لڑکیوں کی شادیاں ایک مسئلہ مسلم معاشرہ کہاںجارہا ہے ؟

محمدمصطفے علی سروری
28 ستمبر جمعہ کا دن تھا لیکن جمعہ کی رات دیر گئے جب اترپردیش کے شہر لکھنو کے مقدم پورہ پولیس اسٹیشن کے حدود میں انکاؤنٹر کا جو واقعہ پیش آیا اُس وقت موبائیل فون کے اسکرین پر جمعہ کا دن ہفتہ سے بدل گیا تھا اور تاریخ 28 کی جگہ 29 ستمبر ہوچکی تھی ۔ خبررساں ادارہ انڈیا ٹو ڈے کے مطابق ویویک تیواری نام کے شخص کو لکھنو کے گومتی نگر علاقہ میں پولیس نے اس وقت گولی ماری جب مبینہ طور پر تیواری نے پولیس کے کہنے پر بھی اپنی گاڑی نہیں روکی ۔ ملک بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانل نے اترپردیش پولیس کی جانب سے ویویک تیواری پر گولی چلائے جانے اور اس انکاؤنٹر میں ویویک کے مارے جانے کی خبر شائع اور نشر کی ۔ ان سبھی خبروں اور اس کے بعد اس انکاؤنٹر کی فالو اپ خبروں میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیںاس کے مطابق رات دیڑھ بجے جب ویویک تیواری پر پولیس کے جوانوں نے گولی چلائی تو اس وقت تیواری کے ساتھ ایک لڑکی بھی گاڑی میں موجود تھی جس کا نام ثناء خان بتایا گیا ہے ۔ رات دیڑھ بجے ثنا خان ویویک تیواری کے ساتھ کہاں جارہی تھی اس کے متعلق میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ثنا خان ویویک کے ساتھ ہی کام کرتی تھی اور اس رات بھی ویویک ثنا خان کو اپنی گاڑی میں اس کے گھر واپس چھوڑنے جارہا تھا ۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی 4اکٹوبر کی رپورٹ کے مطابق ثنا خان ویویک تیواری کے ساتھ پہلے کام کرتی تھی اب نہیں ‘ ویویک تیواری کی عمر 38 برس بتائی گئی اور وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا ۔
ویویک تیواری کی پولیس فائرنگ میں موت پر میڈیا ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوںنے بھی آواز اٹھائی لیکن ثنا خان کے متعلق ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر مسلم لڑکی کو کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ؟ وہ کونسی مجبوریاں ہیں کہ آدھی رات کے بعد ان لوگوں کو گھر سے باہر جاکر کام کرنا پڑرہا ہے اور پھر اس طرح کے ناگہانی حالات کا سامنا کہ پولیس فورس کے خلاف عدالت میں جاکر بیان ریکارڈ کروانا ۔ میڈیا میں تو پولیس کے حوالے سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے جس میں ویویک تیواری کی بیوہ نے کہاکہ ’’ اگر ویویک تیواری ایک لڑکی کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں تھے تب بھی پولیس ان کو گولی مارنے کے بجائے آر ٹی او سے ان کا پتہ اٹھاتے اور گھر سے آکر گرفتار کرتی ۔ ( بحوالہ ANI) یہ کوئی پہلی خبر یا پہلا واقعہ نہیں ہے جب ایک مسلم لڑکی کا نام خبروں میں آیا کہ وہ ایک غیرمسلم کے ساتھ تھی ۔
ریاست بہار کے ضلع نواڈاسے ایک خبر 5 اکٹوبر کو خبررساں ادارے ANI نے جاری کی ۔ خبر کے مطابق ایک 18سالہ مسلم لڑکی کو درخت سے باندھ کرمارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس لڑکی پر الزام تھا کہ یہ لڑکی اپنے ایک ہندو بوائے فرینڈ کے ساتھ گاؤں سے بھاگ گئی تھی ۔ خبر کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ 18سالہ مسلم لڑکی کو پڑوسی گاؤں کے ہندو لڑکے اوپیش کمار سے پیار ہوگیا تھا ۔30ستمبر کو مسلم لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر اوپیش کے ہاں چلی جاتی ہے لڑکی کے گھر والے ڈھونڈ کر بالآخر اس کو واپس گاؤں لیکر آتے ہیں اور گاؤں میں پنچایت کرتے ہیں ۔ پنچایت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مسلم لڑکی کو سزا دی جانی چاہیئے اور یہ سزا کوئی اور نہیں خود اس کے گھر والوں کو دینا ہوگا کیونکہ لڑکی نے گاؤں والوں کو بدنام کیا ہے ۔
مسلم لڑکیاں بڑی تیزی کے ساتھ غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ قربت اختیار کرتی جارہی ہیں اور یہ کوئی خام خیالی کی بات نہیں اور نہ ہی کسی جماعت کی دین اسلام کی تبلیغ کے لئے گھڑی جانے والی کہانی ہے ۔
2 اکٹوبر کو اخبار انڈین ایکسپریس نے دہلی سے خبر شائع کی ‘ خبر کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ 31برس کے انکت ساگر کو جو دہلی کے ایک ٹیوشن سنٹر میں ٹیچرتھا ‘ پیر یکم اکٹوبر کو نامعلوم بندوق بردار نے گولی مار کر ہلاک کردیا ۔ انکت کو اس کے ٹیوشن سنٹر میںمارنے کے بعد انکت کی بہن آرتی نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اس کا بھائی گذشتہ کئی برسوں سے ایک مسلم لڑکی کے ساتھ دوستی بنارکھاتھا ‘ پچھلی مرتبہ دیوالی کے موقع پر انکت کے گھر والوں نے مسلم لڑکی کے گھر والوں سے بات کی ‘ لڑکی کے والدین توشادی کیلئے تیار تھے لیکن لڑکی کا بھائی اپنی مسلم بہن کی ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کا سخت مخالف تھا ۔ آرتی کو خدشہ تھا کہ انکت کو مار ڈالنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس مسلم لڑکی کا بھائی ہے ۔ کیا انکت کو واقعی اس کی مسلم گرل فرینڈ کے بھائی نے ہی مارا تھا؟ دہلی پولیس نے 8 اکٹوبر کو انکت کے قتل کا معمہ حل کرلینے کاد عویٰ کیا وہیں پولیس کے حوالے سے The Print نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ انکت کو اس کی مسلم گرل فرینڈ کے بھائی نے نہیں بلکہ اس کے ٹیوشن سنٹر کے ایک سابق طالب علم نے مار ڈالا ۔ کیشب نام کے مبینہ قاتل کو انکت سے اس لئے دشمنی ہوگئی تھی کہ انکت اس کی گرل فرینڈ سے دوستی بڑھارہا تھا ۔
قارئین کرام مندرجہ بالا تینوں واقعات کا میڈیا میں بڑے پیمانے پر کووریج بھی ہوا یہ تو صرف وہ واقعات ہیں جو گذشتہ دو سے تین ہفتوں کے دوران میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں ۔ پرانے اخبارات کی فائیل اٹھاکر دیکھ لیجئے کہیں نہ کہیں ایسی خبریں ہر دوسرے اخبار میں مل ہی جائے گی کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے جال میں پھنستی جارہی ہیں ۔ یہ ہندو مسلم شادیاں اگر ہوتی ہیںتو دو خاندان ہی نہیں بلکہ دو فرقوں اور دو مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت اور عداوت بڑھانے کا سبب بن رہی ہیں ۔ اُن مسلمان حضرات کا اس طرح کے واقعات پر کس طرح کا ردعمل ہونا چاہیئے جن کا ان واقعات سے کسی طرح کا راست لین دین اور تعلق نہیں ہو ؟ ایک بڑا ہی آسان کام ہے ‘ ہمارے لئے ہم اپنی زبانوں کو حرکت دیں اور فتویٰ صادر کردیں کہ ان لڑکیوں کے والدین اور سرپرست ہی اصل میں اس صورتحال کیلئے ذمہ دار ہیں جو اپنی اولاد کو تربیت نہیں دے سکے اور اپنی اولاد کو اپنے ہی مذہب سے بغاوت کرنے سے نہیں روک سکے ۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے جس کے سبب مسلم لڑکیوں کے لئے ہندو یا غیر مسلم لڑکوں کا ہاتھ پکڑنا آسان ہوگیا ہے ۔ انگریزی کے اخبار ’’ دی ہندو ‘‘ نے 8 اکٹوبر کو ہیمانی بندو کی ایک رپورٹ شائع کی ۔ اس رپورٹ میں دہلی کے ٹیوشن ٹیچر انکت کے قتل کے بعداس کی مسلم گرل فرینڈ اور اس کے بھائی سے لیا گیا انٹرویو شامل ہے ۔ قارئین ہمیںان لوگوں کی بات چیت پڑھنے کے بعد مسئلہ کا اہم سبب جاننے میں مدد ملتی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق یکم اکٹوبر کی صبح جب انکت کو اس کے ٹیوشن سنٹر میں گولی ماری گئی اس کے بعد انکت کی بہن آرتی نے انکت کو مارنے میں اس کی مسلم گرل فرینڈ کے بھائی پر شک کیا تھا ‘ یکم اکٹوبر کو ہی پولیس نے انکت کی مسلم گرل فرینڈ ‘ اس کے بھائی اور سبھی گھر والوں کو پولیس اسٹیشن لیکر چلی جاتی ہے ‘ اگلے دن اس مسلم لڑکی کے گھر والوں کو تو پولیس اسٹیشن سے جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن لڑکی کے بھائی کوا گلے پانچ دنوں تک پولیس حوالات میں رکھا گیا ‘اس کو بھی اس وقت پولیس سے رہائی ملی جب انکت کا اصلی قاتل پکڑا گیا لیکن ان پانچ دنوں کے دوران اس مسلم لڑکی کے بھائی کی تصویر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلس پر مشتبہ قاتل کے طور پر بتائی جاتی رہی ‘ پورے محلہ میں لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردی ۔ پڑوسیوں نے کہا کہ لڑکی کی اگر شادی کردیتے تو یہ بدنامی نہیں ہوتی تھی کہ وہ ہندو لڑکے سے تعلق رکھے ہوئے ہیں ۔
لڑکی کے بھائی نے دی ہندو اخبار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں واقعی میری بہن کی شادی ہوجاتی تو یہ سب نہیں ہوتا ‘ مجھے اپنی بہن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ انکت سے شادی کرنا چاہتی ہے تو میں نے واضح کردیا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ مسلم لڑکی کے گھر والے اخبار کی رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ برسوں سے اپنی لڑکی کیلئے مناسب لڑکا ڈھونڈ رہے تھے لیکن اس مسلم لڑکی کیلئے کوئی رشتہ نہیں ملا ۔ قارئین کیا آپ جانتے ہیں اس مسلم لڑکی کی عمر کیا ہوگی ۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس لڑکی کی عمر 31برس ہے اور وہ خود اعتراف کرتی ہے کہ پچھلے آٹھ برسوں سے اس کے انکت کے ساتھ تعلقات تھے وہ کہتی ہے کہ اس کو ہرگز یہ نہیں معلوم تھا کہ انکت ایک دوسری لڑکی کے ساتھ تعلقات بنا کر اس کو دھوکہ دے رہا ہے ۔ اس کے مطابق انکت کے والد کو اپنے والد کی طرح مانتی ہے اور گذشتہ کچھ برسوں سے وہ انکت کے والد کا اچھا خیال بھی رکھ رہی تھی ۔
قارئین افسوس کہ دہلی کی اس مسلم لڑکی کونہ تو انکت ہی ملا اورنہ کچھ ‘ ہاں پورے خاندان بھر کی بدنامی الگ سے ہاتھ آگئی ۔ اب آیئے ذرا اس مسلم لڑکی کے حالات کے ذریعہ سے اس مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسلم لڑکیوں کی شادیاں کس قدر سنگین مسئلہ بن گئی ہے ۔ اندازہ لگایئے لڑکیاں 30 برس سے زائد عمر کو پہنچ رہی ہیں لیکن ان کے لئے مناسب لڑکوں کے رشتے نہیں مل رہے ہیں ۔ اس بات کو خاص طور پر سمجھ لیجئے کہ یہ چند مسلمانوں کا انفرادی مسئلہ ہرگز نہیں ہے ‘ اُمت مسلمہ جسم واحد کی طرح ہے اور میں اپنے آپ کو مسلمان مانتا ہوں تو مجھے دہلی کی لڑکی ‘ لکھنو کی لڑکی ‘ بہار کی لڑکی ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے درد پر بے چینی محسوس ہونی چاہیئے ۔ مجھے مسئلہ کو سنگین جان کر فتویٰ نہیں دینا ہے بلکہ اس مسئلہ کے تدارک کیلئے دعا کے علاوہ اگلے درجہ میں جاکر عملی اقدامات بھی کرنے ہوں گے ۔ فتویٰ کی بات پر یاد آیا کہ ٹاملناڈو کے تھروایارو علاقہ میں یاسمین نام کی ایک مسلمان لڑکی نے کارتکیان نام کے ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرلی ۔ ہندو مسلم جوڑے کی اس شادی کے بعد ٹاملناڈو کی ایک مسلم تنظیم نے لڑکی کے والد کو خط لکھا اور کہا کہ آپ کی لڑکی نے غیر مسلم لڑکے سے جو شادی کی ہے وہ شادی نہیں بلکہ فحاشی ہے ۔ خبررساں ادارے انڈیا بلوم نیوز سرویس نے اس خبر کے ساتھ مسلم تنظیم کی جانب سے تحریر کردہ خط اور ہندو مسلم جوڑے کی ایک تصویر بھی شائع کی ہے ۔ کیا اس طرح کا طرز عمل درست ہے ؟۔
ہاں یہ ضروری ہے کہ اس طرح کی شادی کرنے والی مسلم لڑکیوں کی کونسلنگ ہونی چاہیئے لیکن ساتھ ہی مسلم سماج میں اندرون سماج شادیوں کو بھی نہایت سہل اور آسان بنایا جانا چاہیئے ۔ کیا تقاریر کے ذریعہ سے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے ‘ کیا اخباری بیانات ‘ سمینار اور سمپوزیم سے یہ مقصد پورا ہوگا ۔ سونچئے گا ‘ غور کیجئے گا ‘ اپنے حصہ کی شمع ضرور جلایئے گا ۔د وسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے ہر ایسی شادی کی تشہیر کی جانی ضروری ہے جو سنت رسولؐ کے مطابق ہو ‘ آسان ہو ‘ کیا صرف کم خرچ میں ہونے والی شادی اور مسجد میں ہونے والی شادی ہی سنت رسولؐ کی پیروی ہے ؟
جی نہیں شادی کیلئے ( نکاح کیلئے ) رشتہ طئے کرتے وقت ان معیارات کو اپنانا سنت ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اُمت مسلمہ کو بتلا دی تھی کہ جب تم نکاح کرو تو ایسے جوڑوں کا انتخاب کرو ‘ لڑکوں کی صفات بھی اور لڑکیوں کی خصوصیات بھی پوری طرح واضح کردی گئی تھی ۔ کیا مسلم سماج میں ان سنتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ سوچئے اور اپنی زندگیوں کا جائزہ لیجئے گا ‘اپنے اطراف و اکناف اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیجئے گا اور سب سے اہم بات اپنے بچوں کی تربیت کا سامان کیجئے ۔
شادیاں جب رنگ اور نسل کے علاوہ مال ‘دولت کی بنیادوں پر طئے پانے لگیں تو جن لڑکیوں کا رنگ کم ہو اور جن کے پاس مال و دولت نہیں تو وہ کیا کریں ۔ لڑکیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی چکر میں دین کی تعلیم تو ہم نے دی نہیں ‘ اب ایسی لڑکیاں شادی کیلئے اوروں کے ہاں جائیں تو کون ذمہ دار ہے ‘ سوال تو سماج کے ہر فرد سے ملت کے ہر مسلمان سے ہوگا ؟ ذرا سونچیئے گا اور ان سوالات کے جوابات ڈھونڈیئے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس کام میں ہم سب کی مدد فرمائے ۔ ( آمین )
sarwari829@yahoo.com