غضنفر علی خان
مودی حکومت نے لال قلعہ دہلی کو ڈالمیا کمپنی کے پاس صرف 25 کروڑ میں رہن کردیا۔ انتہائی صدمہ کی بات ہے کہ اب ہمارے ملک میں وراثتیں بھی رہن رکھی جارہی ہیں۔ اس سے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ موجودہ حکومت محض اپنی تاریکی کو چھپانے کیلئے وراثت میں بھی عمارت ، قلعے اور دیگر عمارتوں کو بھی اس طرح کسی بڑی کمپنی کے ہاتھوں اگر فروخت نہ کرے تو رہن ضرور کھ سکتی ہے ۔ وہ حکومت جو اپنی ثقافت ، اپنی وراثت اور اپنے تمدن کی حفاظت نہیں کرسکتی ، اس کو اقتدار پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ آج صرف لال قلعہ کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ آئندہ تاج محل ، ہمایوں کا مقبرہ ، ملک بھر میں پھیلے ہوئے مختلف عالیشان مندر اور مساجد ، مذہبی عبادتگاہوں کی بھی باری آسکتی ہے۔ ہمارا ملک اپنی وراثت میں یہ بہت امیر و کبیر ہے ۔ کیوں قلعہ کو رہن رکھوایا گیا ۔ وہ بھی صرف 25 کروڑ کے لئے ۔ سوال ہے جنکا 2019 ء کے عام چناؤ میں مودی حکومت اور بی جے پی کو جواب دینا پڑے گا ۔ وراثت کسی فرد یا کسی گروہ کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی ، یہ قوموں کی امانت ہوتی ہے اور قوم کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں رکھنے والی پارٹی اور اس کے سربراہ کو اس کا تحفظ کرنا پڑتا ہے ۔ یہی ہماری تاریخ ہے ۔ یہی ہماری خصوصیت ہے ۔ لال قلعہ 17 ویں صدی کی قدیم عمارت ہے اور عالمی ہیرٹیج میں شمار ہوتا ہے۔ عمارت کی ہر اینٹ میں ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے اور اس تاریخ پر تمام ہندوستانیوں کا حق ہے ۔ یہ نہ مغلوں کی جاگیر ہے نہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے کسی شاہی حکومت کی جائیداد ہے ۔ آج بھی ہم آزادی کی تقریب اس عمارت میں مناتے ہیں۔ یہیں سے ملک کا وزیراعظم یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتا ہے ۔ صدیوں قدیم اس لال قلعہ نے کتنے ادوار دیکھے ، تاریخ ہند کے کتنے ابواب کے عین شاہد لال قلعہ کو مودی حکومت نے انتہائی بے حس اور بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رہن رکھ دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حکومت میں صلاحیت نہیں کہ وہ کسی قومی امانت کا تحفظ کرسکے۔ یہ ایک خطرناک سلسلہ ہوگا جو شروع ہوجانے کے بعد رکنے کا نام نہیں لے گا اور اللہ نہ کرے ہماری آنے والی نسلیں پوری طرح تہی دامن ہوجائیں گی۔ اگر رہن رکھنے کا یہ اقدام محض اس منفی جذبہ سے کیا گیا۔ بظاہر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔ مغل حکمرانوں نے اسے تعمیر کیا تھا اور مغلوں نے ہندوستان کو غلام بنالیا تھا تو اس سے زیادہ کم فہمی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ یہ گمان اس لئے بھی ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت میں ایسے وزراء اور لیڈر بھی شامل ہیں جو ملک کی وراثت کو صرف مغلوں کی مرہون منت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہماری اس مخلوط تہذیب کو سبھی نے سنوارا ، یہ گلدستہ ہمیں ملک کی عظیم الشان تاریخ نے عطا کیا ۔ اگر اس مخلوط تمدن کو جس کی دنیا بھر میں تعریف ہوتی ہے ، ایسی کوتاہ ذہنی سے فروخت کردیا گیا یا رہن کردیا گیا تو یہ ملک کی تاریخ سے موجودہ حکمرانوں کی ناقابل فراموش اور موجب سزاعمل ہوگا ۔ حکومتیں جانی پہچانی جاتیں کہ انہوں نے اپنی وراثت میں کیا اضافہ کیا ۔ اس لئے نہیں کہ انہوں نے وراثت کو اپنی کم عقلی کوتاۂ نظری سے کیسے تیار کیا ۔ آخر کونسی افتاد آن پڑی ہے کہ لال قلعہ کو Lease پر دیا جارہا ہے ۔ 25 کروڑ کی رقم کسی بھی حکومت کے لئے بڑی نہیں ہوتی اور اپنی قومی وراثت کی حفاظت کے معاملہ میں تو حکومتوں کو بہت کچھ لٹا دینا پڑتا ہے ۔ کیوں حکومت تاریخی لال قلعہ کی نگہداشت نہیں کرسکتی ، اس کیلئے کسی خانگی ادارے یا کمپنی کی ضرورت کیوں پڑ گئی ۔ یہ کام تو ہندوستان کے عوام ہی کرلیں گے ۔ بھلا کسی خانگی کمپنی کے تعاون کی کیا ضرورت ہے ۔ عوام کا یہ خدشہ اپنی جگہ درست ہے کہ لال قلعہ کے بعد اب کن کن عمارتوں کو ان کے تحفظ کے نام پر کسی معاہدہ کے تحت رہن کردیا جائے گا ۔ ایسے ہمارے ملک میں کئی عبادتگاہوں اور تاریخی عمارتوں اور فن تعمیر کے اعلیٰ ترین نمونوں کو تنگ ذہن کے بی جے پی قائدین بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں اعتراض تاج محل(دنیا کے سات عمارتوں میں شمار کی جانے والی محبت کی نشانی) کسی مندر پر بنائی گئی تھی ۔ بی جے پی کے بعض کم ظرف لیڈروں نے تو تاج محل کو ہماری قومی وراثت تسلیم کرنے سے تک انکار کردیا تھا ۔ اس پر آشوب دور میں جبکہ حقائق کو جھٹلایا جارہا ہے ۔ ایسے خدشات کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ دہلی میں اور بھی عمارتیں اور عبادتگاہیں ہیں جن میں مغلوں کے دور کی جامع مسجد بھی شامل ہے۔ کیا کسی دن اس مسجد کے تحفظ اور دیکھ بھال کے نام پر کسی خانگی ادارہ کودینے میں بی جے پی حکومت کو کوئی عار ہوگا یا اس کے طور طریق کو دیکھ کر یہ خطرہ محسوس کرنا کوئی تکلف ہوگا کہ یکے بعد دیگرے ہم وراثت کے معاملہ میں غریب ہوتے جائیں گے ۔ کسی بھی ملک نے کبھی اپنی تاریخی عمارت کو رہن نہیں رکھا۔ خود ہمارے ملک میں بھی ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اب اگر ہورہا ہے تو لال قلعہ کو رہن رکھنے والی بی جے پی حکومت کو بہت جلد اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی ۔ ایسی تاریخی عمارتیں جیسے لال قلعہ ہے ۔ حکومتوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں اور حکومتیں ان کے تحفظ کیلئے سب کچھ کرسکتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی حکومت کو ملک کی تاریخی عظمت کا کوئی علم نہیں ہے ۔ حکمرانی کے معاملہ میں بی جے پی قطعی ناتجربہ کار ہے ، اس حکومت کو صرف یہی فکر ہے کہ کب تک وہ اقتدار پر فائز رہ سکتی ہے۔ حکومت کو اس بات کا اندازہ تک نہیں ہے کہ اس قسم کا اقتدار ملک کے لئے کسی قدر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ مودی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوسکتی ہے ۔ اب ریاستی سطح کے انتخابات کو بھی قومی سطح کی اہمیت دی جارہی ہے جسکی تازہ ترین مثال کرناٹک کے اسمبلی چناؤ ہیں اس سے پہلے گجرات کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ اور وزیر اعظم مودی نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا تھا ۔ اس وقت کرناٹک میں بھی وہی کچھ ہورہا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران کسی بھی اخلاقی اصول کو ملحوظ نہیں رکھا جارہا ہے۔ شخصی سطح کی تنقیدیں اورایک دوسرے پر لعن طعن عام بات ہوگئی ہے ۔ یہ اس لئے بھی عام ہوگیا ہے کہ بی جے پی حصولِ اقتدار اور برقراریٔ اقتدار کو اپنا مقصد بناچکی ہے ۔ صرف وراثت کی پامالی کی بات نہیں ہے ۔ ہر میدان میں بی جے پی اپنی اخلاقی گراوٹ اور بے اصول سیاست کا رنگ دکھا رہی ہے ۔ پارٹی کی قیادت پوری طرح سے امیت شاہ کے ہاتھ ہے۔ ان کے فیصلوں پر عمل ہورہا ہے ۔ وزیراعظم مودی نے خود کو نمبر 1 لیڈر بنالیا ہے۔ قومی مفادات بالائے طاق رکھ دیئے گئے ہیں۔ ہر بی جے پی لیڈر کی یہی کوشش ہے کہ جتنے دن اقتدار پر رہیں لوٹ کھسوٹ ، نچلی سطح کی سیاست اور اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اقتدار پر رہیں۔ محض چھوٹے پروپگنڈوں سے حکومت کو چلانے کی جو کوشش ہورہی ہے اس کی کزب گوئی کا بھانڈہ بہت جلد پھوٹنے والا ہے ۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’ہم نے بی جے پی کو اقتدار سپرد کر کے کیسی بڑی غلطی کی ہے۔ انہیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ وہ عوام جنہوں نے صرف 4 سال قبل بی جے پی کو اپنا نجات دہندہ سمجھا تھا ۔ آج وہی عوام بی جے پی کے اقتدار سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوامی ناراضگی اور غم و غصہ کسی آتش فشاں کے لاوے کی طرح اندر ہی اندر دہک رہا ہے اور کسی بھی وقت یہ لاوا پھٹ سکتا ہے۔