لہو انسان کا سستا لگے ہے

گائے کے نام پر خونی کھیل
یعقوب میمن کے بعد مزید 5 قطار میں

رشیدالدین
کسی بھی مذہب میں انسانی جان کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور ہر مذہب نے انسان کے خون کو انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے لیکن مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے گہوارے ہندوستان میں کسی نے جانور کی قدر و قیمت کو انسان پر مقدم کردیا ہے ۔ کوئی بھی مذہب جانور کے تحفظ کے نام پر انسان کے قتل کی اجازت نہیں دیتا لیکن جارحانہ فرقہ پرستی کے پرچارکوں نے اترپردیش میں جانور کے نام پر ایک بے قصور اور معصوم شخص کی جان لے لی ہے ۔ گائے کاٹنے کی محض افواہ پر فرقہ پرستوں نے ایک مسلم خاندان کو نشانہ بناکر ملک بھر میں اپنے ناپاک ایجنڈہ کا اشارہ دیدیا ہے ۔ یہ واقعہ اگرچہ اترپردیش میں پیش آیا لیکن قومی دارالحکومت سے محض 40 کیلو میٹر کی دوری پر بربریت کا یہ ننگا ناچ مرکز اور اتر پردیش دونوں حکومتوں کیلئے باعث شرم ہے۔ کیا یہی دستور اور قانون کی بالادستی ہے کہ مذہبی جنونی انسانیت کو پامال کرتے رہیں اور حکومتوں میں بیٹھے افراد تماش بین بن جائیں۔ دراصل یہ واقعہ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سے سنگھ پریوار کے مکروہ عزائم کا ثبوت ہے، جو اس طرح کی سرگرمیوں کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتے ہیں۔ سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والی سماج وادی پارٹی اور خود کو مولانا ملائم سنگھ کہنے والے نام نہاد سوشلسٹ قائد کی حکومت میں اس واقعہ کا پیش آنا ملک کی سیکولر طاقتوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ کس طرح سیکولرازم کا نقاب اوڑھے قائدین فرقہ وارانہ جنونیوں کے خلاف کارروائی میں بے بس ہیں۔ اترپردیش میں اس طرح کی سرگرمیاں آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرسکتی ہیں کیونکہ بی جے پی کی نظر 2017 ء کے اسمبلی انتخابات پر ہے۔ گائے کاٹنے کی افواہ پر جو خونی کھیل کھیلا گیا، وہ اچانک اور غیر ارادی نہیں ہوسکتا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ یہ دراصل مظفر نگر فساد کا تسلسل ہے۔

مظفر نگر واقعات کے ذمہ دار ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ اگر ملائم سنگھ کی زیر سرپرستی حکومت خاطیوں کے خلاف کارروائی کرتی تو نہتے مسلم خاندان پر حملے کی جرات نہ ہوتی۔ اکھلیش یادو کے نرم رویہ اور لاء اینڈ آرڈر سے نمٹنے میں ناکامی نے شرپسندوں کے حوصلوں کو ہوا دی ہے۔ دادری گاؤں میں محمد اخلاق کے گھر پر حملہ کیلئے گائے کاٹنے کا الزام محض ایک بہانہ تھا دراصل اس ہندو اکثریتی علاقہ میں بسنے والے چند مسلم خاندان فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے  تھے۔ ان خاندانوں کو نقل مقام کیلئے مجبورکرنے اور ان میں دہشت پیدا کرنے کیلئے یہ سازش رچی گئی۔ پہلی بات تو یہ کہ حملے کے دو دن بعد واقعہ منظر عام پر آیا اور پولیس قاتلوں کے خلاف کارروائی کے بجائے الٹا مقتول کو ملزم ثابت کرنے میں مصروف ہوچکی ہے ۔ پولیس کی ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقام واقعات سے قاتلوں کے خلاف ثبوت اکھٹا کرنے کے بجائے گھر میں موجود گوشت کو حاصل کر کے لیباریٹری بھیجا گیا۔ نظم و نسق کے نزدیک ایک انسانی جان سے زیادہ گوشت کی جانچ کی اہمیت ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ وہ گائے کا گوشت تھا تب بھی انسانی جان لینے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ دراصل ملک بھر میں جاری ذبیحہ پر پابندی کی تحریک کے پس منظر میں مذہبی اقلیتوں میں دہشت پیدا کرنے محمد اخلاق کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس خاندان پر یہ حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک عرصہ سے مقتول کو پاکستانی قرار دیتے ہوئے شرپسند ہراساں کر رہے تھے۔

اگر ہر علاقہ میں غالب اکثریت والے افراد کم آبادی کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنے لگیں تو ملک کا کیا حال ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب مختار عباس نقوی جیسے نام نہاد مسلمان خود یہ کہنے لگیں کہ ’’جنہیں بیف کھاناہو وہ پاکستان جائیں‘‘ تو ہندوتوا طاقتوں کی حوصلہ افزائی نہیں تو کیا ہوگی؟ افسوس کہ ایک مرکزی وزیر مہیش شرما نے اس بے رحمانہ قتل کو محض ایک حادثہ قرار دیا۔ اس طرح تہذیبی امور کے وزیر نے تہذیب کے مغائر رائے زنی کی ہے۔ اس طرح کے تبصرے کرنے والے اس خاندان کی تکلیف اور اذیت کو کیا محسوس کریںگے، جنہوں نے ان کے سرپرست کو ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ بے بسی کے عالم میں اسے بچا بھی نہیں سکے۔ کیوں خاموش ہیں وزیراعظم نریندر مودی جو دنیا کے باہر اپنی پیٹھ خود تھپتھپا رہے ہیں۔ انہیں اپنے کارناموں کی داد ملک کے عوام سے لینی چاہئے نہ کہ غیر مقیم ہندوستانیوں سے جن کے لئے ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ کا معاملہ ہے اور وہ ملک کے حالات کی زمینی حقیقت سے لاعلم ہیں۔ ہر مسئلہ پر ٹوئیٹ کرنے والے نریندر مودی نے اس واقعہ پر ابھی تک افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ ان سے مرکزی وزیر کے خلاف کارروائی کی توقع کیسی کی جاسکتی ہے۔ نفرت کے سوداگروں میں سے آج تک مودی نے ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کے سامنے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور جنہوں نے گجرات کی ہلاکتوں کو گاڑی کی زد میں آنے والے کتے کے بچے کی موت سے مشابہت دی ، ان کیلئے محمد اخلاق کا قتل کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ گوشت پر پابندی کا مطالبہ کرنے والوں کو پہلے شیوسینا اور ایم این ایس قائدین کا سامنا کرنا چاہئے ۔ اخلاق حسین جیسے آسان اور کمزور نشانہ پر وار کرنے والے جسٹس کاٹجو اور فلم اسٹار رشی کپور کو بیف کھانے سے روک کر دکھائیں۔ کیا نریندر مودی اور ان کے وزراء یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ وہ گوشت کھانے والے حکمرانوں کے ممالک کا دورہ نہیں کریں گے؟ بیرونی دوروں پر تو گوشت خور حتیٰ کہ بیف درآمد کرنے والے ممالک کے قائدین سے نریندر مودی اور ان کے وزراء بغلگیر ہورہے ہیں لیکن ملک میں مذہبی اقلیتوں پر بیف کے مسئلہ پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں ؟ حکومت میں ہمت ہو تو وہ ملک سے بیف کی برآمدات پر روک لگادے۔ یہ ہرگز نہیں کرسکتے کیونکہ اس تجارت میں غیر مسلم زیادہ ہیں اور اس سے ملک کو بیرونی زر مبادلہ حاصل ہورہا ہے ۔

ملک میں نفرت کے سوداگروں کے حوصلوں کی بلندی کیلئے مسلم قیادتوںکی بے حسی برابر کی ذمہ داری ہے ۔ کسی بھی واقعہ پر انصاف کیلئے جدوجہد اور آواز بلند کرنے کا جذبہ ماند پڑچکا ہے ۔ اترپردیش میں محمد اخلاق کے قتل اور خاندان پر حملہ کو 6 دن گزر گئے لیکن قیادت کے کتنے دعویدار متاثرہ خاندان سے تعزیت اور اظہار یگانگت کیلئے پہنچے ؟ کہاں ہیں سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنما جو میڈیا کی زینت تو بنتے ہیں لیکن ان کا مظلومین اور متاثرین سے کوئی تعلق نہیں۔ زبانی ہمدردی اور اپنی جذباتی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں کو خواب غفلت میں سلانے کیلئے یہی نام نہاد قیادتیں ذمہ دار ہیں۔ اگر بے حسی کا یہی عالم رہا تو برما اور بوسنیا کی طرح صرف مظالم سہنا اور آنسو بہانا مسلمانوں کا مقدر بن جائے گا۔ کہاں ہے دین اور دستور بچاؤ تحریک ؟ کیا محض ایک اجلاس ، جلسہ عام ، پریس کانفرنس اور پرتکلف ڈشس پر مسلمانوں کی بدحالی پر گفتگو کرنا ہی سب کچھ ہے؟ کیا قوم کے قائدین اور رہنماؤں کی یہی ذمہ داری ہے ؟

قوم بھلے ہی بھول جائے لیکن خدا کے حضور جواب دہی کا احساس کمزور ہونے لگاہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ، ملی کونسل ، مجلس مشاورت ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ کے علاوہ دیگر سیاسی ، مذہبی قائدین ، علماء ، مشائخ کیلئے کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دین اور اس کے ماننے والوں کے تحفظ کیلئے میدان میں آئیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ آرام و آسائش سے منزل مقصود حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ قربانی اور ابتلاء  و آزمائش کا راستہ ہی کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جس سے آج کی قیادتیں دور ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں پانی کی قیمت ہے لیکن خون مسلم کی کوئی قیمت نہیں۔ شریعت میں حلال کردہ چیزوں کے استعمال سے روکنے کیلئے مظالم اور قانون سازی کے علاوہ عدلیہ کے مخالف شریعت فیصلے کیا دین ، دستور بچاؤ تحریک کے آغاز کیلئے کافی نہیں ہیں؟ قیادتوںکی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اترپردیش میں جارحیت اور بے جا الزام کے تحت سفاکانہ قتل پر کسی کی ایمانی حرارت کو جوش نہیں آیا۔ کہاں ہیں اعظم خاں جو سماج وادی پارٹی میں مسلمانوں کے مسیحا کی طرح گھوم رہے ہیں۔ انہوں نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے انصاف کا بھروسہ کیوں نہیں دلایا ؟ کیا اترپردیش کے وزیر کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری نہیں؟ جس شخص نے مظفر نگر کے متاثرین کی دادرسی اور مدد نہیں کی، محمد اخلاق کے خاندان کی مدد کیوں کریں گے۔ قیادتوں کی بے حسی کے نتیجہ میں ملک پر زعفرانی طاقتوں کا غلبہ تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ اس کا ایک ثبوت رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم رول ادا کرنے والے یوگی اویدناتھ کا یادگاری ڈاک ٹکٹ ہے۔ حکومت ہند نے حال ہی میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے ڈاک ٹکٹ کو بند کردیا لیکن رام مندر کی تعمیر کے لئے سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والے کو ڈاک ٹکٹ کی اجرائی کے ذریعہ خراج پیش کیا جارہا ہے ۔

وہ دن دور نہیں جب ناتھورام گوڈسے کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری ہوگا۔ ملک پر اپنی جان نچھاور کرنے والے سابق وزرائے اعظم کے ڈاک ٹکٹوں کو بند کرنا نریندر مودی سرکار کی ذہنیت اور سنگھ پریوار کے ایجنڈے کے عکاسی کرتا ہے ۔ دوسری طرف ممبئی کی خصوصی عدالت نے جولائی 2006 ء ٹرین بم دھماکوں کے 5 ملزمین کو موت اور 7 کو عمر قید کی سزا سنائی ۔ یوں تو قومی میڈیا کے بعض گوشوں نے پولیس تحقیقات پر سوال اٹھائے ہیں لیکن اس بحث میں گئے بغیر ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عدالت کا یہ فیصلہ خالص عدالتی کارروائی ہے یا پھر یعقوب میمن کی پھانسی کے تناظر میں مسلمانوں کی نفسیات پر ضرب لگانے کی کوشش ہے؟ 1992 ء میں بابری مسجد شہادت اور پھر 1993 ء کے ممبئی فسادات سے متعلق مقدمات کا آج تک فیصلہ نہیں آیا بلکہ سماعت بھی مکمل نہیں ہوئی لیکن 2006 ء سے متعلق مقدمہ کا عاجلانہ فیصلہ عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا کر رہا ہے۔  بابری مسجد کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں۔ ممبئی فسادات کے ملزمین کی نشاندہی سری کرشنا کمیشن نے کی اور آج تک کمیشن کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔ برخلاف اس کے یعقوب میمن کی پھانسی کے فوری بعد مزید 5 مسلمانوں کو سزائے موت کے راستہ پر کھڑا کردیا گیا ہے۔ اترپردیش کے واقعہ پر شہود عالم آفاقی کا شعر صادق آتا ہے  ؎
لہو انسان کا سستا لگے ہے
جسے دیکھو وہی پیاسا لگے ہے