قطر کی اخوان نواز پالیسی خلیجی میڈیا میں ہدف تنقید

ریاض ۔ 31 مئی (سیاست ڈاٹ کام) مصر کی کالعدم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کی حمایت پر مبنی قطری پالیسی کو خلیجی ذرائع ابلاغ نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق خلیجی ممالک کی قیادت کی طرف سے بھی خلیج تعاون کونسل [جی سی سی] کے اخوان مخالف فارمولے پر عمل درآمد میں دانستہ کوتاہی برتے جانے پر دوحہ کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ اماراتی روزنامہ”الخلیج” نے قطری حکومت کی اخوان نواز پالیسی پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ “اب یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اخوان المسلمون خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود قطری حکومت اخوان المسلمون کی حمایت سے باز نہیں آ رہی ہے اور دوسرے خلیجی ممالک کے سامنے مسلسل ٹال مٹول کیے جا رہی ہے”۔

اخبار نے ایک اہم خلیجی عہدیدار کے حوالے سے لکھا ہے کہ “جی سی سی” کے ایک اجلاس میں قطر کو اخوان المسلمون سے ناطہ توڑنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ دوحہ نے گذشتہ ماہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ عرب وزرائے خارجہ اجلاس میں اپنی سرزمین سے اخوانی قیادت کے اخراج کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا۔ اس کے باوجود ابھی تک قطر اور اخوان المسلمون کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم موجود ہیں۔ قطری حکومت دانستہ طور پر اخوان المسلمون کی حمایت ترک کرنے میں پہلو تہی سے کام لیتے ہوئے مزید وقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مبصرین کے خیال میں قطر آسانی کے ساتھ اخوان المسلمون کی حمایت ترک نہیں کرے گا کیونکہ وہ بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر اخوان کی حمایت میں اپنے میڈیا کو اب بھی استعمال کر رہا ہے۔ قطری ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے سے ایسے لگ رہا ہے کہ ریاست خود یہ سب کچھ کرا رہی ہے۔ خلیجی ذرائع نے اماراتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئیاس امر پرحیرت کا اظہار کیا کہ قطر خطے کو بدامنی سے بچانے کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون کے بجائے تخریب کاروں اورامن دشمنوں کی حمایت کیوں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے قطر سے اپنی سفیروں کی واپسی دراصل دوحہ کو یہ پیغام دینا تھا کہ اس کی اخوان نواز پالیسی اور خلیجی ممالک میں قیام امن کی مساعی دوسرے پڑوسی ملکوں کی پالیسی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ جب تک قطر کی دوسرے خلیجی ممالک کی سیاسی پالیسیوں میں یکسانیت نہیں آئے گی دوحہ کے ساتھ سفارتی تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ قطر نے خود کو “اعلان ریاض” کی پابندی کا روا دار سمجھا ہی نہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ تین اہم خلیجی ملکوں سے سفارتی تعطل کے بعد قطری حکومت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے لگی ہے۔ قطر کو اندازہ نہیں کہ محض اس کی اخوان نواز پالیسی کی وجہ سے پورے خطے میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اگر آج بھی قطر دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اخوان کی حمایت ترک نہیں کرتا تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔