تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر حکومت کے کارناموں اور منصوبوں کی خبریں اور تاجروں کے اشتہارات پڑھ کر جب قاری یا ناظر اپنے اندر ایک قسم کی تبدیلی محسوس کرتا ہے تو سمجھیئے کہ اخبار کی خبر یا اشتہار اپنا کام کررہا ہے۔ حکومت تلنگانہ کے کارناموں کی خبریں پڑھنے والے خوش ہیں کہ اسمبلی بجٹ سیشن کے دوران پیش ہونے والا بجٹ بھی خوش کن دکھائی دے رہا ہے۔ اقلیتی بہبود کے لئے اضافی بجٹ کی منظوری ہونے جارہی ہے۔ ایک لیڈر کی زبان سے ہم اچھی باتیں سنتے ہیں تو ایک دکاندار کے اشتہار اور اس کی اشیاء کے بارے میں پڑھ کر خود پر نفسیاتی اثر مسلط کرلیتے ہیں۔ بے شک ہم صحت مند ہوں، روزانہ سیر ہوکر کھانا کھائیں، نیند بھی اچھی ہوتی ہو، دن بھر محنت کرکے تھکاوٹ کے باوجود خود کو تر و تازہ محسوس کریں مگر جب ڈاکٹروں کی زبانی یہ سنتے ہیں کہ بھوک کا نہ لگنا، نیند کا نہ آنا اور مسلسل کمزوری و تھکاوٹ کا شکار رہنے کی وجوہات ایک مرض ہے تو ہم اس بیماری کی علامات کو خود میں بھی ٹٹولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر کہہ دے کہ فلاں مرض کی وجہ یہ ہے تو ہم کسی خودکار طریقہ سے اس عارضہ میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ حکمائے کرام کے مردانہ کمزوری سے متعلق اشتہارات ہوں یا کسی بابا یا پنڈتوں کے جادوگری کے اشتہارات ہوں، نفسیات سے کھیل کر گھر بیٹھے سب کو عارضہ میں مبتلاء کردیتے ہیں اور چونا لگاتے ہیں، یہی تو نفسیات کا کھیل ہے جو لوگ پڑھتے یا دیکھتے ہیں اپنے اندر کوئی کمزوری نہ ہونے کے باوجود اس کمزوری کی علامت پر غور کرنے لگتے ہیں۔
سیاسی لیڈر اگر چالاک ہو تو نفسیات سے کھیل کر اپنا ووٹ بینک مضبوط کرلیتا ہے۔ ڈاکٹر ہوشیار ہو تو اپنا دواخانہ مریضوں سے بھر لینے میں کامیاب ہوتا ہے، دوکاندار یا مینو فیکچرر شاطر ہو تو گاہکوں کی جیب ہلکی کرلیتا ہے۔ عوام کے اندر دیگر امراض ہوں یا نہ ہوں ایک عارضہ تو ضرور ہے کہ وہ فوری سامنے والے کی بات پر یقین کرلیتے ہیں۔ مثلاً جب حکومت خوشخبری سناتی ہے کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا، ترکاریوں کی قیمتیں 3گنا زائد ہوں تو اس کی وجہ بتائی جاتی ہے تو خریدار تسلیم کرلیتا ہے اور اپنی جیب سے 3 گنا اضافی رقم بھی خوشی خوشی ادا کردیتا ہے۔ تلنگانہ کے بھی لوگ گذشتہ 3سال سے اپنے حکمراں کی باتیں سن کر خوش ہیں کہ شہر کو پیرس بنادیں گے، اسمارٹ شہر کی لائینبھی لگادیں گے، تقدیر بدل دیں گے، انصاف دہلیز تک پہنچائیں گے، اور جب حکومت اپنے اعلانات کے باوجود شہریوں کو مطمئن کرانے میں ناکام ہوتی ہے تو اس پر بھی لوگ اس بچہ کی طرح حکومت کی طرف دوڑتے رہتے ہیں جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے اور کھلکھلاتے رہتا ہے۔ تلنگانہ کے عوام گذشتہ 3 سال سے حکمراں کے وعدوں کو تتلی سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اب اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے یہی بات اور اعداد و شمار دہراتے جارہی ہے کہ مسلمانوں کو کیا دیا جائے گا اور بی سی کے کے حصہ میں کتنی رقم آئے گی۔ چیف منسٹر نے اس بجٹ میں بی سی طبقات کے لئے 30,000 کروڑ روپئے کا نشانہ مقرر کیا ہے جبکہ بی سی ویلفیر ڈپارٹمنٹ کو 12000 کروڑ روپئے ملیں گے۔ بی سی بہبودی سرگرمیوں کے لئے دیگر اداروں کو بھی 18000 کروڑ روپئے دیئے جانے والے ہیں۔ چیف منسٹر صاحب نے ریاست کے ماہی گیروں کو بولیرو گاڑیاں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دھوبیوں کے لئے واشنگ مشینس دی جائیں گی اور یادو طبقہ کو دودھ نکالنے کیلئے بھینسیں دی جائیں گی۔ چرواہوں کے لئے بھیڑ بکریاں دی جارہی ہیں۔ بافندوں کو پاورلومس فراہم کئے جارہے ہیں۔ حجاموں کی بھی قسمت چمکانے کیلئے مالی مدد کی جائے گی اور سناروں کو اپنے سونے چاندی کے کاروبار کیلئے مالی مدد دی جائے گی۔ الغرض یہ حکومت گویا علاء الدین کا چراغ رکھتی ہے جو خالی خزانہ، خسارہ زدہ سرکار چلانے کے باوجود ریاست کے ہر طبقہ کو ہتھیلی میں جنت دکھانے کی پوری مہارت کے ساتھ مظاہرہ کررہی ہے۔ بجٹ کی خصوصیات بہت اچھی ہیں پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کو خوش کرنے کا زبردست ہنر آتا ہے اس لے بجٹ میں اعداد و شمار کے ساتھ ان طبقات کی قسمت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ سال 2019 کے انتخابات جیتنے کے لئے حکومت کو سال 2017 کے بجٹ سے ہی آئندہ کے ووٹ بینک کا نشانہ مقرر کرنا ہے۔
حکومت کے کارندے بھی یہی چاہتے ہیں کہ 2017کے بجٹ میں مختص رقومات کو خرچ کرنے کیلئے انھیں کافی وقت مل رہا ہے۔ انتخابات سے قبل پسماندہ طبقات تک سرکاری اسکیمات سے فوائد پہنچانے کو یقینی بنانے کیلئے وقت درکار ہے لہذا جاریہ سال کا بجٹ 2019 کے لئے ٹی آر ایس کی کامیابی کا ضامن ہوگا۔ اس حکمت عملی کے ساتھ ٹی آر ایس حکومت نے 2019 کے انتخابات میں دوبارہ اقتدار کا خواب بھی دیکھنا شروع کردیا ہے۔ تلنگانہ میں دیگر ریاستوں کے مقابل پسماندہ طبقات کی تعداد زیادہ ہے اس لئے ان طبقات کے حق میں سچ اور جھوٹ کے ملے جلے بجٹ کو منظر عام پر لاکر خوش فہمی میں مبتلاء کردیا جائے تو حکمت عملی صد فیصد کامیاب ہوگی۔ مسلمانوں کے لئے 12 فیصد تحفظات کا وعدہ یا تلنگانہ تحریک میں حصہ لینے والے طلباء کو روزگار فراہم کرنے کے اعلانات پر عمل آوری کا معاملہ سب حکومت کی چالاکیوں اور وعدوں کی ملاوٹ کی نذر ہورہا ہے۔ پروفیسر کودنڈا رام کو یکا و تنہا کردینے کی چالاکی میں بھی کامیابی مل رہی ہے۔ بیچارے پروفیسر نے تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی چیرمین شپ کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے باغی ارکان کو معطل کردیا تھا ان پر آمرانہ روش اختیار کرنے کا الزام عائد ہوا۔ واضح رہے کہ ٹی جے اے سی نے گزشتہ منگل کو اپنے دو سینئر قائدین کو معطل کردیا جو 2009 میں اس کے قیام سے وابستہ تھے۔ کنوینر پی رویندر اور معاون چیرمین این پرہلاد پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر مخالف تنظیم سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
ظاہر بات ہے کہ حکمراں طبقہ اپنی طاقت کے بل پر کسی بھی تنظیم کو زیرو زبر کرسکتا ہے۔ ٹی جے اے سی کا بھی حشر ایسے ہی حالات سے دوچار ہوا ہے۔ ان دو ارکان کی معطلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک اور سینئر رکن نے استعفی دے دیا۔ ان معطل شدہ ارکان نے کودنڈا رام کو شدید نشانہ بنایا ہے ۔ کل تک کودنڈا رام چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر پر آمرانہ روش اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے تھے اب ٹی جے اے سی کے معطل شدہ ارکان پروفیسر پر آمرانہ طرز عمل اپنانے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ کل تک پروفیسر کو ایک دانشور ماننے والے آج ان پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ یہ ہوتی ہے انتشار پسندی اور گروپ بندی اپنے راستے کے کانٹے کو ہٹانے کی حکمت عملی اور عوام کو بے وقوف بنانے والی پالیسیاں یہ سب مل کر جب آدمی کو لیڈر بناتی ہیں تو اس کا مستقبل روشن ہوجاتا ہے۔ حکمراں کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کی لت ایک ایسی بیماری ہے جو رائے دہندہ کا قبر تک ساتھ دیتی ہے۔
kbaig92@gmail.com