قلعہ گولکنڈہ کی عظمت رفتہ بحال

محمد نعیم وجاہت

تلنگانہ ریاست میں پہلی یوم آزادی تقریب تاریخی قلعہ گولکنڈہ میں منانے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کا فیصلہ، قابل ستائش ہے، مگر چند سیاسی حلقوں کی جانب سے اس تقریب کی مخالفت اور تنقیدیں معنی خیز ہیں۔ صرف مسلم دور اقتدار کی نشانی کی وجہ سے اس مقام کی مخالفت تنگ ذہنی اور دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔ یوم آزادی تقریب قلعہ گولکنڈہ میں کیوں منائی جا رہی ہے؟ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟، اس پر اور مخالفت کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے دارالحکومت دہلی میں جب لال قلعہ پر یوم آزادی تقاریب منائی جاتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا، تو پھر قلعہ گولکنڈہ میں ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے تقریب منانے پر کیوں واویلا مچایا جا رہا ہے؟، جب کہ دونوں کی اہمیت برابر ہے۔

14 سال تک علحدہ تلنگانہ کی کامیاب تحریک چلانے والے سربراہ ٹی آر ایس علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد عوام کی تائید سے نئی ریاست کے پہلے چیف منسٹر منتخب ہوئے ہیں، لہذا انھوں نے تلنگانہ کی تہذیب اور عظمت رفتہ کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سکندرآباد پریڈ گراؤنڈ سے جُڑی برطانوی سامراج کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے انھوں نے تلنگانہ ریاست میں پہلی یوم آزادی تقریب تاریخی قلعہ گولکنڈہ میں منانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی سماج کے تمام طبقات، تنظیموں، دانشوروں اور شاعروں کی جانب سے ستائش کی جا رہی ہے۔ تاہم مسلم حکمرانوں کا تعمیر کردہ قلعہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی نے سب سے پہلے اس کی مخالفت کی ہے۔ بی جے پی کی مخالفت کا ذکر ضرور کیا جائے گا، لیکن سب سے زیادہ تعجب تلگودیشم کے سابق رکن اسمبلی این نرسمہلو کی مخالفت پر ہو رہا ہے۔ اس مخالفت کو نرسمہلو کا شخصی ریمارک بھی نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ تلگودیشم قیادت نے اب تک اس کی کوئی وضاحت نہیں کی، جس سے تلگودیشم کی نیت پر بھی شک ہو رہا ہے۔ بی جے پی سے اتحاد کے بعد تلگودیشم کی پالیسی کس حد تک تبدیل ہوئی ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نرسمہلو بار بار اس تقریب کی مخالفت کر رہے ہیں اور دورِ نظام کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جب کہ تلگودیشم قیادت کی خاموشی اس بات کا ثبوت فراہم کر رہی ہے کہ نرسمہلو کا منہ قیادت کے اشارے پر کھلا ہے۔ علاوہ ازیں تلگودیشم کے مسلم قائدین کی خاموشی بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، جب کہ بی جے پی کی جانب سے مسلم حکمرانوں اور مسلم طبقہ کی مخالفت اور زہر اُگل کر اکثریتی طبقہ میں اپنا مقام بنانے کی کوشش برسوس سے جاری ہے۔

چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا اور کابینہ کے اجلاس میں اس کو منظوری بھی دی، جس کی بی جے پی نے مخالفت کی اور بی جے پی کے قومی نائب صدر و حلقہ لوک سبھا سکندر آباد کے رکن پارلیمنٹ بنڈارو دتا تریہ نے 12 فیصد مسلم تحفظات کو دستور ہند کے خلاف قرار دیا۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ ریاست میں 4 فیصد مسلم تحفظات سپریم کورٹ کی ایما پر دستور کی روشنی میں فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اگر دستور میں اس کی گنجائش نہ ہوتی تو کیا سپریم کورٹ تحفظات پر عمل آوری کی اجازت دیتا؟۔ اسی طرح جب چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے حیدرآباد کی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا برانڈ امبیسڈر مقرر کیا تو بی جے پی اس پر بھی چراغ پا ہو گئی اور تلنگانہ حکومت کے خلاف نکتہ چینی شروع کردی، لیکن جب بی جے پی کی قومی قیادت نے ثانیہ مرزا کی تائید کی تو تلنگانہ کے بی جے پی قائدین نے اپنا موقف تبدیل کردیا۔
فی الوقت قلعہ گولکنڈہ میں یوم آزادی تقریب منانے کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے، تاہم مخالفت کی وجہ صرف مسلم حکمرانوں کی مخالفت سمجھی جا رہی ہے۔ مسلم حکمرانوں کے ترقیاتی کاموں کو نظرانداز کرکے قلعہ گولکنڈہ میں جشن منانے کی مخالفت ہو رہی ہے، جو تلنگانہ عوام کے لئے ناقابل فہم ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور دلیل پیش کی جاتی تو شاید اس پر غور کیا جاسکتا تھا۔

چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کے اس فیصلہ سے کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف جہاں قلعہ گولکنڈہ کی عظمت رفتہ بحال ہوگی، وہیں دوسری جانب حکومت اور آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کی لاپرواہی کا شکار قلعہ گولکنڈہ پر سرکاری مشنری کی توجہ مرکوز ہوگی۔ تاریخی قلعہ گولکنڈہ کی حفاظت کے اقدامات کی بجائے، اب تک اس کو صرف آمدنی کا ذریعہ سمجھا گیا ہے، جب کہ یوم آزادی، یوم جمہوریہ اور دیگر تقاریب منانے پر قلعہ کی مناسب دیکھ بھال ہوگی۔اس تقریب پر فوج اور آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا نے بھی اپنے اپنے اعتراضات پیش کئے ہیں، تاہم تلنگانہ حکومت فوج اور آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا سے یوم آزادی تقریب منانے کی تحریری اجازت طلب کی ہے، لہذا امکان ہے کہ بہت جلد سارے اعتراضات ختم ہو جائیں گے۔ چیف منسٹر تنگانہ کسی بھی صورت میں قلعہ گولکنڈہ پر قومی پرچم لہرانے اور جشن آزادی تقریب منانے پر اٹل ہیں، جس کی وجہ سے چیف سکریٹری ریاستی حکومت نے فوج اور پولیس کے اعلی عہدہ داروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے تقریب کی تیاریوں کا جائزہ لیا اور پولیس بینڈ باجے کے ساتھ روزانہ ریہرسل کر رہی ہے۔ سارا علاقہ پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے اور حکومت کو اس بات کی امید ہے کہ اس تنازعہ کا خوشگوار حل برآمد ہوگا۔
تاریخی قلعہ گولکنڈہ کو صرف آمدنی کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے، اس کی حفاظت اور نگہداشت پر توجہ مرکوز کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ تلنگانہ ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد کے سیاحتی مقامات میں قلعہ گولکنڈہ کو کافی اہمیت حاصل ہے، جس سے ریاست کو آمدنی ہوتی ہے۔ اب اس تاریخی قلعہ میں یوم آزادی اور دیگر تقاریب کے اہتمام سے نہ صرف قلعہ کی بہتر نگہداشت ہوگی، بلکہ آمدنی میں اضافہ بھی ہوگا اور آس پاس کے علاقوں کی ترقی ہوگی۔ جو لوگ قلعہ میں یوم آزادی تقریب منانے کی مخالفت کر رہے ہیں، انھوں نے کبھی قلعہ کی حفاظت اور نگہداشت کے بارے میں نہیں سوچا ہوگا، لیکن جس دن سے قومی پرچم لہرانے اور اور جشن منانے کا اعلان کیا گیا، اندھا دھند مخالفت شروع کردی۔

دیر سے سہی، لیکن حکومت نے صحیح فیصلہ کیا ہے، لہذا اس کو مذہب اور سیاست سے بالاتر ہوکر صرف قلعہ گولکنڈہ کے تحفظ اور نگہداشت کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مخالفین کو اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے تاریخی قلعہ کے تحفظ کے لئے تجاویز پیش کرنی چاہئے، جب کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کو چاہئے کہ وہ قلعہ گولکنڈہ کو صرف قومی تقریب منانے تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اس کی حفاظت و نگہداشت کے لئے ضروری اقدامات کریں اور ضرورت پڑنے پر آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا سے ربط پیدا کرکے اس ورثہ کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ قلعہ گولکنڈہ کے علاوہ دیگر تاریخی عمارتوں اور ان کے تحت موجود اراضیات کا بھی تحفظ کیا جائے، ورنہ ہمارا جشن منانا بے سود ثابت ہوگا۔