قومی طاقتور پارٹیوں کے کمزور علاقائی قائدین

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات اب زیادہ دور نہیں ہیں ۔ پارٹی ٹکٹوں کے لیے دوڑ لگانے والے قائدین میں سے چند کو خوشی اور چند کو مایوسی ہوگی ۔ ٹی ار ایس بانی اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی دانش کے مطابق اسمبلی انتخابات قبل از وقت کروا کر کامیاب ہوئے ہیں تو لوک سبھا انتخابات میں مکمل توجہ دینے کا ان کے پاس کافی فاضل وقت ہے ۔ ٹی آر ایس کے دروازے اخلاق باختہ عناصر پر بھی کھل گئے ہیں ۔ قانون ساز کونسل کے انتخابات میں ٹی آر ایس کی کامیابی کو جس طرح یقینی بنایا گیا اس طرح لوک سبھا انتخابات میں 16 ٹی آر ایس امیدواروں کی کامیابی کو بھی یقینی بنانے کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے ۔ عوامی لاشعوری یا سرکاری مشنری کی چالاکیوں کی بدولت ٹی آر ایس کو لوک سبھا میں بھی کامیابی ملنے کی امید کی جارہی ہے کیوں کہ چیف منسٹر کے خواب قومی سیاست میں سرگرم رول ادا کرنے کا موقع پورا ہونے جارہا ہے ۔ اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی نے ٹی آر ایس کے مزاج کو خود سر بنادیا ہے ۔ اس لیے تلنگانہ کے جن لوک سبھا حلقوں میں مسلم آبادی زیادہ ہے وہاں سے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دینے میں پس و پیش ہورہا ہے ۔ ان ٹی آر ایس مسلم قائدین کو جو پرگتی بھون کے باورچی خانے کے اخراجات بھی خود اٹھاتے رہے ہیں ۔ انہیں ٹکٹ کی آس ہے ۔ یہ مسلم قائدین ٹی آر ایس کے گن گاتے رہے ہیں ۔ ٹکٹ نہ ملنے پر وہ پارٹی کے خلاف بغاوت کریں گے ایسا سوچنا بھی ان کے لیے محال ہے کیوں کہ ہمت جواب دیدیتی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کو اپنے مسلم قائدین کا خیال رکھنا چاہئے ۔ یہ لوگ پارٹی کے اندر رہ کر اپنی قوم کی معیشت کی گرتی ہوئی صحت کی فکر سے زیادہ اپنی گرتی معیشت کو سنبھالنے کی فکر کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے خیر اندیش دوست سمجھے جانے والے چیف منسٹر اپنی دوست مسلم جماعت کے تعاون سے مسلمانوں سے کیے گئے تمام وعدوں کا مصنوعی سیارہ چھوڑ کر بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ مسلمانوں کے لیے خوشی کے لمحات کی خوشخبری سنانے والے چیف منسٹر کے تعلق سے مسلمانوں کے احساسات اب بھی وہی ہیں جو 2014 میں تھے ۔ اب 11 اپریل 2019 کی کیفیت بھی کم و بیش وہی ہی ہوگی ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کے ان احسانات کے عوض ٹی آر ایس کا ٹکٹ کم از کم 4 ۔ 6 مسلم قائدین کو ملنا چاہئے ۔ جن لوک سبھا حلقوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں وہاں سے اگر مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا جاتا ہے تو مرکزی سطح پر ریاست تلنگانہ سے مسلم نمائندگی میں اضافہ ہوجائے گا مگر مسلمانوں کو 5 تا 6 ٹکٹس دینا ہر پارٹی کے لیے بڑی ہمت کی بات ہوگی ۔ ٹی آر ایس کی طرح کانگریس بھی مسلمانوں کو اب تک ایسا ویسا ، ادھر اُدھر کے وعدوں سے گمراہ کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ اس سے بھی توقع نہیں ہے کہ وہ تلنگانہ کے مسلم رائے دہندوں کے غلبہ والے حلقوں میں مسلمانوں کو امیدوار بنائے ۔ کانگریس کو ایک موقع اچھا مل رہا ہے کہ وہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو مرکز کی بی جے پی اور ریاستی ٹی آر ایس کے خفیہ گٹھ جوڑ سے واقف کروا کر ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا خفیہ یارانہ بھی مسلمانوں سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود ٹی آر ایس کی مسلم دوست پارٹی کے سہارے وہ مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہوگی ۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات نہ ملے ہوں تو اس کی فکر نہیں ہے ان کی معیشت میں بہتری کی اسکیمات پر موثر عمل آوری نہیں کی گئی تو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ مسلمان یہ دیکھ کر ہی خوش ہیں کہ چیف منسٹر کے سی آر نے ان کے لیے کم از کم بہبودی اسکیمات کا اعلان تو کیا ہے ۔ آج نہیں تو کل ان کا ضمیر جاگے گا اور وہ مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے ۔ دوسری اہم بات تلنگانہ میں گذشتہ پانچ سال سے فرقہ وارانہ امن کا ماحول پیدا ہوا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے یہی کافی ہے ۔ ان کے لیے امن کے حالات ہونا ہی درخشندہ مستقبل کا ایک سہانہ خواب ہے ۔ مسلمانوں کی ضرورتوں اور مسائل کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں مگر ان موجوں پر سیاست کرنے والی ٹی آر ایس کی مسلم دوست پارٹی کو ہی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا جارہا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی اس پارٹی کے ذریعہ ٹی آر ایس کو عادل آباد ، کریم نگر ، نظام آباد ، محبوب نگر ، میدک اور سکندرآباد میں مسلم ووٹ حاصل ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پارٹی کو صرف حیدرآباد میں ہی ووٹ ملتے ہیں جہاں مسلم آبادی تقریبا 70 فیصد ہے جن میں سے اکثریت غریب مزدور پیشہ مسلمانوں کی ہے دیگر اضلاع میں اس مسلم جماعت کا کام سیکولر ووٹ تقسیم کرنا ہوتا ہے پھر بھی چیف منسٹر کے سی آر کو اس مسلم دوست پارٹی سے محبت ہے ۔ ٹی آر ایس کا چڑھتا سورج دیگر پارٹیوں کے سیاسی مستقبل کو گہن لگا رہا ہے ۔ قومی پارٹی کا مضبوط موقف رکھنے والی کانگریس کے کئی قائدین دھڑا دھڑا ٹی آر ایس میں شامل ہورہے ہیں تو یہ حیرت کی بات تو نہیں مگر کانگریس کے لیے سیاسی دھکہ ضرور ہے ۔ گذشتہ دو ہفتوں کے اندر ہی کانگریس کے 19 ارکان اسمبلی میں سے چار نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی اب کانگریس کی اہم لیڈر سابق وزیر سبیتا اندرا ریڈی بھی ٹی آر ایس کے دروازہ پر دستک دے رہی ہیں ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ تبدیلی محض ٹکٹ کے حصول کے لیے ہے یا پھر آئندہ پانچ سال تک حکمراں پارٹی کے پہلو میں رہ کر یہ قائدین اپنی سیاسی بیروزگاری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہیں گے ۔ مہیشورم کی رکن اسمبلی سبیتا اندرا ریڈی کو اپنے بیٹے کے سیاسی مستقبل کی فکر ہے اور وہ اپنے فرزند کارتک ریڈی کے لیے چیوڑلہ لوک سبھا حلقہ کا ٹکٹ مانگ رہی ہیں ۔ جب کہ اس حلقہ سے کونڈا ویشویشور ریڈی مضبوط لیڈر ہیں جو ٹی آر ایس سے نکل کر گذشتہ سال کانگریس میں شامل ہوئے تھے ۔ کے سی آر چیوڑلہ حلقہ لوک سبھا سے سبیتا اندرا ریڈی کے فرزند کو ٹکٹ دیتے ہیں تو مقابلہ سخت ہوگا کیوں کہ کونڈا ویشویشور ریڈی بھی اس حلقہ سے کانگریس کے مضبوط دعویدار ہوں گے ۔ ٹی آر ایس میں وہی لوگ جگہ پارہے ہیں جو بھاری بھرکم سوٹ کیس لے کر پہونچتے ہیں یا اس طرح کے سوٹ کیس دینے کے متحمل ہوتے ہیں ۔ کانگریس چھوڑ کر یا تلگو دیشم کو خیر باد کہنے والے لیڈروں کا ڈیٹا دیکھا جائے تو ان میں زیادہ تر رئیل اسٹیٹ مافیا ، ڈرگ مافیا ، جعل سازی کے ماہرین ، ایجوکیشن مافیا ، تاجر مافیا اور کرپٹ مافیا والے ہی ہیں ۔ حکمراں پارٹی صرف اس طبقے سے وابستہ لوگوں کو ہی پارٹی میں خیر مقدم کررہی ہے جو کروڑہا روپئے کا کاروبار کرتے ہوئے انکم ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔ بڑی بڑی فیکٹریاں قائم کر کے اس میں مہنگے برانڈ کی جعلی کاسمیٹکس تیار کرتے ہیں اور اس برانڈ پر مدت میعاد گذر جانے والی ادویات پر نئی ایکسپائری ڈیٹ کندہ کر کے مارکٹ میں فروخت کرتے ہوئے منافع کماتے ہیں ۔ حکومت کے با اثر لوگوں سے مل کر ہی انکم ٹیکس میں دھاندلیاں کرتے ہیں خریداروں سے سیلز ٹیکس ، جی ایس ٹی وغیرہ حاصل کر کے اس کو سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتے ۔ اندھا دھند منافع خوری کرنے والے تاجروں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ ظاہر بات ہے اتنے طاقتور لوگ جب ایک پارٹی میں ہوں گے تو اس کی طاقت کا اندازہ لگانے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا جائے گا ۔ قارئین بھی خود کو اپ گریڈ کرلیں کیوں کہ آنے والے لوک سبھا انتخابات دولت کے بل پر ہی جیتے جائیں گے ۔ اس کے بعد حکمراں پارٹی کے قائدین جو اپنے انتخابی وعدوں کی لوریاں دے کر رائے دہندوں کو سلانے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ اپنے وعدوں کو قبر میں دفن کر کے عوام کی امیدوں کا جنازہ نکالیں گے اور آئندہ پانچ سال تک عوام کے رگوں سے خون چوس چوس کر اپنے سیاسی نفس کا کوہ ہمالیہ کھڑا کریں گے ۔ عوام کو صرف اس حد تک زندہ رکھیں گے کہ وہ سانس لیتے رہیں اور آئندہ پانچ سال بعد ان کے کام آئیں ۔ علاقائی سطح پر طاقتور پارٹی ہی عوام کو رجھانے میں کامیاب ہورہی ہے جب کہ قومی سطح کی طاقتور پارٹیوں کے قائدین کمزور پڑ گئے ہیں ۔
kbaig92@gmail.com