لو آج ہم بھی صاحبِ ویب سائٹ ہوگئے

میرا کالم                      مجتبیٰ حسین
بڑھاپا اپنے شباب پر ہے ۔ ہر طرف صرف ماضی ہی ماضی پھیلا ہوا نظر آنے لگا ہے اور مستقبل تو اتنا سُکڑ گیا ہے کہ اس کا دکھائی دینا بھی بند ہوگیا ہے ۔ اب جب کہ عمر کی نقدی ختم ہونے والی ہے اور میں ڈیلی ویج پر زندہ رہنے لگا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اب مجھ میں مزید بوڑھا ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ اور گنجائش ہے بھی تو مجھ میں جینے کی خواہش کا فقدان نظر آتا ہے ۔ قویٰ مضمحل ہوچکے ہیں اور عناصر میں اعتدال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ یہی قانون قدرت ہے اور صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے ۔ اب میں نے ادبی محفلوں میں جانا بھی چھوڑ دیا ہے بلکہ لکھنا تک چھوڑدیا ہے ۔ گوشہ نشینی کی زندگی گذار رہا ہوں ۔

ایسے میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ نے جب میرے بارے میں ایک ویب سائٹ بنانے کا فیصلہ کیا تو میرا ماضی اچانک روشن نظر آنے لگا کیونکہ میرا یہ ماضی اب ہمیشہ کے لئے ایک دستاویز کی شکل میں آنے والے مستقبل میں محفوظ ہوجائے گا ۔ چار برس پہلے کی بات ہے میرے مدّاح اور مشفق ظہیر الدین علی خان ، منیجنگ ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ نے ایک دن یونہی مجھ سے پوچھ لیا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی آپ کے پروگرام ہوئے ہیں کیا اُن کے ویڈیو کیسٹ آپ کے پاس محفوظ ہیں ؟ ۔ میں نے کہا میں لاپرواہ اور غیر منظم آدمی ہوں ، کیسٹ تو ہونگے ضرور مگر اُنھیں ڈھونڈنا پڑے گا ۔ یوں ظہیر الدین علی خان نے اپنے پیہم اصرار کے ذریعہ پچھلے چار برسوں سے مجھے ایک ایسے کام پر لگادیا جس کے انجام دینے میں میرے عزیز دوست محمد تقی ، ریٹائرڈ ڈیویژنل انجینئر (ٹیلی فون) نے میرا بہت ہاتھ بٹایا ۔ ورنہ یہ میرے بس کا روگ نہ تھا ۔ بہرحال دو سال کی تلاش و جستجو کے بعد ظہیر الدین علی خان نے پہلے تو میرے سارے ویڈیو کیسٹ کو ، جو بھی دستیاب ہوسکے ، اپنے ہاں ویڈیو سسٹم پر محفوظ کروالیا ۔ پھر کہا اب آپ اپنی ساری مطبوعہ کتابوں کے C.D. اپنے پبلیشروں سے حاصل کرلیجئے ۔ یہ بھی ایک جان لیوا کام تھا ۔ میں نے دست بستہ عرض کی ’’ظہیر میاں! آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘ بولے ’’آپ ایک بے نیاز آدمی ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اب تک آپ کی جتنی بھی تصانیف چھپی ہیں وہ ایک ویب سائٹ کی شکل میں محفوظ ہوجائیں‘‘ ۔ بالآخر میں نے مزید دو سال کی جستجو کے بعد اپنے پبلیشروں سے ان کتابوں کی C.D. حاصل کیں ۔ یہ کام مکمل ہوا تو ظہیر الدین علی خان کا اصرار بڑھا کہ اب میں اپنی وہ تصاویر بھی جمع کروں جو مختلف موقعوں پر لی گئی تھیں ۔ یہ کام بھی میرے دوستوں محمد تقی اور سید امتیاز الدین کے تعاون سے پورا کرلیا گیا ۔ آج بالآخر وہ مرحلہ بھی آگیا جب اس ویب سائٹ کا اجراء عمل میں آرہا ہے ۔
حضرات! روزنامہ ’’سیاست‘‘ سے میرا رشتہ کچھ ایسا ہی ہے جو گوشت اور ناخن کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اپنے ماضی کو کھنگالتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ سڑسٹھ برس پہلے میں علی گڑھ میٹرک کے امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں اپنے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے ساتھ اُن کے حیدر گوڑہ والے مکان میں رہا کرتا تھا ۔ اُن دنوں عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر دونوں ہی اپنی سرکاری ملازمتوں سے سبکدوش ہو کر روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے اجرا کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ چنانچہ 15 اگست 1949 ء کو ’’سیاست‘‘ کا پہلا شمارہ لے کر جب محبوب حسین جگر صبح کی اولین ساعتوں میں گھر آئے

اور کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے بستر پر لیٹ گئے تو میں نے اتنی دیر میں ’’سیاست‘‘ کے پہلے شمارہ کی پہلی کاپی کا مطالعہ کرلیا ۔ گویا اس اعتبار سے مجھے روزنامہ سیاست کا اولین قاری ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرکے میں 1953 میں گلبرگہ سے پھر حیدرآباد آیا تو سیاست نے اپنی زندگی کے چار سال مکمل کرلئے تھے ۔ بی ۔ اے کی تعلیم کے دوران ہی میں شام کے وقت سیاست کے کئی چھوٹے موٹے کام جیسے پروف ریڈنگ اور ترجمہ وغیرہ کرنے لگ گیا تھا ۔ تاہم 1956ء میں ،میں باضابطہ طور پر بحیثیت سب ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ سے وابستہ ہوگیا ۔ مجھے بطور صحافی کام کرتے ہوئے چھ برس بیت گئے تو اچانک میری زندگی میں ایک نیا موڑ آیا ۔ جولائی 1962 کے آخری ہفتہ کی کوئی تاریخ تھی ۔ میں ’’سیاست‘‘ میں نائٹ ایڈیٹر کی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا کہ رات میں دس بجے کے قریب سیاست کے مزاحیہ کالم ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کے نامی گرامی کالم نگار شاہد صدیقی دفتر پر آئے  ۔ وہ غالباً معظم جاہ کے دربار سے ہو کر آئے تھے ۔ آتے ہی میرے ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئے اور بولے ’’میرے لئے چائے منگوادو‘‘ میں نے فوراً چائے منگوائی اور اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔ میں نے دیکھا کہ شاہد صدیقی نے اپنی جیب سے دوا کی دو گولیاں نکالیں اور اُنھیں میز پر رکھ کر چائے کا انتظار کرنے لگے ۔ اتنے میں چائے آئی تو میں نے اُن کی طبیعت کا حال پوچھ لیا ، بولے ’’کچھ نہیں ۔ سب ٹھیک ہے‘‘ ۔ پھر اس کے بعد اپنے معمول کے رکشہ راں کے رکشہ میں بیٹھ کر اپنے گھر روانہ ہوگئے ۔ اُنھیں گئے ہوئے بمشکل ایک گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ اُن کے برادر نسبتی وزیر حسین فاروقی کا فون آیا کہ شاہد صدیقی کا انتقال ہوگیا ۔ اور یہ کہ گھر آتے ہوئے راستہ میں ہی ان کی موت واقع ہوگئی ۔ آخری صفحہ کے نائٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے میں نے ہی ان کے انتقال کی خبر تیار کی ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شاہد صدیقی کے انتقال کی خبر چھاپنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے اندر ایک مزاح نگار کے پیدا ہونے کی خبر بھی چھاپ رہا ہوں ۔

شاہد صدیقی جیسے جیّد اور منجھے ہوئے مزاحیہ کالم نگار کے انتقال کے بعد اخبار کے انتظامیہ کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اب یہ مزاحیہ کالم کون لکھے ۔ چنانچہ انتظامیہ نے حیدرآباد کے بعض ادیبوں اور صحافیوں سے یہ کالم لکھوانے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی ۔ عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کے ایک گہرے دوست ہوا کرتے تھے احمد رضا قادری جن سے اورینٹ ہوٹل میں میری بھی ملاقاتیں ہوجایا کرتی تھیں ۔ ایک دن محبوب حسین جگر نے احمد رضا قادری سے مشورہ کیا کہ اس کالم کے لئے کونسا ادیب یا صحافی موزوں ہوسکتا ہے جس کی تحریر میں شوخی اور شگفتگی بھی موجود ہو ۔ اس پر احمد رضا قادری نے کہا ’’تم اپنے بھائی مجتبیٰ حسین کو اس کام کے لئے کیوں نہیں آزماتے ۔ میں نے دیکھا کہ اورینٹ ہوٹل کی جس میز پر بھی وہ بیٹھتا ہے وہاں لوگوں کو ہنسا ہنسا کے بے حال کردیتا ہے‘‘ ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن جب میں حسب معمول سیاست کے دفتر اپنی ڈیوٹی پر پہنچا تو محبوب حسین جگر نے مجھے حکم دیا کہ میں دوسرے دن کا مزاحیہ کالم لکھوں ۔ میرے لئے یہ ایک آزمائش کا مرحلہ تھا کیونکہ میں نے اس سے پہلے کبھی مزاح نہیں لکھا تھا ۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں محبوب حسین جگر کے منہ سے نکلی ہوئی بات حکم کا درجہ رکھتی تھی اور کوئی کارکن عدول حکمی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا ۔ لہذا میں نے اُن کے حکم کی تعمیل میں 12 اگست 1962ء کو دن میں ٹھیک ساڑھے دس بجے اپنی مزاح نگاری کا آغاز کیا ۔ ابتدائی دنوں میں میرا کالم جگر صاحب کی سخت تنسیخ ، تبدیلی اور ترمیم سے گذرتا تھا ۔ بسا اوقات ڈانٹ بھی پڑجاتی تھی ۔ میں چونکہ ’’کوہ پیما‘‘ کے فرضی نام سے کالم لکھتا تھا ۔ لہذا قارئین کو پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ یہ کالم کون لکھ رہا ہے ۔ کچھ دنوں بعد لوگوں نے بصد اشتیاق جاننا شروع کیا کہ اصلی کالم نگار کون ہے ۔ رفتہ رفتہ یہ کالم مقبول ہوتا چلا گیا اور یوں میری ہمت افزائی بھی ہونے لگی ۔ مجھے کالم نگاری شروع کئے ہوئے ابھی چھ مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی کسی خانگی کام کے سلسلہ میں ایک ہفتہ کے قیام کے لئے لکھنؤ سے حیدرآباد آگئے ۔ حیدرآباد سے واپس جانے کے بعد مولانا نے اپنے رسالہ ’’صدق جدید‘‘ میں اپنے سفر حیدرآباد کا حال لکھا ۔ ایک جگہ انھوں نے حیدرآباد کے اخبارات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ’’سیاست‘‘ کے تعلق سے لکھا کہ یہ ایک سنجیدہ اور سلجھا ہوا اخبار ہے اور اس اخبار کی ایک خصوصیت اس کا مزاحیہ کالم بھی ہے جو خوشگوار ہونے کے ساتھ ساتھ شائستہ اور مہذب بھی ہوتا ہے ورنہ اکثر لکھنے والے پھکڑپن اور شائستگی کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی جیسے جیّد عالم کی یہ رائے مجھ جیسے نوآموز کے لئے ایک سند کا درجہ رکھتی تھی ۔ اس کے بعد میں نے مزاح نگاری کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور آج تریپن (53) برس بعد میری واحد شناخت صرف مزاح نگاری ہی رہ گئی ہے ۔ میں نے اپنی مزاح نگاری کو صرف کالم نگاری تک محدود نہیں رکھا ۔ جہاں ہزاروں کالم لکھے وہیں شخصیتوںکے سینکڑوں خاکے لکھے ۔ کئی سفرنامے لکھے ،ان گنت انشایئے لکھے ، رپورتاژ نگاری بھی کی ۔ گویا ہر صنف ادب میں مزاح کا تڑکا بھی لگایا ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے گہری مسرت ہوتی ہے کہ میں نے جب بھی کوئی نئی تحریر لکھی تو وہ سب سے پہلے ’’سیاست‘‘ ہی میں شائع ہوئی ۔ مجھے یاد ہے کہ بہت عرصہ پہلے میرے ایک دوست نے کہا تھا ’’میاں ! تم ایک زوال آمادہ زبان میں دن بہ دن ترقی کرتے چلے جارہے ہو ۔ اردو مررہی ہے اور تم اردو ادب میں زندہ ہوتے جارہے ہو‘‘ ۔ میرے دوست کا یہ تبصرہ چاہے کچھ بھی ہو مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اسی زوال آمادہ زبان کی وجہ سے ہوں ۔ اسی غریب زبان کے حوالہ سے میں نے ہوائی جہازوں میں ملکوں ملکوں کی سیر کی اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کیا۔ مجھے اس بات کا بھی فخر ہے کہ اسی ستم رسیدہ زبان کے حوالہ سے میری تحریریں کئی زبانوں میں شائع ہوئیں اور اسی زبان کے وسیلہ سے مجھے دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے بے شمار مدّاح اور بہی خواہ بھی میسر آئے ۔

میں اس موقع پر ویب سائٹ کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں موجودہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی کے عروج کا دور ہے ، آپ اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے دنیا کے کسی بھی گھر میں (جہاں کمپیوٹر ہو) داخل ہو کر اس گھر میں رہنے والوں کے سکون کو درہم برہم کرسکتے ہیں ۔ اچھی بُری ضروری اور غیر ضروری ساری معلومات کو ویب سائٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلایا جاسکتا ہے ۔ لیکن ویب سائٹ کا اردو کلچر اور خاص طور پر اردو شاعری سے بظاہر کوئی تعلق پیدا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شعر خوانی اُسی وقت بھلی معلوم ہوتی ہے جب خود شاعر کو یہ پتہ چلے کہ سننے والے پر اس کے کلام کا کیا اثر ہورہا ہے ۔ شاعر کو اس وقت تک سکون قلب حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ سننے والا اس کے کلام پر سبحان اللہ ، ماشاء اللہ اور جزاک اللہ ، بہت خوب بلکہ مکرر ارشاد کی تحسین آمیز صدائیں بلند نہ کرے ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس تحسین کے جواب میں شاعر دوہرا ہو ہو کر سلام عرض کرتا چلا جائے اور سامعین کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر مزید داد کا طلبگار ہو ۔ افسوس کہ ویب سائٹ پر یہ سارا ڈرامہ نہیں ہوسکتا ۔ نہ داد دی جاسکتی ہے اور نہ ہی ہوٹنگ کی جاسکتی ہے ۔ ویب سائٹ پر کسی شاعر کا کلام پڑھنے والا اپنی داد کے ذریعہ ویب سائٹ کے اندر یا باہر کوئی سماں نہیں باندھ سکتا ۔ ویب سائٹ پر کسی کے کلام سے لطف اندوز ہونا ایسا ہی ہے جیسے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ۔ یہاں تالی دو ہاتھ سے نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے بجتی ہے ۔
حضرات! ایک زمانہ تھا جب انسان کے جسم میں ہاتھ کی بڑی اہمیت  ہوا کرتی تھی ۔ سردار جعفری نے کہا تھا ان ہاتھوں کی تعظیم کرو ان ہاتھوں کی تکریم کرو ۔ مگر ٹکنالوجی کے اس دور میں ہاتھ کی نہیں بلکہ صرف ایک اُنگلی کی اہمیت رہ گئی ہے ۔ کمپیوٹر پر ایک اُنگلی سے بٹن دباتے چلے جایئے اور دنیا بھر کا حال معلوم کرلیجئے ۔ گویا سالم ہاتھ کی حیثیت اب صرف انگشت ششم کی سی ہو کر رہ گئی ہے ۔ وہ دن گذر گئے جب انگلی کو بُری چیز سمجھا جاتا تھا اور اس کے حوالہ سے انگشت نمائی کرنا ، انگلی اٹھانا ، انگلی رکھ دینا ، انگلی پر نچانا ، جیسے محاورے سماج میں رائج تھے مگر آج کے ترقی یافتہ انسان کے جسم میں اُسے ایک انگلی میسر آجائے تو سمجھئے کہ دنیا اُس کی مٹھی میں آگئی ہے۔

میں آخر میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور اس کے مدیر زاہد علی خاں صاحب کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھ جیسے گوشہ نشین کے بارے میں ایک مبسوط ویب سائٹ کو تیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مجھے اس بات کا اطمینان ضرور ہے کہ میرا شخصی حافظہ جو اب تک صرف میری ذات کا حصہ تھا اب اس ویب سائٹ کے وسیلہ سے پھیل کر سارے اردو سماج کے ’’اجتماعی حافظہ‘‘ کا حصّہ بن جائے گا ۔ یوں مجھے اب اپنا ماضی تاریک نہیں بلکہ روشن نظر آنے لگا ہے ۔
برادر عزیز عابد صدیقی کا بھی ممنون ہوں کہ یہ تقریب اُن ہی کے بے حد اصرار اور کوششوں کے نتیجہ میں منعقد ہورہی ہے ورنہ اب میں نے ادبی جلسوں سے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہے ۔ میں نے جب جلسہ میں شریک ہونے سے معذرت کی تو عابد صدیقی کا استدلال یہ تھا کہ ’’جہاں روزنامہ سیاست آپ کو ویب سائٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلارہا ہے وہاں ہم لوگ اس تقریب کے ذریعہ آپ کو کچھ دیر کے لئے سمیٹنا اور مقید کردینا چاہتے ہیں‘‘ ۔ ان کے اس استدلال کو سن کر مجھے فلم مغل اعظم کے اُس مکالمہ کی یاد آگئی جس میں شہنشاہ اکبر انارکلی سے کہتا ہے ’’انارکلی ! سلیم تجھے مرنے نہیں دے گا اور ہم تجھے جینے نہیں دیں گے‘‘ ۔ بہرحال جو بھی ہو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ سب سے آخر میں اپنے تاثرات کو ساحر لدھیانوی کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں ۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
( یہ مضمون مجتبیٰ حسین کی ویب سائٹ www/mujtabahusain.com کی افتتاحی تقریب 9؍اگست 2015 ء کو پڑھا گیا)