قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام ’’مصنف سے ملئے‘‘ پروگرام کا انعقاد… (رپورتاژ)

محبوب خان اصغر
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے اردو اکیڈیمی ریاست تلنگانہ کے اشتراک سے حیدرآباد دکن کے قلب شہر میں واقع بانی شہر کے نام سے موسوم قلی قطب شاہ اسٹیڈیم کے وسیع و عریض میدان میں 19 واں کل ہند کتاب میلہ سجایا ہے اور اس موقع پر چند ادبی و تہذیبی پروگرام ، طلبا و طالبات  کیلئے پروگرام اور کل ہند مزاحیہ و سنجیدہ مشاعرے کے ذریعہ تشنگان علم و فن کی آسودگی کا سامان فراہم کیا ہے ۔ یہ کتاب میلہ 12 ڈسمبر تا 20 ڈسمبر 2015 تک جاری رہے گا ۔
کتاب میلہ کا افتتاح کرنے کے بعد جناب محمد محمود علی نائب وزیراعلی ریاست تلنگانہ نے اردو سخنوروں اور ادیبوں کیلئے وظائف اور حفظان صحت کیلئے ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے اردو اکیڈیمی کے ذمہ داران کو تلنگانہ کے شعراء اور ادباء کی ڈائرکٹری مرتب کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اردو زبان کی بقا اور اس کے ارتقاء کے لئے انکی حکومت سنجیدہ ہے ۔ شعراء اور ادیبوں کو برقراری صحت کیلئے مفت سہولتیں اور ماہانہ وظائف جیسی اسکیمات کو بعجلت ممکنہ روبعمل لانے کا ارادہ ظاہر کیا جس کا سامعین نے پرجوش استقبال کیا ۔ڈپٹی چیف منسٹر نے تلنگانہ اسٹیٹ کے تمام سرکاری مدارس میں اردو کی شمولیت کو یقینی بنانے کا تیقن دیتے ہوئے یہ نوید جانفزا بھی سنائی کہ حیدرآباد میں اردو کانفرنس منعقد کی جائے گی ۔

جناب مظفر حسین نائب صدر نشین قومی کونسل نے خوشخبری سنائی کہ ملک میں اردو زبان کا مستقبل تابناک ہے ۔ نئی نسل سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے انہوں نے کونسل کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضی کریم نے حیدرآباد میں اردو  کے حوالے سے کی جانے والی کاوشوں کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تلنگانہ پچھلی حکومتوں کی طرح اردو کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز کریگی ۔
آغاز میں پروفیسر ایس اے شکور ناظم و معتمد اردو اکیڈیمی تلنگانہ و آندھرا نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور یہ وضاحت کی کہ حیدرآباد میں 2010ء میں کتاب میلہ منعقد کیا گیا تھا ۔ دوسرے دن یعنی 13 ڈسمبر اتوار کو 11 بجے دن ’’مصنف سے ملئے‘‘ عنوان سے اپنے طرز کا ایک انوکھا اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں حیدرآباد دکن کے ملک گیر شہرت کے حامل دو بڑے فنکار جلوہ افروز تھے ۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی فنکار یا تخلیق کار کو اس کی تخلیقات کے حوالے سے جانتے ہیں مگر تخلیق کار مشہور ہوتا ہے اسے دیکھنے اور اس سے ملنے کی تمنا قلب میں انگڑائیاں لیتی ہیں۔ اس اجلاس کی خوبی یہ تھی کہ یہاں تخلیق کار بذات خود مسند آرا تھے ۔

اجلاس کی کارروائی بی بی رضا خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزدا اردو قومی یونیورسٹی اور محبوب خان اصغر نے مشترکہ طور پر چلائی اور کہا کہ پدم شری مجتبیٰ حسین کا شمار اردو کے بلند پایہ مزاح نگاروں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے مزاحیہ ادب کو اتنا کچھ دیا ہے کہ خود مزاحیہ ادب اس البیلے مزاح نگار پر فخر کرتا ہے ۔ مجتبیٰ حسین نے جہاں اپنے آپ کو خاکہ نگار اور کالم نگار کے طور پر منوایا ہے وہیں سفر ناموں اور انشائیوں کے ذریعہ بھی اپنی ایک شناخت بنائی ہے اور یہ شناخت صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہی بلکہ اقطاع عالم میں ان کے مداح موجود ہیں ۔ مجتبیٰ حسین کی تمام تخلیقات کا تاثر دیرپا ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں بھی انکی تگ و دو مثالی ہے ۔ اردو کا عام قاری بھی ان کے انداز بیان کی گھلاوٹ ، الفاظ کی سجاوٹ اور لہجے کی چمک ، روانی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔
ناظم اجلاس نے پروفیسر بیگ احساس کے متعلق کہا کہ انکی ادبی شناخت کیلئے خوشہ گندم اور حنظل (افسانوی مجموعے) ہی کافی ہیں ۔ افسانوں کے حوالے سے انکے تنقیدی مضامین پر مبنی ایک بہت ہی عمدہ تصنیف ’’شورجہاں‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ درس و تدریس سے وابستگی نے ان کی اخلاقی قدروں کو مضبوطی دی ہے ۔

زبان اور قلم ذہن اور دل کو تعمیری کاموں کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ حلف (حیدرآباد لٹریری فورم) کے صدر ہیں ۔ معتبر رسالہ ’’سب رس‘‘ کے مدیر ہیں ۔ ساہتیہ اکیڈیمی کے رکن ہیں ۔ آغاز میں شہنشاہ ظرافت ڈاکٹر مجتبیٰ حسین نے اپنے تخلیقی سفر سے متعلق کہا کہ وہ تخلیقی میدان میں بحیثیت صحافی داخل ہوئے ۔ اردو روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے کالم نگار شاہد صدیقی کی ناگہانی موت کے بعد مدیراعلی و بانی سیاست جناب عابد علی خان مرحوم اور ان کے دیرینہ ہمدم محبوب حسین جگر مرحوم کے حکم کی تعمیل میں مزاح نگاری شروع کی تھی یعنی ان کے مزاح نگاری کی بنیاد ایک المیہ پر رکھی ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ابتداء میں کوہ پیما کے نام سے مزاحیہ کالم لکھا۔ ان کے کالمز کو دوسرے اہم اخباروں نے ڈائجسٹ کرنا شروع کیا جو ان کے حق میں مفید ثابت ہوا اور مزید لکھنے کی تحریک ملی ۔ عزم ، ارادہ ، جوش اور ولولہ اور زندگی کے حقائق کو محسوس کرنا ایک تخلیق کار کیلئے ضروری ہے تب کہیں جاکر تخلیق عصری صورتحال کی غمازی کرنے لگتی ہے ۔ انہوں نے تحریر میں دلکشی اور مضمون آفرینی کیلئے اپنے پیش رو قلمکاروں کو پڑھنے اور ان کی دانش و آگہی کی روشنی میں اپنے کو پرکھنا ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ پطرس بخاری ، مشتاق احمد یوسفی ، رشید احمد صدیقی کے علاوہ انگریزی کے دانشور اسٹیفن لی کاک ، مارک ٹوئین ، پی جی ووڈہاؤس کا بھرپور مطالعہ کیا ہے ۔ زبان وبیان پر گرفت کو طنز و مزاح کی اولین ضرورت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وصف سعی مسلسل سے ہی حاصل ہوسکتا ہے اور طنزحیہ و مزاحیہ ادب میں لطافت پیدا ہوتی ہے ۔ مجتبیٰ حسین نے تخلیقی میدان کی دشوار گذاریوںکا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دلی میں قیام کرنا انکی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ وہاں انہوں نے زندگی کی وسعت اور رنگارنگی کو دیکھا اور وہاں انہیں اجتماعیت سے روشناس ہونے کا موقع ملا نیز انہوں نے کہا کہ حیدرآباد انہیں عزیز ہے مگر دلی انہیں زیادہ عزیز رکھتی ہے ۔
پروفیسر بیگ احساس سابق صدر شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ تخلیقی میدان بڑا ہی صبر آزما ہوتا ہے ۔ لکھنا اور لکھنے کے بعد اشاعت کی خواہش اور بعجلت ممکنہ شہرت کی بلندی تک رسائی حاصل کرنے کی ہوس یا خبط تخلیق کار کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ ایک تخلیق کار کیلئے ضروری ہے کہ وہ مجمع اخلاق ہو ، اسکی فکر میں بالیدگی ہو ، تب کہیں جا کر اچھا ادب تخلیق پاسکتا ہے ۔

پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ ان میں تخلیقی اپج کب ہوئی وہ نہیں جانتے ۔ کب ان کے اندر یہ بیج در آیا اور نمو پانے لگا اس بات سے وہ ناآشنا ہیں ۔ ان کے اندر تخلیقی صلاحیت کسی خودرو پودے کی مانند پھلتی پھولتی رہی پھر انہیں جو اساتذہ میسر آئے وہ بھی کسی نہ کسی انداز سے لکھ رہے تھے ۔ انہیں بھی لکھنے کی جہت ملی اور تدقیق کے جذبات ابھرنے لگے ۔ ابتداء میں ان کے افسانے ماہنامہ بانو ، بیسویں صدی اور شاعر میں شائع ہوتے رہے ۔ پسندیدگی کی سند نے ان کا حوصلہ بڑھایا ۔ اپنے استاد گیان چند جین کی ایماء پر ’’کرشن چندر فن اور شخصیت‘‘ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا اس دوران اہم تصانیف کو پڑھنے کی وجہ سے ان کے اندر پوشیدہ تخلیق کار کی تعمیر و تشکیل ہوتی رہی ۔ بیگ احساس جن کی اکثر تخلیقات عصری میلانات کی ترجمان ہیں کہاکہ افسانے روایتی انداز کے ہوں یا جدید اور علامتی اپنے عہد کے ترجمان ہوتے ہیں ۔
’’مصنف سے ملئے‘‘ پروگرام میں مختلف جامعات کے طلبہ کے علاوہ اساتذہ اور معززین شہر نے شرکت کی اور تخلیق کاروں سے سوالات کے ذریعہ ان کے افکار کی روشنی حاصل کی ۔ ان میں قابل ذکر ڈاکٹر سید مصطفی کمال ، ڈاکٹر محسن جلگانوی ، ڈاکٹر رؤف خیر، ڈاکٹر جاوید کمال ، ڈاکٹر صابر علی سیوانی ، ڈاکٹر ناظم علی اور دیگر ہیں ۔
بی بی رضا خاتون نے ہدیہ تشکر پیش کیا اس طرح یہ دلچسپ محفل اختتام کو پہنچی ۔