قومی کونسل زبان کے فروغ پر بیشتر سرمایہ خرچ کرے گی

محمد مبشرالدین خرم
اردو زبان کی تعریف و توصیف تو سب ہی کرتے ہیں لیکن اس زبان کے درخشاں مستقبل کیلئے عملی اقدامات میں کوئی آگے نہیں آتا، اس لشکری زبان نے اب تک بھی جو ترقی کی ہے، وہ اس کی چاشنی ہی ہے جس نے اسے ایک عام بول چال والی زبان بنایا ہے۔ اردو سے محبت کرنے والے اردو کو اپنی محبوبہ تصور کرتے ہیں اور کوئی اسے بیوی بنانا نہیں چاہتا۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ایک خصوصی ملاقات کے دوران روزنامہ سیاست کیلئے دیئے گئے انٹرویو میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان بنانے کیلئے خود مسلم قوم کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ اردو کا جنازہ سب سے پہلے اترپردیش میں نکالا گیا جہاں مذہبی تحریریں بالخصوص عربی میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی ہندی میں تحریر کی جانے لگیں۔ اسی طرح اردو کی تباہی کا آغاز ہوتا گیا۔ انہوںنے بتایا کہ جو زبان اپنی منفرد تہذیب کی حامل ہے، اس تہذیبی روایات کی برقراری کیلئے ضروری ہے کہ زبان کی بقاء کو یقینی بنایا جائے چونکہ جب زبان ہی باقی نہیں رہے گی تو تہذیب بھی ہم سے رخصت ہوجائے گی۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا کہ اردو زبان میں موجود لشکری قوت کا اندازہ دیگر ابنائے وطن کوہونے لگا ہے اور وہ اس زبان کے الفاظ کے استعمال کے ساتھ ساتھ زبان کو سیکھنے اور لکھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزلوں و اشعار کے ذریعہ بعض ایسے الفاظ جو بہت شیریں ہوتے ہیں لیکن ان کے معنیٰ آسان نہیں ہوتے، اس کے ترجمے لوگ پوچھتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان کی ترقی و اشاعت میں غزل گوئی کا بھی اہم کردار ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بحیثیت ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جائزہ حاصل کرنے کے بعد اپنے پہلے دورہ حیدرآباد کے دوران کی گئی بات چیت میں اس بات کا تیقن دیا کہ کونسل کی جانب سے اردو کی ترقی کیلئے اب تک جو اقدامات ہوتے رہے ہیں، اس میں بہتری لائی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ تاحال کونسل نے ادب کی ترویج و اشاعت کی کوشش کی ہے لیکن اب جو لائحہ عمل تیار کیا جائے گا اسکے مطابق 80 فیصد سرمایہ زبان کے فروغ کیلئے صرف کیا جائے گا جبکہ 20 فیصد سرمایہ ادب کے فروغ کیلئے صرف کرنے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کونسل کی جانب سے علاقائی مراکز کے قیام کا منصوبہ تیار کیا گیا جس میں حیدرآباد میں بھی قومی کونسل برائے فروغ اردو کا علاقائی مرکز قائم کرنے کا منصوبہ ہے، اسی طرح قومی کونسل کی جانب سے اردو زبان کو سیکھنے کیلئے اردو سرٹیفکٹ کورس شروع کرنے کا ارادہ ہے، تاکہ اردو سیکھنے کا عوام میں شوق پیدا ہوسکے۔ انہوں نے مادری زبان کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک لوگ مادری زبان میں علم حاصل کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کرتے ، اس وقت تک ان کی ترقی انتہائی دشوار ہے چونکہ مادری زبان میں حاصل کیا جانے والا علم سمجھ سے بالاتر نہیں ہوتا بلکہ بآسانی اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان مستقبل قریب میں سماجیات و سائنسی علوم پر مشتمل اردو کتابوں کی اشاعت کا کام انجام دے گا۔ اردو کو روزگار سے مربوط کرنے کے نظریہ کا انہوں نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اردوکو روزگار سے مربوط کرنا خود اردو والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر اردو زبان سے محبت رکھنے والے مکتوبات اردو میں تحریر کرتے ہوئے پتہ بھی اگر اردو میں تحریر کریں تو اردو جاننے والے کو ملازمت کے درخشاں مواقع دستیاب ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح بازاروں میں خریدی کیلئے جب فہرست تیار کی جاتی ہے تو انگریزی میں تیار کی جاتی ہے، اگر اردو والے اردو میں تیار کردہ فہرست کرانہ جنرل اسٹور پر روانہ کریں تو اسے بھی مجبوراً اردو سیکھنا پڑے گا یا اردو جاننے والے کو ملازم رکھنا پڑے گا۔ اردو زبان کے متعلق جو خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں، انہیں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا کہ عصری ٹکنالوجی کے اس دور میں کسی زبان کی مستقبل کیلئے متفکر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج عصری ٹکنالوجی کی دنیا میں سب سے اہم نام گوگل کو اردو زبان استعمال کرنی پڑ رہی ہے تو اس سے زبان کے بہتر مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اردو والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکری کمتری سے بالاتر ہوکر اردو زبان کے استعمال کو ترجیح دیں۔ درخواستوں کی تحریر کے معاملہ میں اپنی زبان کو اہمیت دیں، شکست و محرومی کے نظریہ کو حکومت سر ڈالنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم خود اردو کے فروغ کیلئے عملی اقدامات کریں، پھر اس بات کی شکایت بجا ہوسکتی ہے کہ سرکاری طور پر زبان کے فروغ کیلئے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیںلیکن جب کوشش ہی نہ کی جائے اور دوسروں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہوجاتی ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا کہ موجودہ عالمی بازار اور روزگار کے مواقع دیکھنے کے باوجود بھی یہ تصور کرنا کہ اردو زبان کا مستقبل خطرہ میں ہے، درست نہیں۔ انہوں نے شمالی ریاستوں میں دیوناگری رسم الخط کے استعمال کے ذریعہ اردو زبان تحریر کئے جانے کے عمل کے متعلق کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے چونکہ اس طرح اردو کے مانوس الفاظ کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔