قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

محمد مبشرالدین خرم
سعودی ویژن 2030 کے اہم نکات میں جواں سال صدرنشین قونصل برائے معاشی و ترقیاتی اُمور و وزیر دفاع محمد بن سلمان نے مملکت کی ترقی، دفاعی نظام، سرمایہ کاری، ذخیرہ اندوزی، کانکنی، اقتصادیات، خانگیانے کا ہی ذکر نہیں کیا ہے بلکہ سعودی عرب میں تعلیمی و صنعتی فروغ و صحت عامہ کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ سعودی عرب میں بھی ہر طرح کی صلاحیت کو اُبھارا جاسکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اُنھوں نے اپنے اِس منصوبے کی بنیادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جن ستونوں پر ہماری تاریخ و کامیابی کا انحصار ہے وہ اسلامی نظام اور سعودی عرب کے حدود میں موجود خطہ ارض کے دو مقدس شہروں مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ ہیں۔ سعودی ویژن 2030 کے ابتداء میں سعودی عرب کے تیل پر انحصار اور قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین عرب کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس خطۂ ارض کو بطور تحفہ عنایت فرمایا ہے۔ اُنھوں نے ملک سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ خادمین الحرمین شریفین کی نگرانی میں مستقبل کی یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے جنھوں نے یہ منصوبہ تیار کرتے ہوئے سعودی عوام کی توقعات کو پورا کرنے کی ہدایت دی ہے۔
منصوبہ کی ابتداء میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایمان اور قومی اتحاد کے ساتھ عرب اور عالم اسلام سے اتحاد کو فخر کی بنیاد بناتے ہوئے اللہ کی مرضی کے مطابق بہتر مستقبل کی طرف گامزن رہیں گے اور اسلامی تعلیمات سے انحراف نہیں کیا جائے گا۔ منصوبہ میں عازمین عمرہ و حج کی تعداد میں اضافہ کی حکمت عملی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2015 ء تک 80 لاکھ معتمرین حرمین شریفین کی زیارت کیلئے پہونچا کرتے تھے لیکن 2020 ء میں یہ تعداد دیڑھ کروڑ سالانہ تک پہونچ جائے گی۔ ویژن 2030 کے تحت سالانہ 30 ملین عازمین کی خدمت کو یقینی بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اِسی کے ساتھ تہذیبی و ثقافتی فروغ اور سیاحتی فروغ کے بھی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ صحت عامہ، شہروں کی ترقی، ماحولیات کو بہتر بنانے کا منصوبہ ہے۔ 2030 ء تک سعودی عرب کے کم از کم 3 شہروں کو عالمی سطح کے 100 شہروں کی فہرست میں شامل کرنے کی سمت کام کیا جائے گا۔ سعودی شہریوں کی اوسطاً عمر میں اضافہ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جوکہ فی الحال 74 برس ریکارڈ کی گئی ہے۔

سعودی معاشی نظام کو مستحکم بنانے کے لئے مملکت کی جانب سے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اُس میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرتے ہوئے نوجوانوں کو روزگار سے مربوط کرنے کے علاوہ ملازمتوں کی فراہمی اور سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کو مزید مستحکم بنانے کا منصوبہ ہے۔ دفاعی اخراجات کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی مملکت ہے لیکن صرف دو فیصد خرچ اندرون ملک دفاعی نظام پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ مابقی 98 فیصد دفاعی اخراجات دیگر ممالک کے ذریعہ کئے جاتے ہیں۔ 2030 ء تک کے منصوبہ میں سعودی عرب نے کم از کم 50 فیصد دفاعی اخراجات اندرون ملک کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اِس سلسلہ میں ملٹری نظام کو بہتر بنانے کے علاوہ دفاعی صنعتوں کے قیام کا منصوبہ ہے۔ علاوہ ازیں کانکنی کے شعبہ کے ذریعہ قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ قدرتی وسائل کے استعمال کے ذریعہ برقی پیداوار پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 2030 ء تک سعودی عرب دنیا کی 15 مستحکم معیشت والی مملکت کی فہرست میں مقام کرنے کی کوشش کرے گا۔ فی الحال سعودی عرب دنیا بھر کے ممالک کی فہرست میں 19 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی مسابقتی فہرست میں سعودی عرب 25 ویں نمبر پر ہے اور نئے منصوبے میں سعودی عرب نے پہلے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ اِس کے علاوہ عرب قومیت، مواصلاتی نظام، بہتر حکمرانی، عوامی شراکت داری جیسے اُمور پر بھی اِس منصوبے میں حکمت عملی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

سعودی عرب میں ٹرین، سڑک، فضائی سفر کو محفوظ بنانے کے علاوہ عصری ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لئے بیرونی کمپنیوں کی خدمات کے حصول کے ساتھ دیگر اُمور کو بہتر بنانے اور خلیج تعاون کونسل وہ دیگر عرب ممالک و اسلامی مملکتوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بناتے ہوئے تجارتی اُمور کو فروغ ، عوامی آمد و رفت کو آسان بنانے کے منصوبے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ سعودی عرب میں گرین کارڈ کے تصور کے علاوہ سرمایہ کاری و طویل مدتی رہائش اختیار کرنے کا بھی نظریہ ویژن2030 میں فراہم کیا گیا ہے لیکن اِس کے متعلق تاحال کوئی شرائط یا رہنمایانہ خطوط کا تذکرہ نہیں ہے مگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں سعودی عرب کی جانب سے گرین کارڈ کے ذریعہ طویل مدتی رہائش کو یقینی بنادیا جائے گا۔
سعودی ویژن 2030 کے منظر عام پر آنے سے چند یوم قبل سعودی کابینہ نے ایک انتہائی اہم فیصلہ کرتے ہوئے سعودی مذہبی پولیس ’’الھیۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے اختیارات میں تخفیف کردی ہے جوکہ ایک انتہائی اہم قدامت پسندانہ فیصلہ تصور کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے کئی شہروں میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی و دیگر باطل مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے مغربی ممالک کی جانب سے سعودی عرب پر یہ دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ وہ اپنی مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی کو یقینی بنائے لیکن جولائی 2006 ء میں سعودی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’’الھیۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے اختیارات میں کمی کرے گی لیکن مذہبی طبقہ کی شدید مخالفت کے پیش نظر ایسا کرنے سے اب تک گریز کیا گیا۔ مگر 11 اپریل کو ہوئے کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی کی جائے۔

محمد بن سلمان کو وزیر دفاع اور نائب ولیعہد نامزد کئے جانے کے ساتھ ہی مغربی میڈیا نے ایسی خبریں شائع کیں کہ جیسے محمد بن سلمان آل سعود سے مغرب کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو بہت بڑا خطرہ ہے۔ محمد بن سلمان جوکہ دنیا کے کم عمر وزیر دفاع ہیں، کی جانب سے یمن میں جاری حوثی بغاوت کے خلاف مشترکہ حملے کا فیصلہ لئے جانے کے بعد یہ کہا گیا کہ سعودی وزیر دفاع دنیا کے خطرناک ترین شخصیت ثابت ہوسکتے ہیں۔ مرحوم شاہ عبداللہ جس وقت ولیعہد کے منصب پر فائز تھے وہ بھی مغرب کی فاشسٹ قوتوں کی سخت مخالفت کیا کرتے تھے اور وہ عراق، کویت و ایران کے حالات پر ہمیشہ کرب کا اظہار کرتے ہوئے مغرب کی پالیسیوں کے خلاف اظہار خیال کرنے میں بے باکی کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن دنیا نے شاہ عبداللہ کے دور شاہی کو بھی دیکھا اور اب محمد بن سلمان کو خطرناک قرار دیا جارہا ہے جو ابھی نائب ولیعہد و وزیر دفاع ہیں۔ویژن 2030 ء یقینا سعودی عوام کو قدامت پسند بنانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ضامن ہوسکتا ہے لیکن اِس کے لئے سعودی عرب کو نہ صرف کچھ حد تک آزاد خیالی اختیار کرنے پڑے گی بلکہ بیرونی ممالک کی سرمایہ کاری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمد سعودی عرب میں بڑی حد تک رجحانات میں تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔
@infomubashir
infomubashir@gmail.com