برلن ۔ 23 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) قطر اپنے موسم کی شدت کے پیش نظر 2022ء کے فٹبال ورلڈ کپ کا میزبان نہیں ہو گا۔یہ بات فٹبال کی عالمی فیڈریشن تنظیم (فیفا) کی انتظامی کمیٹی کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے رکن تھیو زوان زیگر نے سوموار کو ایک بیان میں کہی ہے۔انھوں نے اسپورٹ بیلڈ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے:’’میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ 2022ء کا عالمی کپ قطر میں منعقد نہیں ہوگا‘‘۔جرمنی کی فٹبال فیڈریشن کے سابق سربراہ کا ماہرین طب کے حوالے سے کہا ہیکہ وہ موجودہ حالات میں قطر میں فٹبال عالمی کپ کے انعقاد کی صورت میں کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔واضح رہے کہ قطر میں موسم گرما میں فٹبال عالمی کپ کا ٹورنمنٹ منعقد ہوگا اور اس خلیجی ریاست کا بالاصرار کہنا ہے کہ اسٹیڈیمس میں ماحول کو ٹھنڈا رکھنے والی ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لایا جارہا ہے اور تربیتی جگہوں پر بھی اس کا خاطر خواہ انتظام ہوگا لیکن اس کے باوجود کھلاڑیوں اور مقابلوں کو دیکھنے کیلئے آنے والے شائقین کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔مسٹر زوان نے مزید کہا ہیکہ وہ شاید اسٹیڈیمس کو ٹھنڈا رکھنے کا تو بندوبست کر لیں لیکن ورلڈ کپ صرف وہاں منعقد نہیں ہوگا دنیا بھر سے شائقین اس گرم موسم میں دوردراز کا سفر کرکے فٹبال میچوں کو دیکھنے کے لئے آئیں گے اور کسی انسانی جان کے لئے خطرے کا پہلا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہی تحقیقات شروع ہوجائیں گی جوکہ افسوسناک ہوگا۔
اور یہ ایسا امر ہوگا جس کا فیفا کے ایگزیکٹو ارکان جواب نہیں دینا چاہیں گے”۔
فیفا قطر میں منعقد ہونے والے اس ٹورنا منٹ کو کسی یورپی ملک میں منتقل کرنے کا بھی جائزہ لے رہی ہے تاکہ اس خلیجی ریاست میں جون،جولائی کی شدید گرمی میں ٹورنا منٹ کے انعقاد سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچا جا سکے۔قطر میں موسم گرما میں درجہ حرارت بالعموم چالیس ڈگری سے اوپر ہی ہوتا ہے۔
تاہم جون، جولائی کے بجائے موسم سرما میں ٹورنا منٹ کے انعقاد کی دنیا بھر کی مقامی لیگیں مخالفت کررہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے شیڈول بری طرح متاثر ہوں گے اور انھیں بھی اپنے اپنے ٹورنا منٹس کی تاریخوں میں ردوبدل کرنا پڑے گا۔
قطر کو موسمی شدت کے حوالے سے ہی تنقید کا سامنا نہیں ہے بلکہ 2010ء میں عالمی کپ کی میزبانی کے لیے اس کے انتخاب کے وقت کرپشن کے الزامات سامنے آئے تھے اور قطری فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ پر فیفا کے دوسرے ارکان کو خریدنے کے الزامات عاید کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ اس خلیجی ریاست میں غیر ملکی تارکین وطن سے سخت موسمی حالات میں کام لینے اور انھیں معاوضہ کم دینے کے الزامات بھی عاید کیے جاتے رہے ہیں اور قطری حکام کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔