئی ہے اور ان کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 1426ھ کے دوران مطاف کی جزوی توسیع اور پھر 1427ھ کے دوران قدم حرم کے فرش کو ہموار کرنے والے منصوبے سے ملنے والے نوادر کا بھی باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے ۔ اخبار نے توجہ دلائی ہے کہ اس حوالے سے پوچھ گچھ سے پتہ چلا ہے کہ حرم شریف کے منتخب حصوں کی چوری چھپے لے جانے کے واقعات میں بعض کارکن ملوث ہیں وہ معمولی رقم لے کر کچھ لوگوں کو منتخب حصے فروخت کردیتے ہیں اور وہ لوگ تاجروں اور نوادر کے شائقین کے ہاتھوں بھاری قیمت پر ان کے حوالے کردیتے ہیں ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ 1374ھ کے دوران قائم کئے جانے والے آب زمزم کنویں کے تہہ خانے کا ایک ٹائل 6 ہزار ریال اور مقام ابراہیم کے پیتل والے کور کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ریال تک وصول کی جارہی ہے ۔ اتنی ہی قیمت میں سنگ مرمر کا وہ ٹکڑا فروخت ہوگا ہے جس پر باب الملک عبدالعزیز کی عبارت نقش ہے ۔

حرم شریف کی عمارت کے ٹوٹے ہوئے حصوں کو بطور یادگار سجا کر اپنے گھر رکھنا یہ اپنے عقیدے ، خواہش یا مرضی کی بات ہے ۔ لیکن وہاں کام کرنے والے افراد کا عمارت کے ٹکڑوں کا چوری چھپے لے جا کر بازار میں فروخت کرنے کی کوئی عقیدہ یا مسلک اجازت نہیں دیتا ۔ لہذا حرم مکی کے ذمہ داران کی اجازت یا علم میں لائے بغیر چوری چھپے منہدمہ ٹکڑے احاطہ حرم سے باہر لے جانا اور اسے فروخت کرنا ایک نامناسب عمل ہے ۔
ایک عرصہ قبل غلاف کعبہ کے ٹکڑے حکومت کی جانب سے اہم شخصیات کو تحفتاً دیئے جاتے تھے ۔ (واضح رہے کہ غلاف کعبہ ہر سال 9 ذی الحجہ کو تبدیل کیا جاتا ہے) غلاف کعبہ کے ان ٹکڑوں کو حاصل کرنے والے اسے فریم کرکے اپنے دیوان خانوں کی زینت بناتے ہیں ۔ انہی دنوں کچھ مجرم ذہن افراد نے غلاف کعبہ سے ملتے جلتے رنگ اور نوعیت کے نقلی کپڑے کے ٹکڑے مارکٹ میں عام لوگوں کو فروخت کرنے لگے ۔ حج اور عمرہ پر آنے والے اسے بڑی قیمت پر خرید کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ حکومت نے جب اس نقلی غلاف کعبہ کے ٹکڑوں کے کاروبار کا نوٹ لیا تو ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کی تب جا کر یہ کاروبار بند ہوا ۔ یعنی انسان حرام و حلال ، جھوٹ اور دغابازی ، مکر وفریب سے بھی پیسہ کمانے کو عیب سمجھ رہا ہے نہ جھجک محسوس کررہا ہے ۔ اور ظاہر ہے یہ دین سے دوری ، احکامات الہی اور ارشادات نبی کریمؐ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ کچھ ممالک سے مسلمان باشندے حج و عمرے کے ویزا پر مکہ مکرمہ میں جیب تراشی کے لئے آتے ہیں اور حرم مکی میں اژدھام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہمانان رب العزت کی جیبیں کاٹتے ہیں ۔

یعنی بے ایمانی اور بے ضمیری کی اس سے بڑی اورکوئی مثال نہیں ہوسکتی ۔ وہ مقام جہاں لوگ اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرتے اور اپنے رب کریم آگے توبتہ النصوع کرکے لوٹتے اور باقی ماندہ زندگی گناہ کبیرہ و صغیرہ سے بچتے ہوئے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بے ضمیر لوگ ایسے مقام پر محض جیب کترنے اور چوری کرنے کے مقصد سے سرزمین مقدسہ آتے ہیں ۔ مقامی پولیس نے ان پر سخت نظر رکھتے ہوئے حرم سے ان جیب کتروں کا خاتمہ کیا ۔ تو کچھ عرصہ بعد یہ خبر ائی کہ اب یہ جیب کترے حرمین شریفین سے جب نماز جنازہ ادا کرکے میت کے ساتھ لوگ تدفین کیلئے قبرستان کی طرف جاتے ہیں تو جلوس جنازہ میں لوگوں کی کثیر تعددا اور قریب قریب ہو کر چلنے اور ایک دوسرے سے دھکے لگنے کی پرواہ کئے بغیر جنازہ کو کاندھا دیتے ہوئے چلتے رہتے ہیں تو جلوس میں یہ جیب کترے بھی شامل ہو کر لوگوں کی جیبیں کاٹ لیتے ہیں یعنی اخلاقی گراوٹ اور حرام و حلال کے بیچ تمیز کی پرواہ کئے بغیر یہ بے غیرت لوگ پیسہ کماتے ہیں ۔

ماہ رمضان اور موسم حج میں ایک اور بڑا ریاکٹ یہاں چلتا ہے ۔ وہ ہے گداگری کا ریاکٹ ۔ کچھ لوگ معذور مرد ، عورتوں اور بچوں کو مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ لاتے ہیں اور ان سے بھیک مانگنے کا کام کرواتے ہیں ۔ ہر روز ان معذوروں سے مانگا ہوا سا پیسہ چھین لیتے ہیں اور انھیں ان کی مزدوری کے طور پر ایک معمولی رقم انھیں ادا کرتے ہیں ۔ اس طرح کے ریاکٹس ہمارے ملکوں میں ہر بڑے شہر میں چلتے ہیں ۔ لیکن ان بے ضمیروں کو اپنی یہ سرگرمیاں کم از کم مقدس شہروں میں تو نہیں چلانی چاہئے ۔ بے شک گناہ ، گناہ ہے چاہے کہیں بھی کیا جائے ۔ مگر پھر بھی مسلمان ہوتے ہوئے کم از کم اپنے مقدس شہروں کے تقدس کا خیال رکھنا تو ضرور چاہئے ۔

اب ایک آخری بات ۔ پچھلے جمعہ کو ہم مدینہ منورہ میں تھے ۔ زائرین کو روضہ اقدس کی زیارت اور نبی رحمت کے حضور میں درود و سلام پیش کرنے کیلئے باب السلام سے داخلہ دیا جاتا ہے ۔ نماز فجر کے بعد ہم بھی زیارت کیلئے عاشقان رسول کی کثیر تعداد میں شامل ہوگئے اور دیکھا کہ باب السلام پر پہنچتے ہی زائرین کی اکثریت اپنے موبائل فون اٹھا کر کوئی ویڈیو بنارہا ہے ،کوئی تصویریں لے رہا ہے ، کوئی سیلفی بنارہا ہے ۔ اور یہ سب کچھ لوگ اس مقام پر کررہے ہیں جو مقام اس سرزمین کا محترم اور قابل صدر احترام مقام ہے ۔ یعنی روضہ رسول اکرمؐ ، جہاں زائرین کو اپنی آواز اور نظر تک نیچی رکھنی چاہئے ۔ حضور اکرمؐ کی ذات مبارکہ سے متعلق تو شاعر نے کہا ہے کہ ’’لفظ جب تک وضو نہیں کرتے ہم تیری گفتگو نہیں کرتے‘‘۔ روضہ مبارک کے آگے درود و سلام کیلئے کھڑے ہوں تو دست بستہ رہنا چاہئے ۔ نگاہیں نیچی ہونی چاہئے ، زبان ورد درود و سلام رہنا چاہئے ۔ لیکن اس مقام پر لوگ یا تو ادھر ادھر کی گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں یا اپنے موبائل فون پر تصویر کشی میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ جو ازحد افسوس کا مقام ہے ۔ اور ظاہر ہے

یہ تصویر کشی کا مقصد مسجد نبوی میں اپنی حاضری کو ریکارڈ یا دستاویز کرنا اور واپس وطن میں عزیز و اقارب میں اس کی نمائش کرنا ہوتا ہے ۔ بے شک ہر شخص جب کبھی کسی اہم مقام پر جاتا ہے تو یادگار کے طور پر اس مقام کی کچھ تصویریں اپنے کیمرے یا موبائل میں محفوظ کرلیتا ہے اور زیارت مسجد نبوی کا موقع تو خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے ۔ تو ظاہر ہے زائرین یہاں پر کچھ تصویریں بطور یادگار ریکارڈ کرنا چاہے گا لیکن یہ یادگار تصویریں عبادت و زیارت سے فارغ ہو کر مسجد کے صحن میں ٹھہر کر بھی اتاری جاسکتی ہیں ۔ اس سے آپ کی یادگار تصویریں بنانے کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی اور آپ حسب ہدایت ادب و احترام کے ساتھ زیارت روضہ اقدس بھی کر پائیں گے ۔ اس طرح ادب و احترام کے تقاضے بھی پورے ہوں گے ۔ کیونکہ کسی نعت خواں نے زائرین مدینہ منورہ سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ’’اے رہروان شوق یہاں سر کے بل چلو‘‘ روضہ اقدس پر حاضری میں ادب و احترام کے اگر یہ تقاضے ہیں تو بھلا بتایئے کہ کیا ہمیں اس مقام پر ادب و احترام کے تقاضوں کو بھول کر تصویر کشی اور ادھر ادھرکی گفتگو وغیرہ کرنی چاہئے؟

کیمرے یا موبائل پر تصویر کشی کے بجائے ہمیں اس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرلینا چاہئے ۔ اپنے ذہن و قلب میں بسا لینا چاہئے ۔ دنیا میں لاکھوں عاشقان رسول ہیں جو مسجد نبوی کی زیارت کو زندگی بھر ترستے ہیں اور اپنی خواہش کو اپنے سینے میں لئے دنیا سے چلے جاتے ہیں لہذا جب ہمیں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب پاک کی مسجد میں نمازیں ادا کرنے اور زیارت روضہ مبارک کی سعادت نصیب فرمائی ہے تو پھر ہمیں چاہئے کہ دربار نبیؐ میں حاضری کے آداب کا پورا خیال رکھیں ۔ یہاں گزرے ہر لمحہ میں اجر و ثواب حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ خلفائے راشدین ، تابعی ، تابعین اور ہمارے اسلاف کے دینی اقدار ، اخلاق و کردار ، عشق رسول کے ادب و احترام کی مثالیں ہمارے لئے چھوڑی ہیں ۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم اسلاف کی تاریخ کو یکسر نظر انداز کرکے خود ساختہ اصولوں پر زندگی بسر کرنے لگے ہیں اور اغیار نے ہمارے اسلاف کی خوبیوں کو اپنا لیا ۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا ’’لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل‘‘ ۔
knwasif@yahoo.com