قوت فیصلہ

ڈاکٹر مجید خان
غور و فکر کی آخری منزل قوت فیصلہ ہے ۔ روزمرہ کے مسائل سے لیکر مستقبل میں ہونے والے مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ لینا اور پھر ایک لائحہ عمل اختیار کرنا اپنی اپنی قوت فیصلہ پر منحصر ہے ۔ روایتی تعلیمی نظام میں اس پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ صرف ایم بی اے کے کورس میں اس کو شامل کیا گیا ہے ۔ والدین کی قوت فیصلہ ہی ان کی اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرتی ہے ۔ بچے کس قسم کی تعلیم حاصل کریں اور کونسے اسکول کو جائیں ۔ یہ سب ماں باپ ہی کے فیصلے ہوا کرتے ہیں ۔ بعض اوقات والدین کے فیصلے بچوں کی مرضی کے خلاف ہوا کرتے ہیں جو ان کو نفسیاتی صدمہ پہنچاتے ہیں ۔

اب گرما کی چھٹیوں میں والدین اچھے مدارس کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اپنے اسکول کی مثال پیش کرنا چاہوں گا ۔ میں اردو میڈیم کا طالبعلم تھا اور وہ بھی سرکاری اسکول میں ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ انگریزی کے ٹیچر کا نام قطب الدین صاحب تھا ۔ پستہ قد ، چھوٹی داڑھی ، لمبی مصری ٹوپی جو ان کے قد کو کچھ حد تک بڑھادیتی تھی ۔ اونچا پاجامہ اور کلاس میں آتے ہی شکسپیر کو بڑے شوق سے بڑھایا کرتے تھے ۔ رومیو جولیٹ سے لیکر اوتھیلو Othello اتنے اچھے انداز میں پڑھاتے کہ آج تک بھی میں بھول نہ سکا ۔ اردو میڈیم کا طالبعلم ہونے کے باوجود ایک قابل انگریزی ٹیچر کی وجہ سے میں نے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کی ۔ انگریزی پڑھانے کیلئے دو اساتذہ ہوا کرتے تھے ۔ قطب الدین صاحب Text پڑھایا کرتے تھے اور دوسرے ٹیچر غالباً ان کا نام عبدالحفیظ تھا اور وہ اڈنبرا سے بی اے کرکے آئے تھے وہ Non- Detail پڑھایا کرتے تھے ۔ کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سرکاری اسکول میں اتنے اچھے انگریزی پڑھانے والے اساتذہ تھے ۔

اب بہت معروف خانگی مدارس میں بھی اتنے قابل اساتذہ باقی نہیں رہے ۔ شاید ہی کوئی انگریزی کے ٹیچر ہونگے جو شیکسپیر پڑھاسکیں ۔ گو کہ وہ یونیورسٹی سے ایم اے لٹریچر سے پاس کئے ہوں گے اچھے معیاری انگریزی مدارس میں یہ مسئلہ نہیں ہے ۔ مگر اوسط گھرانے کے بچے اوسط اسکولوں کو جاتے ہیں جہاں پر اس ایک موضوع پر خاص توجہ دینی چاہئے ۔ مستقبل میں انگریزی میں مہارت انٹرویوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے کے لئے ضروری ہے ۔ اس لئے اپنے بچوں کو ایسے اشتہاری مدارس میں شریک کروانے سے پہلے ذرا محنت کیجئے اور پتہ چلایئے کہ وہاں کے انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کا معیار کیا ہے ۔ اس پر نہ تو انتظامیہ دھیان دینا ہے نہ والدین اس طرف توجہ دیتے ہیں ۔ اخبارات کے پرکشش اشتہارات دیکھ کر یا پھر دوستوں کی سنی سنائی پر فیصلہ کرلیتے ہیں ۔ آپ کا یہ فیصلہ جو بغیر سوچے سمجھے کیا گیا ہے اس پر آپ کے بچوں کا مستقبل منحصر ہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ جو بچے غیر معیاری انگریزی مدارس سے نکل کر گریجویشن کرلیتے ہیں اور اس کے بعد انگریزی زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں MBA میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور مسلسل احساس کمتری کاشکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس کے بعد ان کی خود اعتمادی جاتی رہتی ہے اس لئے جس نامور اسکول میں آپ اپنے بچوں کو شریک کروانا چاہتے ہیں وہاں کے انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کے تعلق سے کسی نہ کسی طرح تفصیلات معلوم کیجئے ۔ اچھے انگریزی پڑھانے والے اساتذہ ماہانہ 50,000 کے مشاہیرے سے کم میں دستیاب نہیں ہوتے ۔ بہرحال طلباء کے لئے یہ ایک مسابقتی دور ہے اور یہاں پر اگر بنیادی تعلیم اچھی ہو تو پھر اچھے کالج میں شخصیت دوسروں کی طرح پھل پھول سکتی ہے ۔
کاش حیدرآباد میں کوئی رضاکارانہ طور پر چلنے والا خانگی ادارہ ہوتا جو طلباء کی عملی قابلیت کا جائزہ لیتا ۔ اتوار کے دن ایسے پروگرامس منعقد کئے جاسکتے ہیں جہاں پر انگریزی زبان میں مہارت اور خود اعتمادی کو جانچا جائے ۔
اس پس منظر میں آپ اپنی قوت فیصلہ پر توجہ دیں ۔ کسی بھی معاملے میں قطعی فیصلہ کرنا ایک اہم نفسیاتی عمل ہے جس کو سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ عام طور پر لوگ واقعات کا مقابلہ کرتے وقت وقتیہ فیصلے کربیٹھتے ہیں جو سوچا سمجھا عمل نہیں ہوتا ۔ جب کبھی آپ کسی مسئلے سے دوچار ہیں تو سب سے پہلے اس کا پوری طرح سے جائزہ لیجئے ۔ اس کے ہر پہلو پرغور کیجئے اور بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہو تو سب مل کر اس پر غور کیجئے ۔ غور و خوض کے عمل کے بعد آخری منزل فیصلے کی ہوتی ہے ۔ اگر آپ کے فیصلے جذباتی ہونگے تو پھر ایسے فیصلے آپ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اگر آپ کا لڑکا انجینئرنگ نہیں پڑھنا چاہتا ہے اور زبردستی آپ اس کو پڑھائیں گے تو وہ کامیاب انجینئر نہیں بن سکتا۔

اگر آپ کی قوت فیصلہ کمزور ہو تو دوسرے صلاح کاروں کی مدد لیجئے ۔ بچوں کی اعلی تعلیمی اداروں اور والدین کے ارادوں میں ٹکراؤ نہیں ہونا چاہئے ۔ ایسے مڈبھیر بے ڈھنگی قوت فیصلہ کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ بہرحال زندگیاں اب لاابالی طور پر چلائی نہیں جاسکتیں ۔ اپنی غور و فکر کا جائزہ وقتاً فوقتاً لیتے رہئے ۔ کیا میں صحیح ہوں یا غلط ۔ بعض لوگ اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ ہمیشہ وہ صحیح اور دوسرے غلط ۔ یہ ہٹ دھرمی نفسیاتی کمزوری ہے ، کھلے ذہن سے مستقبل کی راہیں نکالنی چاہئے ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ عام لوگ بھی غور و فکر کے عادی ہوں ۔ جب مسائل پر خاص طور سے معاشی مسائل پر غور کرنا ہو تو منظم انداز میں کیجئے ۔ اس کے اچھے اور بُرے پہلوؤں پر غور کیجئے ۔ اور پھر دانستہ طور پر فیصلہ کیجئے ۔ اس بات سے واقف ہوجایئے کہ فیصلے کرنا ایک نفسیاتی عمل ہے جس کو سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے ۔

بے حساب لڑکے اور لڑکیاں ایم بی اے کرچکے ہیں ۔ اگر یہ انکا سوچا سمجھا فیصلہ تھا اور وہ اس ڈگری سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس سے واقف تھے تو یہ اچھی بات ہے مگر اکثر لڑکے اور لڑکیاں دوسروں کی نقل کرتے ہوئے اس کورس میں داخل ہوجاتے ہیں اور معمولی سی ملازمت اختیار کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ میں نے اکثر بڑے کارپوریٹ دواخانوں میں دیکھا ہیکہ یہ لوگ مریضوں اور ان کے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کے درمیان رابطہ قائم کرتے ہیں۔ ملازمت کا یہ مقام ایم بی اے کے لئے موزوں نہیں ہے مگر ایسی ہی نوکریاں ان کو مل رہی ہیں ۔متمول والدین اپنی لڑکیوں کو لاکھوں روپئے دے کر ڈاکٹری میں داخلہ دلاتے ہیں اورجلد سے جلد ان کی شادی کربیٹھتے ہیں اور یہ لڑکیاں جو قابل ڈاکٹر کا کام کرسکتی ہیں گھر پر ہی رہتی ہیں ۔ میری اپنی یہ رائے ہے کہ ہوشیار لڑکیوں اور لڑکوں کو B.Ed پڑھائیں ۔ اچھے اساتذہ کی سخت ضرورت ہے اور مستقبل میں آپ صرف ایک مضمون پڑھائیں گے اور چاہے تو بقیہ وقت گھر پر گذار سکتے ہیں مگر پہلے اپنی قوت فیصلہ پر غور کیجئے اور مناسب فیصلے کیجئے ۔ اچھے ٹیچرس کی ساری دنیا میں بڑی مانگ ہے اور یہ بڑھتی ہی جائے گی ۔ اگر آپ کسی بھی مضمون کے اچھے ٹیچر بن جائیں تو اپنی مرضی کے مطابق نوکری کرسکتے ہیں ۔

مگر ہماری کمزوری یہ ہے کہ بڑے پرکشش اشتہارات کو حقیقت سمجھتے ہیں ۔ ہر اخبار روزانہ یہ انتباہ لکھتا ہے کہ اشتہارات کی صداقت کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں ۔ بس دیکھئے آپ پر کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ دوکان میں جا کر شوروم سے زیادہ قیمت پر آپ واشنگ مشین خریدیں گے یا پھر AMAZON.COM یا FLIPCART کے ذریعے کم قیمت پر گھر بیٹھے اس کو خریدیں ۔ اپنی قوت فیصلہ کو مسلسل مضبوط کرتے رہئے ورنہ آپ خسارے میں رہیں گے اور بعد میں پچھتائیں گے ۔