لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

اسمبلی چناؤ پر قوم کی نظریں
کشمیر اسمبلی تحلیل … جمہوریت کا قتل

رشیدالدین
مقابلہ کھیل کے میدان میں ہو یا سیاسی میدان میں سیمی فائنل سے صورتحال تبدیل ہوجاتی ہے ۔ کھلاڑیوں پر دباؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور شائقین بھی فائنل کی امکانی ٹیموں اور نتیجہ کے بارے میں اندازے قائم کرنے لگتے ہیں۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کسی سیمی فائنل سے کم نہیں۔ 2019 ء میں لوک سبھا کے عام انتخابات کے لئے یہ نتائج رائے دہندوں کا رجحان طئے کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ، راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے قلعے ہارنا نہیں چاہتی۔ اگر ان ریاستوں میں پارٹی کمزور ہوتی ہے تو ایک طرف نریندر مودی کا امیج متاثر ہوجائے گا بلکہ 2019 ء میں اقتدار میں واپسی کے امکانات بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔ کچھ یہی حال کانگریس کا بھی ہے۔ قومی سیاست میں واپسی کیلئے کانگریس کو سیمی فائنل میں بہتر مظاہرہ کرنا ہوگا۔ قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کی تشکیل میں یہ نتائج اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ قومی اور علاقائی جماعتوں کو یہ طئے کرنا ہے کہ آیا کانگریس زیر قیادت اتحاد میں شامل ہوں گے یا پھر تھرڈ فرنٹ تشکیل پائے گا۔ پانچ ریاستوں کا سیمی فائنل صدر کانگریس راہول گاندھی کیلئے بھی امتحان ہے۔ عوام ان کی قیادت کو کس حد تک قبول کریں گے اور راہول اپنی صلاحیتوں کو کس حد تک منوا پائیں گے؟ بی جے پی قیادت بظاہر مطمئن دکھائی دے رہی ہے لیکن مختلف انتخابی سروے نریندر مودی اور امیت شاہ کی نیند حرام کرچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لوک سبھا انتخابات کے سلسلہ میں بعض اہم فیصلوں کا انحصار سیمی فائنل کے نتائج پر ہوگا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تین ریاستوں میں شکست کی صورت میں لوک سبھا کے انتخابات کو مقررہ مدت سے قبل کرایا جاسکتا ہے ۔

لوک سبھا کے ساتھ آندھراپردیش اسمبلی کے انتخابات بھی ممکن ہیں۔ کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد راہول گاندھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ اور انہیں بہتر طور پر ثابت نہ کرسکے۔ پانچ ریاستوں میں ان کا پہلا بڑا امتحان ہے۔ سیکولر طاقتوں کے ساتھ ساتھ جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو نتائج کا انتظار ہے۔ سیکولر طاقتیں متحد ہونے کی تیاری میں ہیں تو سنگھ پریوار ہندوتوا ایجنڈہ کے ذریعہ عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی فراخ میں ہے ۔ ملک کو پھر ایک بار منافرت کی آگ میں جھونکنے کی سازش رچی گئی تاکہ مودی کا اقتدار باقی رہے۔ مذہبی منافرت کے کھیل میں مودی اور امیت شاہ تو چمپین ہیں۔ تین ریاستوں میں پارٹی موقف کو کمزور دیکھتے ہوئے سنگھ پریوار نے ابھی سے رام مندر کا مسئلہ چھڑ رکھا ہے۔ اسے ہوا دینے یا نہ دینے کا انحصار اسمبلی نتائج پر ہوگا۔ ایک سے زائد ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار بچ جائے تو رام مندر مسئلہ کو لوک سبھا چناؤ تک ٹھنڈے بستے میں رکھ دیا جائے گا اور نتائج برعکس ہوں تو پھر ڈسمبر 1992 ء کی طرح رام مندر کی سیاست گرما جائے گی ۔ سنگھ پریوار ملک کی صورتحال بگاڑنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ ایودھیا میں وشوا ہندو پریشد اور شیوسینا کی دھرم سبھاؤں کا انعقاد محض ایک ریہرسل ہے۔

وشوا ہندو پریشد اور شیوسینا رام مندر مسئلہ کے ذریعہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔ بال ٹھاکرے کے بعد شیوسینا میں کوئی ایسی قیادت نہیں ابھری جو متنازعہ مسائل کے ذریعہ نفرت کا ماحول پیدا کرسکے۔ مہاراشٹرا کی سیاست میں دن بہ دن کمزور موقف سے پریشان شیوسینا نے دوبارہ رام مندر مسئلہ کا سہارا لے لیا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ رام مندر مسئلہ پر سپریم کورٹ کے احکامات کو ماننے تیار نہیں۔ ہمیں تو ڈسمبر 1992 ء کے وہ مناظر یاد آرہے ہیں جب سپریم کورٹ کے احکامات کی پرواہ کئے بغیر کارسیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ اسی انداز میں مندر کی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے۔ حکومت اور ایڈمنسٹریشن 1992 ء میں کلیان سنگھ کا تھا اور اب یوگی ادتیہ ناتھ کا ہے۔ مسجد کی شہادت کے وقت سپریم کورٹ جس طرح بے بس ہوچکا تھا، اس بار بھی وہی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر آستھا کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ اب تو بعض سیکولر گوشوں سے مندر کی تعمیر کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سیکولر جماعتیں مندر کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے ہندو ووٹ سے محرومی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتیں۔ 2019 ء میں عام چناؤ سے قبل مندر کی تعمیر کا خطرہ برقرار رہے گا۔ تعمیری اشیاء ، پتھروں کو تراشنے کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ ہزاروں کارسیوکوں کو تعمیر کی تربیت دی جاچکی ہے۔ متنازعہ مقام پر عارضی مندر اور اس میں پوجا پاٹ جاری ہے اور سپریم کورٹ نے آج تک مسجد کے مقام پر عارضی مندر کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ برخلاف اس کے عارضی مندر کے استحکام کیلئے وقتاً فوقتاً عدلیہ سے اجازت حاصل کی گئی۔ انتخابات سے عین قبل عارضی مندر کو مستقل میں تبدیل کرنے کا کام شروع کرتے ہوئے بی جے پی ہندو ووٹ حاصل نہیں بلکہ لوٹنے کی کوشش کرے گی۔

مرکز کی جانب سے گورنر کے عہدہ کے سیاسی استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین معاملہ میں جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے اچانک اسمبلی کو تحلیل کرتے ہوئے مخلوط حکومت کی تشکیل کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ مرکز میں حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو لیکن یہ عام شکایت رہی کہ گورنرس کو سیاسی اغراض کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ریاست میں مخالف پارٹی کی حکومت ہو تو وہاں مسائل میں اضافہ کرنے کیلئے اپنے پسندیدہ گورنر کو مقرر کیا جاتا ہے ۔ کشمیر میں صورتحال بہتر بنانے کے نام پر حال ہی میں ستیہ پال ملک کو گورنر بنایا گیا ۔ پی ڈی پی ۔ بی جے پی اتحاد کی ناکامی کے بعد سے اسمبلی معرض التواء میں تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی بھی وقت دوبارہ حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مدد سے تشکیل حکومت کا دعویٰ کیا اور تینوں پارٹیوں کے پاس درکار اکثریت بھی موجود تھی لیکن گورنر نے ان کے دعوے کی سماعت کئے بغیر ہی اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ بی جے پی کو اب پی ڈی پی پاکستان کے اشارہ پر کام کرنے والی پارٹی دکھائی دے رہی ہے۔ کل تک جب حکومت میں ساتھ تھے ، پی ڈی پی قوم پرست تھی لیکن اچانک کشمیر کی پارٹیاں ملک دشمن دکھائی دینے لگیں۔ گورنر کا فیصلہ جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے کیونکہ جمہوریت کا تقاضہ تھا کہ جو بھی پارٹی تشکیل حکومت کا دعویٰ کرے ، اسے عددی طاقت کے مظاہرہ کا موقع دیا جائے لیکن ملک کی حساس اور سرحدی ریاست میں جمہوریت کا مذاق بناکر ملک کو بدنام کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنر نے اپنے فیصلہ کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے تینوں پارٹیوں کے اتحاد کو ’’ناپاک‘‘ قرار دیا۔ گورنر کی زبان سے اس طرح کے الفاظ زیب نہیں دیتے کیونکہ آپ خود نامزد گورنر ہیں ، عوامی منتخب نہیں۔ آپ کو عوام کے منتخب نمائندوں کو ناپاک کہنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گورنر کا تقرر ہی ناپاک تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی اور پی ڈی پی کا اتحاد مقدس تھا جو گورنر کی نظر میں دوسری جماعتوں کا اتحاد ناپاک دکھائی دینے لگا ہے۔ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد دراصل جمہوری اور حقیقی اتحاد تھا کیونکہ تینوں سیکولر پارٹیاں ہیں۔ جب تک پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ حکومت چلائی ریاست کے عوام ناراض رہے۔ وہ اس لئے کہ مفتی محمد سعید نے اپنی آخری سانس تک بی جے پی کا مقابلہ کیا تھا لیکن ان کی جانشین محبوبہ مفتی نے سیکولر جماعتوں کو چھوڑ کر بی جے پی سے اتحاد کیا۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ کشمیر میں اپنا ایجنڈہ نافذ کرے، اسے جب ناکامی ہوئی تو اس نے تائید سے دستبرداری اختیار کرلی۔ سیکولر جماعتوں کو حکومت تشکیل دینے سے روکنے کیلئے مرکز کے اشارہ پر اس قدر تیز کارروائی کی گئی کہ اسمبلی کے تحلیل کے فوری بعد الیکشن کمیشن نے مئی میں انتخابات کا اشارہ دیا۔ ملک کے جمہوری اداروں کو کب تک کمزور کیا جائے گا ؟ جموں و کشمیر میں قدم جمانے بی جے پی کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی جس کا بدلہ دیگر جماعتوں سے لیا جارہا ہے ۔ کشمیر کے عوام کسی بھی صورت میں بی جے پی کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے۔ تشکیل حکومت کیلئے اتحاد کو پاکستان سے جوڑنا انتہائی شرمناک ہے۔ اگر یہی رجحان رہا تو پھر بی جے پی کی مخالفت کرنے والی ہر پارٹی کو ملک دشمن اور موافق پاکستان کہا جائے گا ۔ ملک میں نفرت کی آگ بھڑکانے والی طاقتوں سے راحت اندوری نے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے ؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں تو صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے