لیکن مری تہذیب اجازت نہیں دیتی

معلق پارلیمنٹ … حلیفوں کی تلاش
مودی کے شخصی حملے … بی جے پی کے اچھے دن نہیں

رشیدالدین
لوک سبھا انتخابات کے پانچ مراحل مکمل ہوگئے اور باقی دو مرحلوں سے قبل بی جے پی اور کانگریس کے خیموں میں جس طرح کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا ہے ، اس سے ملک میںمعلق پارلیمنٹ کے اشارے مل رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یقین ہوچکا ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ گزشتہ انتخابات میں جہاں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی ، اس بار پارٹی میجک فیگر سے دور رہ جائے گی۔ بی جے پی اکثریت سے محرومی کے خوف میں ہے تو دوسری طرف اکثریت نہ سہی بلکہ غیر بی جے پی جماعتوں کے ساتھ تشکیل حکومت کے امکانات کانگریس تلاش کر رہی ہے۔ لوک سبھا کا معلق ہونا جب طئے مانا جارہا ہے تو پھر سیاسی مبصرین سنگل لارجیسٹ پارٹی کی پیش قیاسیوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف اقتدار سے محرومی کے خوف کے پس منظر میں مخلوط حکومت کے لئے حلیف جماعتوں سے نہ صرف بی جے پی ربط میں آچکی ہے بلکہ احتیاطی طور پر نئے دوستوں کی تلاش میں ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں اقتدار برقرار رکھنے کا جنون سوار ہے۔ دوسری طرف کانگریس کو کسی طرح موقع کی تلاش ہے۔ 44 ارکان رکھنے والی کانگریس کا کوئی نقصان تو نہیں ، الٹا فائدہ ہونے جارہا ہے ، لہذا وہ غیر بی جے پی جماعتوں کے اتحاد کو مخلوط حکومت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ نقصان میں تو بی جے پی ہے جو نہ صرف اکثریت سے محروم ہوسکتی ہے بلکہ مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے اسے کافی پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ جمہوریت میں تشکیل حکومت محض اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ واضح اکثریت کسی بھی پاری کو نہ ملنے کی صورت میں واحد بڑی پارٹی کی قسمت کھل جاتی ہے ۔ بشرطیکہ اس کے ساتھ حلیف جماعتوں کا ہاتھ ہو۔ پانچ مرحلوں کی رائے دہی کے بعد قیاس آرائیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ بی جے پی عوام کیلئے اچھے دن کے نعرہ کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن نتائج کی صورت میں کیا بی جے پی کے اچھے دن آئیں گے ، اس کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے۔ جب عوام کو اچھے دن کا تحفہ نہیں ملا تو ظاہر ہے کہ جوابی تحفہ میں وہی ملے گا جو آپ نے دیا۔ اُدھر کانگریس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ، اسے جو کچھ بھی ملے گا وہ بونس کی طرح ہوگا۔ انتخابی مہم اور رائے دہی کے ابتدائی مراحل میں بی جے پی قیادت بالخصوص مودی۔امیت شاہ میں جو خود اعتمادی دیکھی گئی ، وہ بتدریج کم ہونے لگی ہے۔ پانچ مرحلوں کے بعد اہم قائدین مکمل اکثریت کے بجائے سنگل لارجیسٹ پارٹی اور مخلوط حکومت کی باتیں کرنے لگیں ہیں۔ مودی کا گودی میڈیا اور ڈھنڈورا چیانلس ابھی بھی حق نمک ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ چیانلس لاکھ مودی بھجن گالیں رائے دہندوں کو متاثر نہیں کرپائیں گے۔ انتخابی مہم کے آغاز سے لے کر آج تک مودی نے طرح طرح کے جو رنگ بدلے ہیں، وہ عوامی مقبولیت میں کمی کے احساس کی علامت ہے۔ چناؤ جیتنے کے لئے مودی نے کوئی حربہ نہیں چھوڑا ۔ بات جب ترقی سے نہیں جمی تو عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کمیونل ایجنڈہ اختیار کرلیا گیا۔ بھوپال سے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی امیدواری کی تائید کرتے ہوئے نریندر مودی وزیراعظم نہیں بلکہ 2002 ء کے چیف منسٹر گجرات دکھائی دیئے ۔ جب وہاں مسلم کش فسادات ہوئے۔ سادھوی پرگیہ کی امیدواری یہ پیام دے رہی ہے کہ بی جے پی کا حقیقی ایجنڈہ ہندوتوا ہے۔ مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کو مرکز میں دوبارہ بی جے پی اقتدار کیلئے بازی لگانی پڑے گی ورنہ پارٹی میں باغی عناصر اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ الغرض لوک سبھا انتخابات مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کیلئے کرو یا مرو کا معاملہ ہے۔ بی جے پی کیلئے اس مرتبہ یو پی ، بہار ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا سے کچھ زیادہ خوشخبری نہیں ہے۔ مرکز میں بی جے پی کا اقتدار مذکورہ ریاستوں میں پارٹی کے بہتر مظاہرہ پر منحصر ہے۔ اترپردیش میں ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد بی جے پی کی نشستوں کو 50 فیصد تک گھٹا دے گا ۔

بی جے پی کے پاس پرکشش قائدین کی کمی ہوچکی۔ مودی کا جادو اب اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ کوئی وعدہ بھی ایسا نہیں جس سے عوام کو پھر ایک بار بے وقوف بنایا جاسکے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے وعدوں پر عمل تو نہیں ہوا بلکہ اس کے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فیصلوں نے غریب اور لاچار طبقات کی زندگی اجیرن کردی۔ انتخابی مہم کے دوران مودی کے ڈائیلاگ اور جملہ بازی پھیکی پڑ چکی ہے۔ مرکزی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے سبب پارٹی کے کئی سینئر قائدین نے مودی کی قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن کو جس انداز میں ٹکٹ سے محروم کردیا گیا ، اس سے پارٹی کیڈر میں مایوسی دیکھی جارہی ہے۔ اڈوانی دراصل مودی کے سیاسی گرو ہیں جنہوں نے ہر نازک موڑ پر گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے مودی کی تائید کی تھی ۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ ایک دن ان کا شاگرد دہلی کی کرسی تک پہنچ جائے گا۔ جس کرسی کیلئے اڈوانی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور پارٹی کو دو ارکان پارلیمنٹ سے 140 تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا تھا، اس پر شاگرد نے نہ صرف قبضہ جمایا بلکہ گرو دکشنا کے طور پر خود گرو کو ٹکٹ سے محروم کردیا۔
مابعد انتخابی نتائج صورتحال پر کانگریس زیر قیادت غیر بی جے پی جماعتوں نے متبادل حکومت کی تشکیل کے سلسلہ میں ابتدائی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے 22 غیر بی جے پی جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے راہول گاندھی اور ممتا بنرجی سے ملاقات کرتے ہوئے حکمت عملی کو قطعیت دی ہے تاکہ بی جے پی کی جانب سے ان کے خیمہ میں پھوٹ پیدا کرنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ مخالف بی جے پی محاذ کی تشکیل اور مرکز میں نریندر مودی کو زوال سے دوچار کرنے کیلئے چندرا بابو نائیڈو اور ممتا بنرجی سرگرم ہوچکے ہیں۔ نائیڈو کو سیاسی پارٹیوں کے محاذ قائم کرنے اور انہیں چلانے کا بہتر تجربہ ہے۔ این ٹی راما راؤ کے دور میں جب پہلی مرتبہ نیشنل فرنٹ قائم ہوا تھا ، اس وقت چندرا بابو نائیڈو کا اہم رول رہا۔ کانگریس سے اختلافات ختم کرتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو نے غیر بی جے پی حکومت کی تشکیل کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ آندھراپردیش میں اگرچہ اسمبلی و لوک سبھا نتائج کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے لیکن چندرا بابو نائیڈو اس سے بے پرواہ ہوکر قومی سیاست پر توجہ مرکوز کرچکے ہیں۔ لوک سبھا کے نتائج پر ان تمام سرگرمیوں کا انحصار رہے گا۔ غیر بی جے پی محاذ کو اپنے ساتھیوں کو متحد رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ سابق میں نتیش کمار جیسے موقع پرست قائدین نے اچانک موقف تبدیل کردیا۔ اگر بی جے پی واحد بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی ہے تو اس کے لئے علاقائی جماعتوں کی تائید حاصل کرنا آسان ہوسکتا ہے ۔ قانونی ماہرین کے ذریعہ مختلف امکانات پر غور کیا جارہا ہے ۔ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں صدر جمہوریہ کا رول اہمیت کا حامل ہوجائے گا ۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ سنگل لارجیسٹ پارٹی کی صورت میں صدر جمہوریہ اسے دوبارہ موقع دیں گے۔ بی جے پی اور کانگریس کی ان سرگرمیوں کے درمیان چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر فیڈرل فرنٹ کا پرچم تھامے مختلف ریاستوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ سابق میں دیوے گوڑا، ایم کے اسٹالن ، ممتا بنرجی اور بیجو پٹنائک کے علاوہ اکھلیش یادو سے ملاقات کرچکے ہیں۔ ابھی تک یہ طئے نہیں ہوا کہ فیڈرل فرنٹ میں شمولیت کیلئے کن پارٹیوں نے اتفاق کیا۔ فی الوقت ایک پارٹی کے ساتھ فیڈرل فرنٹ کاغذی کشتی کی طرح دکھائی دے رہا ہے جس میں سوار ہونے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے ۔ کے سی آر نے کیرالا کے چیف منسٹر وجئین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی کوئی خاص اہمیت اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ کے سی آر کے دورہ کا مقصد سیاسی امور سے زیادہ مندروں کا درشن ہے۔ ویسے بھی ملک میں بائیں بازو جماعتوں کا موقف انتہائی کمزور ہے۔ راہول گاندھی کے کیرالا سے مقابلہ کرنے کے نتیجہ میں یو ڈی ایف کا موقف مستحکم ہوگیا۔ مندروں کے درشن اور پنڈتوں کے آشیرواد کے لئے کے سی آر ٹاملناڈو پہنچے لیکن ڈی ایم کے لیڈر اسٹالن نے ملاقات سے انکار کیا۔ فیڈرل فرنٹ دراصل پرگتی بھون تک محدود ہے۔ جس کا کوئی آفس نہیں اور نہ ہی کسی پارٹی نے شمولیت کا اعلان کیا۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران کے سی آر نے کسی بھی پارٹی کی تائید کیلئے مہم نہیں چلائی ۔ پھر کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ کے علاقائی جماعتیں ان کے فرنٹ میں شامل ہوں گے ۔ تلنگانہ میں بائیں بازو جماعتوں کا صفایا کرنے والے کے سی آر مرکز میں بائیں بازو کا تعاون چاہتے ہیں۔ گلی میں کشتی اور دلی میں دوستی یہ کیسے ممکن ہے۔ اسی دوران وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے اختتامی مراحل میں تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ دیا ہے ۔ انہوں نے گاندھی خاندان کو شخصی حملوں کے ذریعہ نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔ پنڈت جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے خلاف شخصی ریما رکس کرتے ہوئے نریندر مودی نے اپنی بوکھلاہٹ کا ثبوت دیا ہے ۔ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز شخص کیلئے یہ موزوں نہیں کہ وہ اپنے پیشرو وزرائے اعظم کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کریں۔ راجیو گاندھی کو کرپٹ قرار دینے سے قبل نریندر مودی کو رافیل ڈیل میں 60 ہزار کروڑ کی لوٹ کا جواب دینا ہوگا ۔ مودی کے پانچ سالہ دور حکومت کی چارج شیٹ آنے والی حکومت پیش کرے گی ۔ انتخابی مہم کے دوران تنقید سے انکار نہیں لیکن اس کی ایک حد ہونی چاہئے۔ مودی نے جس طرح گاندھی خاندان کو رکیک حملوں سے نشانہ بنایا، اس سے ملک کے عوام خوش نہیں ہے ۔ مودی کی ان حرکتوں پر نواز دیوبندی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
دینے کے تو میں بھی اسے دے سکتا ہوں گالی
لیکن مری تہذیب اجازت نہیں دیتی