قوم کے درد سے گھٹنے کے درد تک

میرا کالم مجتبیٰ حسین

اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ہم بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں جس میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی مبتلا ہیں ۔ یہاں ہماری مراد قوم کے درد سے نہیں بلکہ گھٹنوں کے درد سے ہے ۔ وزیراعظم کے بارے میں تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے البتہ اپنے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایک عرصہ تک قوم کے درد نے ہمیں بہت پریشان کئے رکھا ۔ لیکن جب گھٹنوں کا درد ہماری ذات میں آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تو قوم کا درد پس پشت چلا گیا ۔ یوں بھی قوم کا درد اس وقت تک بھلا معلوم ہوتا ہے جب تک آدمی کے جسم میں کوئی اور درد نہ ہو ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیراعظم کے گھنٹوں کا درد کتنا پرانا ہے ۔ تاہم اتنا جانتے ہیں کہ گھٹنوں کے درد کے معاملہ میں ہم وزیراعظم سے سینئر ہیں ۔ کم از کم پندرہ برسوں سے تو ہم اس درد کو چپ چاپ برداشت کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ میاں یہ کونسا درد ہے ، کس طرح کا درد ہے اور کتنا پرانا درد ہے ۔ چنانچہ ہم اکیلے ہی اکیلے اس درد کو خاموشی سے برداشت کرتے رہے ۔ کسی کو اس درد کی تفصیلات نہیں بتائیں ۔ مگر جب سے وزیراعظم کے اس درد میں مبتلا ہونے کی اطلاع آئی ہے تب سے یوں لگ رہا ہے جیسے گھٹنا ہی انسانی جسم کا سب سے اہم ترین عضو ہے ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ گھٹنے کا شمار انسان کے اعضائے رئیسہ میں ہوتا ہے یا نہیں ۔ لیکن اب تواچھے اچھے اعضائے رئیسہ بھی گھٹنے کے آگے اعضائے غریباں معلوم ہونے لگے ہیں ۔ جگہ جگہ گھٹنوں کی تصویریں چھپ رہی ہیں ۔ اخباروں میں مضامین چھپ رہے ہیں ۔ ٹیلی ویژن والے پروگرام پیش کررہے ہیں ۔ اس مرض کے ماہرین کی قسمت بھی چمک اٹھی ہے ۔ کل تک امراض قلب کے ماہرین ہی ٹیلی ویژن پر دکھائی دیتے تھے ۔ اب گھٹنے کے درد کے ماہرین کو اتنی بار ٹیلی ویژن پر دکھایا جارہا ہے کہ بیٹھے بیٹھے ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے اچھے بھلے آدمی کے گھٹنوں میں بھی درد ہونے لگا ہے ۔ بعض اخبارات نے وزیراعظم کی پسندیدہ غذاؤں کی فہرست بھی چھاپ دی ہے ۔ اس فہرست کی اشاعت کا مقصد چاہے کچھ بھی رہا ہو لیکن اب عام آدمی ان غذاؤں کے استعمال سے گریز کرنے لگا ہے جنہیں وزیراعظم استعمال کرتے ہیں۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں اسے بھی گھٹنے کا درد لاحق نہ ہوجائے ۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کے پیچھے پڑجاتے ہیں تو بال کی کھال نکال کر رکھ دیتے ہیں ۔ اس مرض کے بارے میں ایسی ایسی غیر متعلق باتیں کہی جارہی ہیں کہ گھٹنوں کے درد کا ہم جیسا پرانا مریض بھی پریشان ہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے ۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ اسی کو تو کہتے ہیں ۔ آپ نے اس بزرگ کا قصہ تو سنا ہوگا جو کسی گاؤں میں اکیلے پڑھے لکھے آدمی سمجھے جاتے تھے ۔ ایک بار کسی ضرورتمند نے آکر ان سے گذارش کی کہ وہ کسی صاحب کے نام خط لکھ دیں ۔

بزرگ نے معذرت کی کہ بھیا آج میں آپ کی طرف سے خط نہیں لکھ سکوں گا کیونکہ آج میری ٹانگ میں درد ہے ۔ ضرورت مند نے کہا ’’حضور! مجھے تو آپ کا عذر ’عذر لنگ‘ لگتا ہے کیونکہ آپ ٹانگ کی مدد سے تو خط نہیں لکھتے ۔ ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘ ۔ اس پر ان بزرگ نے کہا ’’میاں بات دراصل یہ ہے کہ میں اس گاؤں کا اکیلا پڑھا لکھا آدمی ہوں ۔ اگر میں ان صاحب کے نام خط لکھوں گا تو اسے پڑھوانے کے لئے وہ مجھے ہی بلائیں گے اور ٹانگ میں درد کی وجہ سے میں وہاں نہیں جاسکتا ۔ ایسے میں مجھ سے خط لکھوانے کا کیا فائدہ‘‘ ۔ وزیراعظم کے گھٹنے کے درد کے حوالہ سے اب ایسی ہی کئی غیر ضروری اور غیر متعلق باتیں کی جانے لگی ہیں ۔ جب تک ہم گھٹنوں کے درد میں مبتلا رہے کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ یہ کیسا درد ہے ۔ اب وزیراعظم کے گھٹنوں میں درد ہونے لگا ہے تو ساری قوم اس بارے میں پریشان ہے ۔ وزیراعظم کے گھٹنے اور ایک عام آدمی کے گھٹنے میں یہی تو فرق ہے ۔ حالانکہ ہم برسوں سے انسانی جسم میں گھٹنوں کی مرکزی اور بنیادی اہمیت سے واقف ہیں ۔ دیکھا جائے تو حکومت کو بھی گھٹنوں کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ تو آئے دن امریکہ اور بڑی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیکتی آئی ہے بلکہ گھٹنے ٹیکنے کے معاملہ میں ہماری حکومت جتنا وسیع تجربہ رکھتی ہے وہ دنیا کی کوئی اور حکومت نہیں رکھتی ۔

ٹریڈ یونینیں ، تاجر ، صنعت کار اور منافع خور تو آئے دن حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں لیکن آج تک کسی نے گھٹنوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا ۔ یہ تو اس مرض کی خوش بختی ہے کہ بالآخر وزیراعظم اس میں مبتلا ہوگئے ورنہ اس مرض کی خیریت کون پوچھتا ۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ وزیراعظم واشنگٹن میں جہاں اپنے گھٹنوں کا چیک اپ کرارہے ہیں وہاں ہم بھی اپنے گھٹنوںکا معائنہ کرواچکے ہیں ۔ امریکی ڈاکٹروں نے ہمارے گھٹنوں کی بُری حالت کو بھانپنے کے بعد کہا تھا ’’میاں! ہمیں تو تمہارے چلنے اور بعض ایشیائی ملکوں کی سرکاروں کے اب تک چلتے رہنے پر سخت حیرت ہے‘‘ ۔ سچ تو یہ ہے کہ خود ہمارے ملک کی سرکار کے گھٹنے بھی خراب ہیں اور ایک عرصہ سے ہماری جمہوریت اور سرکاریں لنگڑاتی ہوئی چل رہی ہیں ۔ آدمی کے گھٹنے کا درد جب بڑھ جاتا ہے تو آدمی لاٹھی کی مدد سے چلنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ ہماری موجودہ مرکزی حکومت کے گھٹنوں کی خرابی کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ پورے دو درجن لاٹھیوں کی مدد سے چل رہی ہے ۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم کے گھٹنے اتنے خراب نہیں ہیں جتنے کہ ہماری مرکزی حکومت کے گھٹنے خراب ہیں ۔

گھٹنوں کے درد کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ آدمی ایک بار کرسی پر بیٹھ جائے تو اسے کرسی سے اٹھنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے ۔ عام آدمی کے لئے بھلے ہی یہ مرض نقصان دہ ہوتا ہو لیکن سیاسی قائدین کے لئے یہ مرض ایک نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ سیاسی قائدین ایک بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو انھیں اس کرسی سے اٹھنے میں ہمیشہ دشواری پیش آتی ہے چاہے ان کے گھٹنے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں۔

ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ ہم اپنے پرانے گھٹنوں کو نکال کر ان کی جگہ مصنوعی گھٹنے لگوالیں ۔ ہم نے اس بات پر بہت غور کیا ہے ۔ سوچتے ہیں کہ اب جب کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں وہاں مصنوعی گھٹنے لٹکا کر کیوں بیٹھیں ۔ پرانے گھٹنوں کو ہی اپنے ساتھ لے کر اس دنیاسے کیوں نہ چلے جائیں ۔ اگرچہ امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں ایک بار مصنوعی گھٹنے لگادئے جائیں تو یہ کم از کم تیس برس تک چلتے رہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کے پاؤں چلتے رہتے ہیں ۔

بہرحال گھٹنوں کا درد ایک تکلیف دہ مرض ہے جو اس تکلیف سے گذرتا ہے وہی اس کی اذیت کو بخوبی جان سکتا ہے ۔ بخدا ہم نے بھی دنیا بھر کے علاج کرارکھے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک ایسا ناقابل علاج مرض ہے جو ایک بار کسی کو لاحق ہوجائے تو وہ چار کندھوں پر سوار ہو کر ہی اس دنیا سے جاتا ہے ورنہ تو ہمیں اس کے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ ہمیں خوشی ہے کہ وزیراعظم کے گھٹنوں کے درد کی خبر عام ہوجانے کے بعد لوگ اب ہمارے گھٹنوں کے درد کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنے لگے ہیں ۔ اندھا کیا چاہے ایک لاٹھی۔
(ایک پرانی تحریر سپٹمبر 2000)