لیجئے صاحب شب برا ت آگئی

بچپن کے تہوار بھی خو ب ہوا کرتے تھے ‘ عید میں اگر اس بات کا انتظار رہتا تھا کہ سوئیاں اور صرف ابلی ہوئی سوئیاں عید کے لطف کو بڑھاتی تھیں اور ہم سب منتظر رہتے تھے کہ اب کو سی سوئیاں ملیں گے‘ اسی طرح شب برات میں انتظار رہتا تھا کہ اس بات بیس کا حول بنے گا یا چنے کی دال کا پھر روے کا؟

ظاہر ہے کہ نہ تو سوئیوں ا کوئی دینی اور مذہبی معاملہ تھا اور نہ ہی حلوے کا کیونکہ سوئیاں توعرب میں ہوتی ہی نہیں تھیں‘ ارچکہ حلو ہ وہاں ہوتا ہے‘ لیکن شب برات میں حلوہ بنانے کی رسم وہاں کہیں نہیں ہے ’

یہ ہم ہندوسانیوں کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ عید میں حلوہ نہیں بناتے اور شب برات میں سوئیاں نہیں پکاتے ‘ مزے کی بات یہ ہے کہ حلولے کا جائز ہونے یا نہ ہونے کے متعلق تو بہت سے چہ میگوئیاں ہوتی ہیں‘ لیکن سوئیوں کے بارے میں کوئی کچپ نہیں کہتا حالانکہ عالم یہ ہے کہ اگر کسی گھر میں عید کے دودن سوئیاں نہ پکیں توعورتوں کے دل میں برے خیال آتے ہیں۔

ہمارا تو یہی ماننا ہے کہ ہندوستان میں جو رسومات چل ری ہیں ان کا کوئی مذہبی نقطہ نظر نہیں بلکہ سماجی عینک سے دیکھنا چاہئے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ جس کا اچھا لگے وہ کرے اور جس کا کواچھا نہ لگے وہ نہ کرے۔ دوسرے پر اعتراضات سے اصلاح کے بجائے اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔

میرے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شب براء میں گمراہ نوجوانوں کو گروہ در گروہ جو بدتمیزیاں کرتے پھرتے ہیں ا ن پر قدغن لگائی جائے۔ موٹر سکیل پر کرتب دکھانے کے لئے جو لڑکے نکلتے ہیں ان کے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس رات میں اپنے بچوں پر اس بات کے لئے زورڈالیں کہ وہ قبرستان کی جانب پیدل ہی جائیں ۔ موٹر سائیکل کو گھر سے نکالنے ہی نہ دیں ۔

یہ سختی اس لئے بھی ضروری ہے کہ قوم کی بدنامی نہ ہونے پائے اور آپ کے بچوں کی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے‘ بغیر ہیلمٹ کے تین تین چار چار لڑکوں کو ایک موٹر سیکل پر بیٹھاکر سڑکوں پر زوں زوں کرنے کے لئے نکلنے والے نوجوانوں پر والدین ہی قد غن لگاسکتے ہیں اور وہ اگر واپنے بچوں کو موٹر سائیکلوں ی چابیاں لے کر اپنے پاس رکھ لیں تو قوم ی جو بدنامی ہوتی ہے اور شب برات میں نوجوانوں کی جانوں کا جو اتلاف ہوتا ہے اس کو روکا جاسکتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ پہلے جب شب برات آتی تھی تو قبرستانو ں کی طرف ایک ہجوم نہایت بردباری ‘ خصوع وخشوع اور سنجیدگگی کے ساتھ رواں دواں دکھائی دیتا تھا‘ نہ شور نہ شرابہ نہ ہنسی نہ مذاق۔ سروں کو ٹوپیوں یارومالوں سے ڈھانک کر ہزاروں لوگ اپنے مرحومین کو یاد کرنے کے لئے قبرکے پتھروں میں جمی گرد کو ہٹاکروہاں شمع روشن کرنے کی خاطر پہنچتے‘ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کرتے تھے اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو خاموشی سے واپس ہوجاتے تھے‘ ظاہر ہے کہ قبرپر شمع روشن کرنے والے اچھی طرح جانتا ہے کہ قبر کے اوپر جلنے والی شمع کی روشنی قبر کے اندر نہیں پہنچ سکتی ‘

وہاں توصرف انسان کے اعمال اور کردار کی روشنی ہی اندھیروں کو دور کرتی ہے‘ والیدن کی قبروں پر شمع جلانے والا انسان بس یہ بتاتا ہے کہ اس قبر میں مدفون انسان کی نسل ابھی دنیا میں اجلا کرنے کے لئے باقی ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ قبرستان میں پٹاخے چھڑانے سے گریز کرتے تھے ‘ زیادہ تر لوگ پٹاخے اپنے گھروں پر چھڑاتے تھے لکھنو میں تو دریا کنارے پٹاخے چھڑانے والوں کی بھیڑ ہوتی ہے کیونکہ وہاں دریا کی لہروں پر ایک بڑی سے ناؤ کو سجایاجاتا ہے جس کو بجرہ کہاجاتا ہے۔

اس ناؤ پر امام مہدی کی نذر اور محفل بھی ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں پٹاخے چھڑانے کو خوشی کا اظہار کے لئے اچھا سمجھاجاتا تھا ‘ اس لئے ٹھیک بھی تھا ‘ لیکن آج پٹاخوں کو بڑھتی ہوئی صوتی اور فضائی آلودگی کے لئے زیر مانا جارہا ہے اس لئے بھی اس کے خلاف بھی رائے ہموار کی جانا چاہئے۔