کنہیا کمار
’’ڈر کا دھندا‘‘ اتنا اچھا ہوتا ہے کہ اس میں دونوں طرف فائدہ ہوتا ہے۔ دونوں ہاتھ میں لڈو ہوتا ہے۔ اس ڈر کے دھندے کی شروعات اس دنیا کے اندر امریکہ نے کی اور یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ افغانستان کے اندر سب کو پتہ ہے کہ طالبان کو کھڑا کرنے میں امریکہ کا کردار تھا اور پھر طالبان کو ختم کرنے کے لئے اس نے دنیا کو اکٹھا کیا۔ مطلب پہلے دہشت گردی کو کھڑا کیا اور پھر دہشت گردی سے لڑنے کیلئے لوگوں کو اکٹھا کیا اور آج جو آپ ہمارے ملک میں ماحول دیکھتے ہیں جس میں کہتے ہیں کہ آپ اگر مودی جی کے ساتھ نہیں ہیں تو آپ پاکستانی ہیں۔ آپ مودی جی کے ساتھ نہیں ہیں تو ملک کے باغی ہیں۔ آپ مودی جی کے ساتھ نہیں ہیں تو ترقی کے مخالف ہیں۔ آپ اگر مودی جی کے ساتھ نہیں ہیں تو آپ فوج کی اور ہندوستانی تہذیب کی توہین کررہے ہیں، یہ کیوں کیا جارہا ہے، اس کی شروعات دراصل جارج بش نے کی تھی۔ جارج بش نے کہا تھا کہ طالبان کے خلاف لڑائی میں اسامہ بن لادن کے خلاف لڑائی میں اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دے رہے ہیں، اس کا مطلب آپ دہشت گردوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حقیقت کیا تھی کہ اس دہشت گرد تنظیم کو خود امریکہ نے کھڑا کردیا تھا اور اس کے پیچھے کی سیاست کیا ہے، دراصل جب سوویت یونین (یو ایس ایس آر) ٹوٹ گیا تب امریکہ کے ماہرین اقتصادیات نے بیٹھا اور کہا کہ اب کس نام پر دھندہ کریں گے اب تو سوویت یونین ٹوٹ گیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ سوویت یونین نہیں ہے تو کس کے بہانے ہتھیار کا بجٹ بڑھایا جائے گا؟ ڈر کا جو دھندہ ہے کیسے کیا جائے گا؟ ہتھیار کیسے بیچا جائے گا؟ تب ان کو ایک دشمن کی ضرورت تھی اور اس وقت ہنٹنگٹن نامی ایک دانشور تھا، اُس نے کہا کہ تہذیبوں کا ٹکراؤ ہونا کا ہونا بہت ضروری ہے جب تک دو تہذیبیں آپس میں ٹکرائیں گی نہیں تب تک ڈر کا دھندہ نہیں ہوسکتا۔ ہتھیار کی خریدی نہیں ہوسکتی اور بازار میں جو مندی آرہی ہے، اس میں اُچھال نہیں ہوسکتا، منافع نہیں کمایا جاسکتا اور اس تھیوری کو اس نے بعد میں الگ الگ کرکے آپ دیکھیں گے کہ الگ الگ طرح کی دہشت گرد تنظیمیں اچانک سے وجود میں آتی ہیں، اب آپ دیکھ لیجئے یہ اتفاق نہیں جب تک یو ایس ایس آر تھا تب تک کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں تھی۔ جب یو ایس ایس آر ختم ہوا تو اچانک سے دنیا میں دہشت گرد تنظیمیں پنپنا شروع ہوگئیں اور یہ جو تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے، اِس میں سب سے Favourable دشمن جو ہے وہ ’’اِسلام‘‘ ہوسکتا تھا، کیونکہ اس کی دو وجہ ہے ،ایک تو وہ اعداد کے لحاظ سے لگ بھگ برابر تھے اور پوری دنیا میں موجود تھے۔ اُن کا ڈر پوری دنیا کو دکھایا جاسکتا تھا، ڈرانے کیلئے بھی کچھ ایسا ہی ہونا چاہئے یا جس کو دِکھاکر ڈرایا جاسکتا ہے۔ اب ہندوازم کا ڈر کیسے دکھاتے۔ ہندو تو ایک ہی ملک میں ہیں تو پوری دنیا میں اس پر دھندا نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری جو سب سے اہم چیز ہے وہ سمجھ لیجئے جہاں اسلام ہے اتفاق سے وہاں تیل بھی ہے۔ ان دونوں وجوہات نے کیا کیا کہ پوری دنیا میں ایک اسلاموفوبیک خیال یا تصور کی شروعات کی اور جو انٹرپریٹ ہوتا ہے اُس کے ذریعہ سے اس سے بالکل الگ الگ ایک طرح کے مذہب کی تشریح لوگوں کے سامنے کی گئی اور دیکھیں گے کہ اُن کے بعد دنیا میں جو فلمی اور سیرئیلیں بنے، اس میں جو دہشت گرد کا کردار ہے وہ جالی ٹوپی پہنا ہوا، اتنی بڑی بڑی داڑھی! اُس کو دہشت گرد کی شکل میں پیش کیا گیا، اُس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ جو اُسامہ بن لادن کا چہرہ ہے، یہی دہشت گردوں کا چہرہ ہے۔ یہی دہشت گرد ہے اور دیکھیں سیریل بنے، فلمیں بنیں، اخبار میں بھی جو فوٹوز آئے وہ بھی اسی طریقہ سے بنائے گئے۔ اچانک سے الگ الگ جگہ پر بم دھماکے ہونا شروع ہوئے اور اِن دھماکوں کے الزام میں مسلمان گرفتار کئے گئے۔ بھارت میں بھی بابری مسجد گرائی گئی۔ بابری مسجد گرانے کے بعد الگ الگ جگہ دنگے ہوئے، دنگے کے بعد بم بلاسٹ کے واقعات پیش آئے پھر مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اور یہ سارا جو کھیل ہے، اس سارے کھیل میں ہر طرف کے لوگ شامل تھے۔ یہ بات آپ بھی کہہ سکتے کہ کچھ مٹھی بھر مسلمان اس میں شامل نہیں تھے۔ اُس کی مثالیں آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین تو بی جے پی کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں نا! ہر طرف ایسے لوگ تھے جن کا ایمان سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، جن کو دھرم سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ دھرم کی جو بنیادی چیز تھی، اُس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، یہ دنیا کا گلوبل جو دھندہ تھا، اس میں اپنا اپنا منافع کمانا تھا، لوگ اس میں کود گئے اور پورے کے پورے مذہب کو Criminalise کردیا گیا اور اُس کی بنیاد پر جو عالمی دھندہ شروع ہوا، اُس کا ریفلیکشن بھارت میں بھی ہوا، بھارت میں بھی ہوا۔ بھارت میں بھی یہ بحث بہت زور پکڑنے لگی کہ سارے دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں، ہر بم دھماکہ میں کوئی نہ کوئی مسلمان گرفتار کیا گیا۔
ایک سوال بس کوئی جب آپ کو کہے تو پلٹ کرکے آپ پوچھئے گا کہ بابری مسجد کے گرنے سے پہلے بھی اس دنیا میں بلاسٹ ہوئے تھے، کیا اس میں کوئی مسلمان ملوث تھا ، آزاد ملک میں کسی ہندو کے ہاتھوں کسی ہندو کا قتل کیا گیا تھا، ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو مارا تھا، ’’جئے شری رام‘‘ بولنے والے نے ’’ہے رام‘‘ بولنے والے کا قتل کیا تھا ، وہ تو کوئی مسلمان نہیں تھا، اُس کے بعد مجھے بتایئے جو آج کہتے ہیں آپ مسلمانوں کو پاکستان چلے جایئے، اگر اُن کو پاکستان جانا ہوتا تو 1947ء میں ہی پاکستان چلے جاتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جو ملک کے پہلے وزیر تعلیم تھے، یہ لوگوں کو یاد نہیں ہے۔ 1857ء کی غدر میں پیر علی کو بھی پھانسی دی گئی تھی۔ وہ بھی ایک مسلمان تھے اور رام پرساد بِسمل ایک برہمن کے ساتھ ایک مسلمان اشفاق اللہ خان بھی شہید ہوا تھا، یہ بات لوگوں کو یاد نہیں ہے! ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھی سے تقریر کی اور کہا کہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ کسی کے کہنے پر ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ اس ملک کی مٹی میں ہمارا بھی خون پسینہ ہے ہماری تاریخ و تہذیب یہاں سے جڑی ہوئی ہے، ہم سارے کے سارے لوگ عرب سے چل کر یہاں نہیں آئے ہیں، ہم یہیں پر پلے ہیں بڑے ہیں اور اس مذہب کی جو خاصیت تھی اور جو پرانے مذہب تھے، جس میں چُھوا چھوت تھی، اس کی وجہ سے لوگوں نے اُسے چھوڑ کر کے اس مذہب کو اپنایا ہے کیونکہ یہ امن (Peace) کی بات کرتا ہے، برابری کی بات کرتا ہے ، مسجد میں جو ہے اونچ نیچ نہیں ہوتی۔ اِس بنیاد پر اِس مذہب کو اپنایا ہے، اس کو چھوڑ کرکے ہم نہیں جائیں گے اور تب اس ملک کے مسلمانوں نے اِس ملک میں ہی رہنے کا فیصلہ لیا تھا۔ پھر سے ہندوستان ، پاکستان کیا جارہا ہے، پھر سے ہندو، مسلمان کہا جارہا ہے تاکہ اس ملک کو ایک بار پھر بانٹا جاسکے، میں آپ کو صرف اور صرف یہ بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کو مدافعانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، آپ دستور کو تھامیئے، اُس کے اُصولوں کو پکڑیئے، اس سے زیادہ حفاظت کرنے والا آپ کا کچھ نہیں ہوسکتا ہے، اس میں جو حقوق کی بات کہی گئی ہے، اس کو آپ کو اپنانا چاہئے اور کوئی اگر یہ کہے کہ آپ کو قرآن کو ماننا ہے کہ دستور کو ماننا ہے تو آپ صاف صاف کہئے کہ ہم قرآن کو بھی مانیں گے اور دستور بھی مانیں گے کیونکہ ہمارا دستور ہم کو قرآن کو ماننے کی اجازت دیتا ہے۔
یہی ہمارے دستور کی خاصیت ہے۔ اِس طریقہ کی بات جو بولی جارہی ہے، اُس پر آپ کو Defensive ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور آپ بتایئے اس ملک میں دو دو وزرائے اعظم کے قتل ہوئے، کسی مسلمان نے اُن کا قتل نہیں کیا۔ اس دیش میں گاندھی جی کا قتل ہوا، کیا کسی مسلمان نے ان کا قتل کیا اور آپ کہتے ہیں کہ مسلمان کے ہونے سے ہمارا حق اَدھیکار چھینا جارہا ہے تو اُن کو بتایئے کہ اس ملک میں مولانا ابوالکلام آزاد پہلے وزیر تعلیم بنے تھے، اس کے بعد کتنے مسلمان وزیر تعلیم بنے، مجھے بتایئے، کتنے ایس پی اور ڈی او مسلمان بنے۔ یہ مجھے بتادیجئے کتنے بڑے آفیسر مسلمان بنے ہیں۔ یہ مجھے بتادیجئے، مسلمان تو وہ کام کررہا ہے جو کام آپ کرنا نہیں چاہتے، مسلمان پنکچر لگا رہا ہے، انڈا بیچ رہا ہے، کاشت کاری کا کام کررہا ہے، چھوٹے موٹے روزگار سے جُڑا ہوا ہے، اُدیوگ دھندے کررہا ہے اور اپنا پیٹ پالنے کیلئے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جاکر نوکری کررہا ہے، گلف میں جاکر نوکری کررہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی وجہ سے ہندوؤں کی حالت خراب ہوگئی ہے، یہ ایک غلط بات ہے اور اس غلط بات پر آپ کو Deffensive ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو Offensive (جارحانہ) ہونا چاہئے۔ بس ایک بات دماغ میں رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی قوم کا رہبر بن کر آئے اور یہ کہے کہ ہم مذہب بچائیں گے تو اُن کو بھی آپ برابر جواب دیجئے اور کہئے کہ ہمارے اللہ کے پاس بہت طاقت ہے، اللہ تعالیٰ ہماری رکھشا کرے گا ، ہم کو دھرم بچانے والا نہیں چاہئے، ہم کو وہ چاہئے جو ہمارے لئے تعلیم کی بات کرسکے، ہمارے لئے روزگار کی بات کرسکے، ہمارے لئے صحت، سہولتوں کی بات کرسکے۔ ہمارے جو روزگار ہیں اُس کو بچانے کی بات کرسکے، ہم کو ایسے نمائندوں کی ضرورت ہے، اللہ ہماری رکھشا کرلیں گے ، اس لئے ہم کو اسلام بچانے والے کی ضرورت نہیں ہے، دونوں طرح کے لوگوں کو آپ کو صاف صاف جواب دینا پڑے گا تب ہی اس ملک میں جو Autharizationکا پلان چل رہا ہے ، جو مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے اُس کا ہم کاؤنٹر کرسکتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ دستور نے ہم کو برابری کا حق دیا ہے، یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ، جتنا ہندوؤں کا ہے، اس کی تاریخ میں ہم نے بھی قربانیاں دی ہیں، اور آج پھر اس دیش پر حملہ ہورہے ہیں تو کندھے سے کندھا ملاکر خود کو بھی بچائیں گے اور اپنی جو قوم کو اُس کو بچاتے ہوئے اس ملک کو بھی بچائیں گے، یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ (نوٹ : یہ مضمون کنہیا کمار کے ایک ویڈیو کو دیکھ اور سن کر من و عن پیش کیا گیا ہے)