لگی ہے پھر صدا اک بار کہ سردار بدلے گا

چوکیدار کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی… مسلم عہدیدار کی معطلی
الیکشن کمیشن … نریندر مودی پر کارروائی کیوں نہیں

رشیدالدین
الیکشن کمیشن آخرکار جاگ اٹھا اور اسے پتہ چلا کہ وہ الیکشن کمیشن گورنمنٹ آف انڈیا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا ہے ۔ ٹی این سیشن کے بعد الیکشن کمیشن حکومت ہند کے ماتحت ادارہ کی طرح کام کر رہا تھا لیکن ملک میں پہلے مرحلہ کے چناؤ کے بعد کمیشن نے حکومت اور عوام کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ یہ حکومت کا ماتحت ادارہ نہیں بلکہ ایک دستوری ادارہ ہے ۔ آزادانہ طور پر فرائض انجام دینا اس کے اختیارات میں شامل ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات اور فرائض کے بارے میں خواب غفلت کا شکار تھا ۔ دراصل دستوری اداروں میں حکومت کی مداخلت اور الیکشن کمشنرس کے تقررات میں سیاسی اثرات نے اختیارات کے باوجود کمیشن کو بے اثر کردیا۔ کمیشن کے اختیارات کا پہلی مرتبہ کسی نے استعمال کیا تو وہ ٹی این سیشن تھے ۔ ان کے دور میں سیاسی جماعتیں اور قائدین کمیشن سے خوفزدہ تھے ۔ انتخابی اصلاحات اور ضابطہ اخلاق کے نفاذ میں سیشن کے مشن کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں الیکشن کمشنر آف انڈیا ہوں نہ کہ گورنمنٹ آف انڈیا۔ ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ حکومت کو جواب دہ نہیں۔ کمیشن کی خاموشی کے نتیجہ میں گزشتہ چند برسوں میں انتخابات کا عمل ایک مذاق بن چکا ہے ۔ دولت اور طاقت کا استعمال عام ہوگیا اور انتخابی مہم کا معیار بھی گھٹ گیا۔ الیکشن کمیشن قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے مہم میں مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ مانگنا اور مخالف امیدواروں پر شخصی حملوں اور کردار کشی عام بات ہوچکی ہے ۔ پارٹیوں اور قائدین کے نزدیک الیکشن کمیشن کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ کارروائی کا خوف دلوں سے نکل گیا۔ ’’کمیشن کیا کرلے گا ، زیادہ سے زیادہ نوٹس دے گا یا وارننگ دے کر چھوڑ دے گا‘‘۔ اس طرح کا احساس عام ہوچکا ہے ۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد کمیشن نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کئی سرکردہ قائدین کے خلاف کارروائی کی۔ یوگی ادتیہ ناتھ ، مایاوتی اور اعظم خاں پر انتخابی مہم کے سلسلہ میں پابندی عائد کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے پابندی سے متعلق کمیشن کے احکامات کو کالعدم قرار دینے کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے موقف کو مزید مستحکم کیا ہے ۔ اگر دستوری ادارہ باہم تال میل کے ذریعہ کام کرے تو انتخابی عمل کو مذاق بننے سے روکا جاسکتا ہے ۔ جمہوریت میں انتخابات کو عید اور تہوار کا مقام دیا گیا ہے جس میں عوام اپنی پسند کی حکومت منتخب کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے فرائض کی تکمیل میں کوتاہی سے نہ صرف انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا بلکہ الیکشن کمیشن کا وقار مجروح ہوگا ۔ آزادانہ و منصفانہ چناؤ محض جملہ نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر سیاسی جماعتوں اور رائے دہندوں کے بڑھتے شبہات کو دور کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں کمیشن نے پہلی مرتبہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب قائدین کو انتخابی مہم سے روک دیا ۔ جن قائدین کے خلاف کارروائی کی گئی وہ سزا کے مستحق تھے۔ یوگی ادتیہ ناتھ ایک عرصہ سے بے لگام ہیں، انہیں چند دن کیلئے نہیں بلکہ پوری مہم سے دور رکھنا چاہئے تھا تاکہ اترپردیش میں امن اور بھائی چارہ برقرار رہے۔ فوج کو مودی کی سینا قرار دیتے ہوئے یوگی ادتیہ ناتھ نے ہندوستانی فوج کی بہادری اور قربانیوں کا سہرا مودی کے سر باندھنے کی کوشش کی تھی جس پر الیکشن کمیشن کو سرزنش کرنی پڑی۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے علاوہ دوسرے بی جے پی قائدین بھی من مانی بیانات دے رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی فائدہ کیلئے فوج کے استعمال پر امیدواروں کو متنبہ کیا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی انتخابی ریالیوں میں فوج کے نام پر ابھی بھی ووٹ مانگ رہے ہیں ۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب کسان انتخابی موضوع ہے تو پھر فوج انتخابی موضوع کیوں نہیں ہوسکتا ؟ ابتداء ہی سہی لیکن الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی پہل ضرور کی ہے، جس کے لئے وہ قابل مبارکباد ہے۔ صرف چند قائدین کے خلاف ایسی کارروائی پر اکتفا کئے بغیر غیر جانبداری سے ہر قصوروار کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ بھلے ہی وہ بڑے عہدہ پر کیوں نہ ہوں۔ تین پارٹیوں کے تین قائدین کے خلاف کارروائی کافی نہیں۔ اب جبکہ رائے دہی کے مزید پانچ مرحلے باقی ہیں ، کمیشن کو سخت موقف برقرار رکھنا ہوگا۔ اترپردیش ، بہار ، مہاراشٹرا اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں سخت چوکسی کی ضرورت ہے کیونکہ بی جے پی ان ریاستوں میں بہتر مظاہرہ کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ کمیشن نے ٹاملناڈو میں بھاری رقومات کی ضبطی پر ایک حلقہ میں رائے دہی کو ملتوی کردیا۔ کمیشن کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں امیدواروں کو مقابلہ سے نااہل قرار دینے کے اختیارات کا بھی استعمال کرنا چاہئے ۔ اپوزیشن کی مسلسل تنقیدوں کے بعد الیکشن کمیشن نے کچھ تو کیا لیکن یہ محض آئی واش اور اپنا دامن داغدار ہونے سے بچانے کی کوشش تک محدود نہ رہے ۔ آئندہ مرحلوں میں کمیشن کا حقیقی امتحان رہے گا۔

رائے دہی کے دونوں مرحلوں میں عوام کا حوصلہ افزاء ردعمل جمہوریت پر اٹوٹ ایقان کا اظہار کرتا ہے ۔ دونوں مراحل میں شدید گرمی کے باوجود عوام میں کافی جوش و خروش دیکھا گیا۔ رائے پور میں ایک دولہا اپنی بارات کے ساتھ پولنگ بوتھ پہنچ گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اپنے حق رائے دہی کے استعمال کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں۔ ہندوستان کا شمار دنیا کی بڑی جمہوریت میں ہوتا ہے اور آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے جہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات دنیا کیلئے مثال ہے۔ جن علاقوں میں مقابلہ سخت ہے، وہاں رائے دہی کا فیصد زیادہ رہا اور جہاں یکطرفہ مقابلہ ہے، رائے دہی کا فیصد کم دیکھا گیا۔ دونوں مراحل میں سیاسی مبصرین کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر ہیں کہ آخر دہلی کا راستہ کس پارٹی کے لئے آسان رہے گا ۔ حال ہی میں کانگریس تین ریاستوں میں برسر اقتدار آئی اور بی جے پی کو دھکا لگا۔ اس کے باوجود دہلی کا تخت حاصل کرنا کانگریس کے لئے آسان نہیں ۔ اسمبلی انتخابات میں عوام نے کانگریس کو بی جے پی کے متبادل کے طور پر قبول کرلیا ۔ کیا قومی سطح پر یہی رجحان برقرار رہے گا ، اس کا فیصلہ باقی پانچ مرحلوں میں رائے دہندے کریں گے۔ نریندر مودی کا جارحانہ انداز بی جے پی کے لئے امید کی کرن ہے ۔ وہ جذباتی مسائل کو چھیڑ کر عوام کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف راہول گاندھی نے حکومت کی ناکامیوں اور مختلف اسکامس کو انتخابی موضوع بنایا ہے۔ راہول گاندھی کی غربت کے خاتمہ سے متعلق اسکیم عوام میں کافی مقبول ہورہی ہے لیکن یہ اسکیم کس حد تک ووٹ میں تبدیل ہوگی کہا نہیں جاسکتا۔ ماہانہ 6000 روپئے کی امدادی اسکیم سے سنگھ پریوار بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ انتخابی مہم کا سب سے افسوسناک واقعہ گزشتہ دنوں اڈیشہ میں دیکھنے کو ملا جہاں وزیراعظم نریندر مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی پر ایک مسلم آئی اے ایس عہدیدار محمد محسن کو معطل کردیا گیا۔ محمد محسن جو کرناٹک کیڈر کے آئی اے ایس عہدیدار ہیں، وہ اڈیشہ میں الیکشن ڈیوٹی پر مبصر کی حیثیت سے تعینات ہیں، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی لیکر ایس پی جی سیکوریٹی کے حامل شخصیتوں سے متعلق حدود کو پھلانگنے کی کوشش کی ہے ۔ ضلع کلکٹر کی رپورٹ پر الیکشن کمیشن نے محمد محسن کو فوری معطل کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی مبصر کو کیا اس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ وہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کو یقینی بنائے ۔ کیا ملک کے وزیراعظم قانون سے بالاتر ہیں؟ کیا ان پر انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ نہیں ہوتا ؟ اگر مان لیا جائے کہ نریندر مودی کے ہیلی کاپٹر میں رقومات منتقل کی جارہی تھیں تو پھر اسے روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔ چند دن قبل کرناٹک کے دورہ کے موقع پر وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر سے ایک بڑا مشتبہ باکس اتارا گیا جس کی ویڈیو سوشیل میڈیا میں وائرل ہوگئی۔ آج تک وزیراعظم کے دفتر اور الیکشن کمیشن نے وضاحت نہیں کی کہ آخر اس باکس میں کیا تھا ؟ اپوزیشن کا الزام ہے کہ محفوظ طریقہ سے رقم منتقل کرنے بی جے پی وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کا سہارا لے رہی ہے ۔ آئی اے ایس عہدیدار محمد محسن نے اسی نظریہ کے تحت تلاشی لی ہوگی کہ کہیں عدم تلاشی کی صورت میں ان پر بی جے پی کی تائید کا الزام نہ لگ جائے ۔ خود کو ملک کا چوکیدار قرار دینے والے نریندر مودی ہیلی کاپٹر میں گھوم کر عوام کی غربت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ واہ رے چوکیدار۔ ملک کا ہر غریب ایسا چوکیدار بننا چاہے گا جو ہیلی کاپٹر میں گھومے۔ آئی اے ایس عہدیدار کی کارروائی کے نتیجہ میں مودی کو روانگی میں 15 منٹ کی تاخیر ہوئی جو برداشت نہیں کی گئی۔ اگر مسلمان عہدیدار کی جگہ اعلیٰ طبقہ کا کوئی عہدیدار ہوتا تو کیا اس کے خلاف بھی اس طرح کی کارروائی کی جاتی؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں آئے گا کیونکہ جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے، اعلیٰ طبقات کے عہدیداروں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے۔ خود کو چوکیدار اور عوام کا خدمت گزار کہنے والے ذرا سی تاخیر کو توہین تصور کر رہے ہیں جبکہ آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں اس وقت کی آئی پی ایس عہدیدار کرن بیدی نے ان کی کار کی تلاشی لی تھی لیکن ان کے خلاف کارروائی کے بجائے انہیں ترقی دی گئی۔ فرض شناسی کے ساتھ خدمات انجام دینے کا ایک مسلم عہدیدار کو اچھا صلہ دیا گیا ہے ۔ اڈیشہ میں 15 منٹ تاخیر برداشت نہ کرنے والے نریندر مودی کو گجرات میں طوفان بادو باراں کے سبب اپنے انتخابی جلسوں کو منسوخ کرنا پڑا۔ نریندر مودی اس آفت سماوی پر کس کے خلاف کارروائی کریں گے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چوکیدار ہیلی کاپٹر میں آخر کیا چھپانا چاہتے تھے ؟ انتخابی صورتحال پر کسی شاعر نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
لگی ہے پھر صدا اک بار کہ سردار بدلے گا
فرعونی سلطنت کا فقط اک کردار بدلے گا