قطب شاہی مساجد کی زبوں حالی اور وقف بورڈ کی بے حسی

سید محمد افتخار مشرف
قطب شاہی دور میں ہی شہر حیدرآباد کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس شہر کی ابتداء چارمینار کی تعمیر سے ہوئی جس کے اطراف چار کمان بنائے گئے اور چاروں کمانوں کے اطراف بستیاں بسائی گئیں۔ اُسی دور میں مکہ مسجد کی تعمیر بھی ہوئی ۔ قطب شاہی حکمراں قلعہ گولکنڈہ سے موضع چچلم جو ( اب علی آباد اور شاہ علی بنڈہ کے درمیان کا علاقہ کہلاتا ہے ) براہ ٹپہ چبوترہ ، مستعد پورہ ، پرانا پل ، حسینی علم اور خلوت لاڈبازار سے ہوتے ہوئے آتے تھے ۔ پرانے پل کی تعمیر بھی قطب شاہی دور میں ہوئی لیکن آج اس تاریخی پُل پر غنڈوں کا راج چل رہا ہے ۔ اس پُل کی زبوں حالی کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ اسی طرح قطب شاہی حکمرانوں نے مکہ مسجد سے قلعہ گولکنڈہ تک جملہ چالیس مساجد کی تعمیر کی ،اسی طرح قطب شاہی مساجد حیدرآباد کے علاوہ مضافات میں خوبصورت مساجد تعمیر ہوئیں جس کے تحت کئی جائیدادیں وقف کی گئیں۔ یہ مساجد طرز تعمیر کاخوبصورت شاہکار ہیں ۔ قطب شاہی حکمرانوں کے علاوہ اورنگ زیب اور آصف جاہی دور میں بھی کئی مسجدوں کی تعمیر ہوئی مگر افسوس کہ وقف بورڈ کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے آج ان مسجدوں کی زبوں حالی کی داستان ہم روزانہ اخباروں میں پڑھ رہے ہیں۔ اخبار سیاست کی نشاندہی پر کئی مساجد آباد ہوئیں۔ مگر ان مساجد کے تحت وقف کی گئی جائیدادوں پر ناجائز قابضین اپنا اُلّو سیدھا کررہے ہیں یہ لوگ کئی سالوں سے ان جائیدادوں پر قابض ہیں ۔ کیا ان لوگوں کو اب نکالا جاسکتا ہے یا ان لوگوں کو وقف بورڈ کے کرایہ دار بنایا جاسکتا ہے ، ان حالات کا ذمہ دار صرف وقف بورڈ ہی ہے ۔ آج بھی بہت سی وقف جائیدادیں موجود ہیں مگر وقف بورڈ کو آج تک نہیں معلوم کہ کونسی جائیداد وقف ہے ؟ اخبار سیاست کی نشاندہی پر بھی وقف بورڈ بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے اسی طرح ساری ریاست کی کروڑوں بلکہ عربوں کی وقف جائیدادیں تباہ و برباد ہورہی ہیںکئی سالوں سے ناجائز قابضین ان جائیدادوں کو اپنی ملکیت ظاہر کرکے فروخت کرچکے ہیں اور مضافات میں کُھلی اراضی پر ناجائز تعمیرات ہوچکے ہیں ۔ کیا اب ان تمام اوقافی اراضی کو واپس لیاجاسکتا ہے؟ اسی طرح مسلم قبرستانوں پر بھی ناجائز قابضین عمارتیں تعمیر کررہے ہیں ۔

ان قبرستانوں کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار کون ہیں ؟ وقف بورڈ کا وجود اوقافی جائیدادوں کا تحفظ اور ترقی کے لئے کیا گیا مگر افسوس کہ یہی وقف بورڈ اوقافی جائیدادوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ مکہ مسجد اور شاہی مسجد کی دیکھ بھال پہلے محکمہ انڈومنٹ (ہندو اوقاف) کے ذمہ تھی ۔ محکمہ اقلیتی بہود کے وجود میں آنے کے بعد ان دو مساجد کی دیکھ بھال محکمہ اقلیتی بہبود کو دی گئی ساتھ میں ان مساجد کی دیکھ بھال کیلئے ایک اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ بھی محکمہ انڈومنٹ سے محکمہ اقلیتی بہبود کو دیا گیا ۔ مگر افسوس کہ اس عہدہ پر غیرکارکرد اشخاص کا تقرر کیا گیا اور اب کئی دنوں سے یہ عہدہ خالی ہے، اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر کسی دیانتدار شخص کا تقرر کیا جائے اور مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے علاوہ تمام قطب شاہی اور آصف جاہی مساجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپ کر جواب دہ بنایا جائے ، اسٹاف کی کمی تو ہر محکمہ میں ہے ۔

مخلوعہ عہدوں پر خدمت کا جذبہ رکھنے والے اشخاص کا تقرر کرتے ہوئے اُسے جواب دہ بنایا جائے ۔ عہدہ چھوٹا ہو یا بڑا خدمت کے جذبہ کے تحت ایمانداری سے اپنے فرائض دیں تو یقیناً اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ وقف بورڈ اور تمام اقلیتی ادارے کمشنر اقلیتی بہبود کے زیرنگرانی کردیئے جائیں جس طرح کمشنر انڈومنٹ کے تحت ہندو اوقافی جائیدادیں ترقی کررہی ہیں۔ اسی طرح مسلم اوقافی جائیدادوں کی دیکھ بھال اور ترقی کی ذمہ داری کمشنر اقلیتی بہبود کے زیرانتظام کردیئے جائیں اور اضلاع میں ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسرس کے زیرانتظام کردیں ۔ ضلعی عہدیدار چونکہ راست ضلع کلکٹر سے ربط میں رہتے ہیں یہ لوگ متعلقہ اوقافی اور اقلیتی مسائل کو کلکٹر صاحب کے علم میں لاکر مثبت حل نکال سکتے ہیں ۔ وقفہ وقفہ سے کمشنر اقلیتی بہبود کو رپورٹس روانہ کرسکتے ہیں۔ دیہی سطح سے ریاستی سطح تک اوقافی جائیدادیں ، مساجد ، درگاہیں وغیرہ سے منسلک جائیدادوں کا تحفظ اور ترقی کے لئے متعلقہ محکمہ مال ، محکمہ پولیس ، رجسٹرار اسٹامپ اور دیگر محکموں کے تعاون کو پابند کریں اور ایک ٹھوس میکانزم بنائیں کہ کوئی بھی اوقافی جائیدادوں پر بُری نظر نہ ڈال سکے ۔ اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود جناب عمر جلیل صاحب آئی اے ایس اور جناب شیخ محمد اقبال صاحب کمشنر اقلیتی بہبود اس طرف خاص توجہ فرمائیں تو محکمہ اقلیتی بہبود اور اقلیتی ادارے اقلیتوں کی تعلیمی و معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اوقافی جائیدادوں کا تحفظ ہوسکے گا ۔