لالو۔نتیش اتحاد

ظفر آغا
بہار عجب کمال کا صوبہ ہے!جب جب ہندوستان میں سیاسی بحران پیدا ہو تا ہے تب تب بہار سے روشنی کی ایک کرن پھوٹتی ہے جو جلد ہی سارے ہندوستان کو روشن کر دیتی ہے ۔ 1970 کی دہائی میں جب ملک میں لوگ کانگریس راج سے پریشان ہو گئے توبہار میں جے پرکاش نرائن کی قیادت میں جو کانگریس مخالف تحریک چلی اس نے ایمر جنسی کے بعد جنتا پارٹی کی شکل اختیار کرلی۔ آخر اسی جنتا پارٹی نے پہلی بار مرکز میں کانگریس اقتدار کو چکنا چور کر تاریخ رقم کردی۔ اسی طرح جب 1992 میں بابری مسجد گراکر بی ے پی نے ملک میں ہندو فرقہ پرستی کا سیلاب بپاکردیا تو بہار سے سماجی انصاف کا نعرہ بلند ہوا جس نے بی جے پی کے بڑھتے قدم روک کر فرقہ پرستی کو لگام دی۔ اسی طرح ابھی جب مودی کے اقتدار میں آنے پر ملک کی سیکو لر سیاست پر خطرات کے بادل منڈلا نے لگے تو پھر ایک بار بہار نے ملک کو راستہ دکھانے کا کام کیا۔ میری مراد ہے ابھی بہار ، اور ملک کے دیگر حصوں میں جو ضمنی چنائو ہوئے اور ان میں بہار سے جو نتائج آئے ان سے ایک بار پھر ملک کو ایک نئی سیاسی راہ نظر آنے لگی ہے۔سب واقف ہیں کہ پچھلے ہفتے بہار کے دس اسمبلی حلقوں میں ضمنی چنائو ہوئے جن میں سے بی جے پی کے خلاف لالو پرساد اور نتیش کمار کے الائنس کو چھ سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ یوں تو پنجاب ، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کے خلاف کانگریس پارٹی کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی لیکن بہار کے ضمنی چناوی نتائج نہ صرف چونکانے والے ہیں بلکہ سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بہار میں لالو۔ نتیش اتحاد کو بی جے پی کے خلاف محض کامیابی ہی حاصل نہیں ہوئی ہے، بلکہ ان چناوی نتائج نے بی جے پی کے خلاف ملک کی تمام سیکولر سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک نئی حکمت عملی واضح کر دی ہے۔ او ر وہ حکمت عملی بہت سیدھی اور کامیاب ہونے والی ہے۔

بہار کے چناوی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر بی جے پی مخالف ووٹوں کو جوڑ دیا جائے تو بی جے پی کا مقابلہ کیاجا سکتا ہے۔ بہار میں لالو اور نتیش کا ووٹ جب آپسی اتحاد کے تحت متحد ہو گیا تو بی جے پی کی بہار میں شرمناک شکست ہوئی۔ یعنی بہار کی طرح اگر ملک گیر پیمانے پر بی جے پی مخالف سیکولر پارٹیوں کا مورچہ کھڑا کردیا جائے جیسا کہ سونیا گاندھی نے 2004 میں یو پی اے کو کھڑا کیا تھا تو بی جے پی کو ہرا یا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ پچھلے لوک سبھا چنائو میں بی جے پی کو محض 31 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یعنی ملک بھرمیں بی جے پی مخالف ووٹ 69 فیصد تھے جو بہت بڑی تعداد ہے۔ بی جے پی کی کامیابی کا سبب محض یہ تھا کہ سیکولر ووٹ بٹ گیا تھا۔ یعنی اگر بہار کی طرح ایک بار پھر مرکزی سطح پر سیکو لر ووٹ اکٹھا ہو جائے تو بی جے پی کمزور پڑ جائے گی۔ بہار میں یہی ہوا اسی وجہ سے بی جے پی کے مقابلے لالو۔ نتیش اور کانگریس اتحاد کامیاب رہا۔
لیکن یہ بات جس قدر آسان نظر آرہی ہے یہ اتنی آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ سیاست محض جوڑ گھٹا نے کا نام نہیں ہے۔ کامیاب سیاست کے لئے بہت سارے عناصر درکارہوتے ہیں جن کے امتزاج سے سیاست میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً بہار میں لالو ۔ نتیش اتحاد کی کامیابی کا سبب محض ان دونوں کاووٹ زیادہ ہونا ہی نہیں تھا بلکہ ان دونوں کے اتحاد کی کامیابی کابنیادی سبب ان دونوں قائدین کی سیاست کی ہم آہنگی بھی تھی۔

اصل میں لالو اور نتیش دونوں ہی بنیادی طور پر پسماندہ ذاتوں کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کی سیاست کا خمیر سماجی انصاف ہے اسی لئے برسوں کی آپسی لڑائی کے باوجود جب لالو اور نتیش نے ہاتھ ملائے تو ان کے ووٹر کو فوراً سمجھ میں آگیا کہ بی جے پی اعلیٰ ذات مفاد کی سیاست کرتی ہے اس لئے ہم کو اس کے خلاف ایک ہو جا نا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ اس اتحاد میں کانگریس بھی شامل ہوگئی۔ کانگریس بنیادی طور پر سیکولر زم کی علمبردار رہی ہے چنانچہ لالو، نتیش اور کانگریس اتحاد فرقہ پرست مخالف ووٹ بھی جڑ گیا۔ اسی طرح بی جے پی سرکار کے مرکز میں آنے کے بعد سے روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں جس طرح آسمان کو چھو رہی ہیں اس سے غریب ووٹر کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ بی جے پی کا رپوریٹ اداروں یا سرمایہ داروں کی پارٹی ہے۔ اس سے ہر طبقے کا غریب بھی لالو ، نتیش اتحاد کے ساتھ جڑ گیا۔
یعنی بی جے پی کو شکست دینے کے لئے سب سے پہلے ایک سیکولر پلیٹ فارم کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا بکھراہوا سیکولر ووٹ ایک جگہ اکٹھا ہو سکے۔پھر اس پلیٹ فارم کی جانب عوام کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو اس پلیٹ فارم کو عوام میں مقبول کر دے ۔ بہار کے چناوی نتائج کا کمال یہی ہے کہ بہار نے اس سیاست کا بھی راستہ دکھا دیا ہے جو عوام کو بی جے پی پلیٹ فارم کی جانب راغب کر دے گا۔ اور وہ راستہ تین عناصر پر مشتمل ہے جو ہیں: سماجی انصاف، سیکولرازم اور غریب حامی پالیسیاں ہیں کیونکہ یہ کوئی نہ سو چے کہ حالیہ ضمنی چنائو کے بعد بی جے پی بالکل کمزور پڑ چکی ہے۔ بی جے پی ابھی بہت طاقتور ہے۔ ابھی بھی فرقہ پرستی کی حکمت عملی میں بہت جان ہے۔

ایک معمولی سے فساد کے بعد علاقہ کی سیاسی فضا دیکھتے دیکھتے بد ل جاتی ہے ۔سنگھ پریوار ابھی بھی ملک میں فرقہ پرستی کا سیلاب بپا کر سکتاہے۔ اس لئے جب تک نظر یاتی سطح پر بی جے پی کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا، تب تک بی جے پی کو محض سیکولر ووٹ کے اتحاد سے ہرانا آسان نہیں ہوگا اور نظر یاتی اعتبار سے ’کمنڈل‘ کے خلاف سب سے کار گر ہتھیار منڈل ہے۔ یعنی فرقہ پرستی کا سب سے بہترین مقابلہ سماجی انصاف کا نعرہ ہی کر سکتاہے۔ پھر ہندوستان بنیادی طور پر ایک سیکولر مزاج ملک ہے۔ اس لئے نظریاتی سطح پر آج بھی سیکولرا زم میں بہت اپیل ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی راج میں غریب کی پریشانی بڑھنی ہی بڑھنی ہے جس کے سبب بی جے پی مخالف مورچے میں غریب کو جوڑنا بھی لازمی ہے۔ ان تمام سیاسی عناصر کے مرکب سے بہار کی طرح ملک گیر سطح پر جو پلیٹ فارم بنے گا اسکو مرکزی سطح پر بھی ضرور کامیابی حاصل ہو گی۔بہار کا کمال یہی ہے کہ ہر سیاسی بحران کے موقع پر ملک کو راستہ دکھانے کا کام کرتا ہے ۔حالیہ ضمنی چنائو میں ایک بار پھر بہار نے ملک کی نئی سیاست کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اب ملک کی سیکولر پارٹیوں کو بہار کی دکھائی راہ پر چل کر ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا ہوگا جو ملک سے فرقہ پرستی کا زہر ختم کر سکے۔ اسی میں ہندوستان اور ہندوستانیوں کی بقا ہے۔