اتراکھنڈ حکومت پرتنازعہ سپریم کورٹ میں
پرسنل لا کے خلاف آوازیں … مودی یا مومی مجسمہ
رشیدالدین
مرکز میں برسر اقتدار جماعت اگر ریاستوں میں اپوزیشن حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے تو یہ پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اگر عوام کی تائید سے برسر اقتدار آنے کی صلاحیت نہ ہو تو اس طرح کے غیر دستوری طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ اس طرح کی سیاسی فیصلوں کے نتیجہ میں گورنر اور صدر جمہوریہ جیسے دستوری عہدوں کا وقار مجروح ہورہا ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلوں میں صدر جمہوریہ کو گورنر اور مرکز کی رپورٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت میں دستوری عہدوں کیلئے بھی بعض حدود کا تعین ہے۔ کسی بھی ریاست میں صدر راج کے نفاذ کیلئے مرکز کا انحصار گورنر کی رپورٹ پر ہوتا ہے۔ گورنر کا عہدہ اگرچہ دستوری ہے لیکن جب سے سیاسی نوعیت کے تقررات ہونے لگے اور اس عہدہ کو سیاسی بازآبادکاری کا مرکز بنادیا گیا، تب سے یہ عہدہ تنازعہ کا شکار ہوچکا ہے ۔ اتراکھنڈ میں ہریش راوت حکومت کو غیر مستحکم کرتے ہوئے جس طرح صدر راج نافذ کیا گیا ، اس سے صدر جمہوریہ کا عہدہ عدالتی جائزہ کے تحت آگیا ۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے صدر راج کی مخالفت کرتے ہوئے صدر جمہوریہ کے فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں۔ صدر جمہوریہ ملک کے دستوری سربراہ ہیں اور ان کے فیصلوں کا جائزہ لینے کے لئے بعض مخصوص حالات میں عدلیہ کو اختیار ضرور ہے لیکن اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے جج نے جس انداز میں تبصرہ کیا وہ ماہرین قانون کے مطابق جج کے حدود اور صدر جمہوریہ کے عہدہ کے شایان شان نہیں ہے۔ اس صورتحال کیلئے نریندر مودی حکومت ذمہ دار ہے جس نے سیاسی مقصد براری کیلئے دستوری عہدوں کے وقار کو داؤ پر لگادیا۔ ہائی کورٹ نے صدر راج کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہریش راوت کو اکثریت ثابت کرنے کی مہلت دی ہے۔ بعد میں مرکزی حکومت کی اپیل پر سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر حکم ا لتواء جاری کردیا۔ چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا فیصلہ بی جے پی کے لئے ایک دھکا ہے۔ اقتدار کے نشہ میں عوامی منتخب حکومتوں کو بے دخل کرنے کی ذہنیت دراصل بیمار سیاسی ذہنیت کی عکاس ہے۔ سابق میں بھی جب کبھی اس طرح کی غیر دستوری سرگرمیاں انجام دی گئیں تو عدلیہ نے مداخلت کرتے ہوئے دستور کا تحفظ کیا۔ اتراکھنڈ میں جب باغی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تب گورنر کی پہلی ذمہ داری تھی کہ وہ چیف منسٹر کو اکثریت ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتے۔ برخلاف اس کے انہوں نے مرکز کو رپورٹ روانہ کردی۔ گورنر نے دستورکی پاسداری کے بجائے مبینہ طور پر مرکز کی تابعداری کی جس کا نتیجہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی شکل میں سامنے آیا۔ جمہوریت میں مقننہ ، عاملہ اور عدلیہ تین ستون ہیں اور ان میں جب تک توازن ہو جمہوریت کی عمارت کے استحکام کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ تینوں میں بہتر تال میل اور اپنے دائرہ کار میں رہنا ضروری ہے۔ اتراکھنڈ کے معاملہ میں عاملہ نے اوور ایکشن کے ذریعہ صدر راج کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔ ٹھیک اسی طرح عدلیہ نے بھی جوڈیشیل Activism کا مظاہرہ کیا۔
یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے چند دن قبل ہی عدلیہ مقننہ اور عاملہ کو اپنے اپنے حدود میں کام کرنے کی نصیحت کی تھی ۔ جب جب تینوں اداروں نے اپنی حدود کو پھلانگنے کی کوشش کی اس وقت تنازعات نے شدت اختیار کی اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا۔ اتراکھنڈ میں صدر راج کے مسئلہ پر عدلیہ کے فیصلے کے قطع نظر مسلم پرسنل لا کے معاملہ میں عدلیہ نے کئی مواقع پر اوور ایکشن کا مظاہرہ کیا۔ کئی عدالتوں نے شریعت اسلامی کے طئے شدہ اور ناقابل ترمیم قوانین کو چیلنج کرتے ہوئے شریعت کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ سابق میں شاہ بانو کیس میں عدلیہ نے شریعت کو چیلنج کیا تھا تو اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعہ دستوری ترمیم کو منظوری دی اور عدالتی فیصلہ کو بے اثر کیا۔ حالیہ عرصہ میں مختلف مسائل پر مختلف عدالتوں نے اپنے طور پر شریعت کی توضیحات پیش کرتے ہوئے شرعی قوانین کے خلاف فیصلے سنائے ہیں۔ عدلیہ کو شاہ بانو کیس اور پارلیمنٹ میں دستوری ترمیم ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے۔ عدلیہ بھی دستور کی پابند ہے اور اسے تمام مذاہب کے پرسنل لاء کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلے صادر کرنے ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی جج اپنی سوچ کے اعتبار سے شریعت کی وضاحت کرے تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب پر نہ صرف چلنے بلکہ اس کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔ مسلمانوں کو شریعت محمدی پر عمل پیرا ہونے کا حق دستور نے دیا ہے اور اس کی پاسداری عدلیہ کا فریضہ ہے۔ عدالتوں کی جانب سے کبھی نسبندی، طلاق ، نان و نفقہ اور ایک سے زائد شادیوں کی اجازت جیسے امور میں مخالف شریعت تبصرے سامنے آئے ہیں۔ جج کی کرسی پر بیٹھ کر ایک معزز جج نے عورت کو ایک سے زائد شوہروں کی اجازت کا معاملہ چھیڑ دیا۔ شریعت اور اس کے قوانین کے ساتھ مذاق چاہے کسی گوشہ سے ہو مناسب نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص بھلے ہی وہ اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز کیوں نہ ہو شریعت سے انکار یا مخالفت پر اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مختلف عدالتوں میں شریعت اسلامی کے خلاف فیصلوں کو چیلنج کرنے اور مقدمات میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً یہ فیصلہ خوش آئند اور بروقت ہے کیونکہ موجودہ حکومت سے کوئی توقع کرنا فضول ہے۔
سنگھ پریوار اور بی جے پی کو ملک میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں کچھ زیادہ ہی جلدی ہے۔ پانچ برسوں میں ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ایجنڈہ سے آگے بڑھنے والوں کو دو برس میں مایوسی ہوئی ہے۔ ہندوستانی عوام کے مزاج میں اختلاف نہیں بلکہ کثرت میں وحدت کا جذبہ ہے۔ عوام کی اکثریت عدم رواداری نہیں بلکہ رواداری کے حامی ہیں۔ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی نفرت کے سوداگروں کی ایک ٹیم کو میدان میں چھوڑ دیا گیا لیکن ان کی شرانگیزی عوام کو اور سماج کو بانٹنے میں ناکام رہی۔ کبھی بابا، سادھو ، سادھوی اور پتہ نہیں کن کن ناموں سے یہ عناصر عوام کے درمیان آتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ یوگی ادتیہ ناتھ نے مسلم پرسنل لا کے حوالہ سے زہر افشانی کرتے ہوئے شریعت کی بات کرنے والوں کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر شریعت عزیز ہو تو مسلمان اس ملک کو جائیں جہاں شریعت نافذ ہے۔ ادتیہ ناتھ نے شاید اسلام اور مسلمانوںکی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والے ادتیہ ناتھ کے پاس دلت بھی اچھوت سمجھے جاتے ہیں لیکن اسلام نے انہیں برابری کا درجہ دیا ہے ۔ ادتیہ ناتھ پہلے اپنے دھرم میں چھوت چھات کے نظام کا خاتمہ کریں ۔ دوسری بات ادتیہ ناتھ اپنی اشتعال انگیزی پر قابو رکھیں۔ ہندوستان مسلمانوں کا وطن تھا ، ہے اور صبح قیامت تک رہے گا۔ ہندوستان سے مسلمان کہیں جانے والے نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی دو گز زمین کے ساتھ وطن میں ہی رہیں گے۔ ادتیہ ناتھ کو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی سے قبل ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کے ایک ہزار برس کی حکمرانی کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ اس طویل مدت میں اگر مسلم حکمراں روادار نہ ہوتے تو جودھا بائی اور بھاگ متی کے قصے آج نہیں ہوتے۔
پتہ نہیں ادتیہ ناتھ کا نام آج کیا ہوتا۔ ادتیہ ناتھ جو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں ، ان پر وزیراعظم کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس قسم کی اشتعال انگیزی پر وزیراعظم بدستور خاموش ہیں۔ حالانکہ یہ اشتعال انگیزی سماج کے تانے بانے کو بکھیرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوا جس میں نریندر مودی نے اشتعال انگیزی اور نفرت سے باز رہنے کی تاکید کی تھی۔ نفرت کے سوداگر دراصل ناگپور ہیڈکوارٹر کے اشارہ پر کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی شہرت اور پبلسٹی کا کوئی موقع نہیں گنواتے بلکہ ان کے سیاسی مشیروں سے زیادہ تیز پبلسٹی اڈوائزرس دکھائی دیتے ہیں۔ نریندر مودی ان عالمی شخصیتوں میں شامل ہوگئے جن کا موم کا مجسمہ میڈم توساد میوزیم میں رکھا جائے گا۔ مودی نے اس مجسمہ کے ساتھ تصویر کشی بھی کی میوزیم کے ذمہ داروں کو مودی کا مومی مجسمہ تیار کرنے کا خیال آخر کیوں آیا ؟ شاید اس لئے کہ نریندر مودی کو انہوں نے ہر حساس مسئلہ پر خاموش پایا ۔ لہذا ان کے لئے میوزیم سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نریندر مودی اور ان کے مومی مجسمہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ملک کے حساس موضوعات پر نریندر مودی مجسمہ سکوت بنے ہوئے ہیں۔ ایک خاموش شخص کا مقام میوزیم ہی ہوسکتا ہے ۔ یہی کام توساد میوزیم کے ذمہ داروں نے کیا۔ اگر مودی کی خاموشی اسی طرح برقرار رہی تو عجب نہیں کہ مومی مجسمہ میوزیم سے پکار اٹھے گا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ میوزیم کے ذمہ داروں نے ملک کے مسائل پر نریندر مودی کی خاموشی کو میوزیم میں محفوظ کرتے ہوئے انہیں آئندہ بھی خاموش رہنے کا سرٹیفکٹ دے دیا ہے۔ جب کبھی عوام کو وزیراعظم سے رجوع ہونا ہے تو شاید وہ مجسمہ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ اسی دوران سبرامنیم سوامی نے بابری مسجد کے مسئلہ پر ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ انہوں نے راجیو گاندھی کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی صورت میں رام مندر کی تعمیر کا یقین ظاہر کیا۔ سبرامنیم سوامی ایودھیا تنازعہ میں سپریم کورٹ میں فریق ہیں، لہذا اس طرح کے بیانات عدلیہ کی توہین کے مترادف ہیں۔ سبرامنیم سوامی جو اسلام اور مسلم دشمنی کیلئے اپنی شناخت رکھتے ہیں، وہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو ان دنوں نفرت کے سوداگروں سے مایوسی کے بعد مسلمانوں سے سکہ رائج الوقت نام نہاد دانشوروں کی ضرورت ہے۔ پارٹی میں جو مسلم قائدین ہیں ، ان سے قیادت مایوس ہوچکی ہے ، لہذا نئے چہروں کو تلاش کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ دنوں نئی دہلی کے اردو ہفتہ وار کے ایڈیٹر جو پارٹی بدلنے کے ماہر ہیں، آر ایس ایس کی گود میں جا بیٹھے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ترجمان سامنا میں مضمون لکھا جس میں متنازعہ نعرہ کی تائید کی۔ اس نام نہاد دانشور نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ نعرہ مخالف اسلام نہیں ہے۔ ملک کی عظیم دینی اداروں اور شخصیتوں کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے آر ایس ایس کے نظریہ کی تائید کرنا محض راجیہ سبھا کی نشست کی لالچ کے سواء کچھ نہیں۔ کرسی اور اقتدار کے لئے اصولوں کا سودا کرنے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کریگی۔ شہود آفاقی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
رخ ہواؤں کا کوئی بدلتا نہیں
لوگ چلنے لگے ہیں ہوا دیکھ کر