کے این واصف
خلیجی ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن میں سب ہی کی زندگی کامیاب کہانی نہیں ہے۔ یہاں لاکھوں کی قسمت بدلی ، کروڑوں کے بھاگ جاگے۔ مگر یہاں کچھ سوختہ بخت لوگوں کی درد بھری کہانیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایسے ہی افراد میں ایک قسمت کا مارا محمد شمس الدین بھی ہے جس کی درد بھری کہانی حالیہ عرصہ میں سامنے آئی ۔ شمس الدین کوئی ایک سال سے زائد عرصہ سے دمام شہر کے ایک خانگی اسپتال میں مسلسل بے ہوشی COMA کی حالت میں پڑا ہے۔ اس شخص کی کہانی ہر درد مند انسان کی آنکھ نم کردے گی ۔ شمس الدین کے بارے میں جو مختصر معلومات سعودی عرب سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ سعودی گزٹ میں شائع خبر اور کچھ دیگر ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں۔ اخبار میں پڑھی اور لوگوں سے سنی کہانی ہم پہلے یہاں پیش کریں گے ۔ ہندوستانی شہری محمد شمس الدین کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ تعلقہ راجنا ضلع سرسلہ (ریاست تلنگانہ کا رہنے والا ہے۔ 43 سالہ شمس الدین 20 سال قبل سعودی عرب آیا تھا ۔ یہاں پہنچنے کے بعد اس کا اقامہ work permit تو بن گیا، یعنی فوری طور پر وہ کسی سعودی کا مکفول تو ہوگیا تھا مگر اس کا اقامہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کبھی تجدید نہیں ہوا اور یہ برسوں پرانا اقامہ ہے جو اس کی جیب سے ملا۔ اب یہ پتہ نہ چل سکا کہ اس کے کفیل نے اسے بے یار و مددگار چھوڑدیا یا اس کے اقامہ تجدید نہ ہونے کی کوئی اور وجہ رہی ۔ یعنی وہ ایک غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت میں یہاں مقیم ہے۔ اسے تھوڑا بہت جاننے والوں کے مطابق اس کے پاس کوئی مستقل ملازمت نہیں تھی ۔ وہ یہاں وہاں کام کر کے کسی طرح خود کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرلیتا تھا ۔ سنا کہ وہ برسوں سے اس کوشش میں تھا اور جاننے والوں سے یہی گزارش کرتا تھا کہ اسے کوئی وطن واپس جانے کا انتظام کردے۔ 22 ، 23 سال کی عمرمیں سعودی عرب آیا شمس الدین 20 سال کے عرصہ میں نہ کبھی چھٹی پر گیا نہ اپنے افراد خاندان سے رابطہ میں ہی آیا ۔ بتایا گیا کہ اب یہ صورتحال ہے کہ اس شخص کو وطن واپس بھیجنا ہے تو اسے Stretcher پر لے جانا پڑے گا جس میں صرف ہوائی سفر کے خرچ کا اندا زہ 20 ہزار ریال ہوگا ۔ اس کے افراد خاندان یہ رقم ادا کرنے کے قابل نہیں۔ کوئی ایک سال سے زائد عرصہ سے شمس الدین دمام شہر کے ایک خانگی دواخانے میں شریک ہے جس پرفالج اور Brain Hemorrhage کا حملہ ہوا ہے ۔ وہ COMA کی حالت میں ہے ۔ صرف کبھی کبھی آنکھیں کھولتا ہے ۔ مگر کچھ بول نہیں سکتا۔ جب کبھی کوئی کسی کو دیکھتا ہے تو بس اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اس کی حالت دن بدن تشویشناک ہوتی جارہی ہے ۔ شمس الدین اپنی بیروزگاری اور مفلسی کی وجہ سے کبھی چھٹی پر نہیں کیا گیا ۔ حتیٰ کہ اس عرصہ میں اس کے والدین بھی انتقال کر گئے ۔ شمس الدین کی کہانی پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ گزشتہ برسوں میں حکومت سعودی عرب نے کئی مرتبہ غیر قانونی تارکین وطن کو ایک عام معافی کے ذریعہ لمبے عرصہ کی مہلت عطا کی تھی کہ ایسے تمام غیر ملکی جن کی حیثیت مملکت میں غیر قانونی ہوگئی ہے ، وہ بغیر کسی جرمانے کی ادائیگی اور سزا بھگتے مملکت سے خروج Exit پر جاسکتے ہیں۔ مگر شمس الدین اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ بتایا گیا کہ شمس الدین کے خلاف Rent a Car کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کیلئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہوا تھا جو مہلت کے عرصہ میں زیر دوران تھا جس کی وجہ سے وہ سعودی حکومت کی عطا کردہ مہلت سے فائدہ نہیں اٹھا سکا کیونکہ مملکت نے مہلت کے دوران حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب تارکین وطن پر واجب سزاؤں اور جرمانوں سے استثنیٰ دیا تھا جبکہ شمس الدین پر ایک خانگی کمپنی نے مقدمہ دائر کیا ہوا تھا جس کی بناء پر مملکت سے خروج ویزا (Exit Visa) حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ وہ پچھلے ایک سال سے زائد عرصہ سے ایک خانگی اسپتال میں زیر علاج ہے ۔ بتایا گیا کہ کچھ سماجی کارکنان کی نمائندگی پر اب Rent a Car کمپنی نے شمس الدین کے خلاف دائر مقدمہ واپس لے لیا ہے۔ یہ بتایا گیا کہ اسپتال والوں نے بھی سماجی کارکنان کی نمائندگی پر اپنے بل کی رقم معاف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ خیر جو کچھ بھی کہانی ہم نے یہاں بیان کی وہ ایک مقامی اخبار کی اطلاع اور کچھ لوگوں سے سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے۔ یہاں صرف ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ شمس الدین COMA میں پڑا ایک مریض ہے اور ایک ہندوستانی شہری ہے ۔ دیار غیر میں بے یار و مددگار یہ شخص ہماری مدد کا مستحق ہے ۔ شمس الدین کو یہاں سے خروج (Exit) کروانے کیلئے سب سے پہلے اس کی حیثیت کو قانونی بنانا ہوگا جس پر کافی صرفہ آئے گا۔ اس کے بعد اس شخص کو Strecher پر طبی نگہداشت میں وطن منتقل کرنے کا انتظام کرنا ہوگا ۔ اس پر بھی ایک بڑا خرچ آئے گا ۔
شمس الدین (COMA) میں ہے ۔ صاحب فرش ہے ۔ اس کو نلی (Tube) کے ذریعہ غذا پہنچائی جاتی ہے ، وہ نہ بول سکتا ہے نہ ا پنے آپ سے جنبش ہی کرسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ فی الحال اس کی حالت ایک زندہ لاش کی سی ہے۔ جب تک اس کی سانس ہے اسے کسی اسپتال ہی میں رکھنا لازم ہے۔ یہ شخص چونکہ بہت ہی ابتدائی عمر میں سعودی عرب آیا تھا تو ہوسکتا ہے کہ وہ شادی شدہ بھی نہ ہو۔ ان بیس سالوں کے دوران اس کی ماں اور باپ دونوں فوت ہوچکے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے کوئی بہن بھائی یا قریبی رشتہ دار اس کے گاؤں راجنا (سرسلہ) میں موجود ہوں ۔ مگر وہ بھی اس کی دیکھ بھال سے قاصر رہیں گے کیونکہ اس مریض کو غذا اور دوائیں نلی (Tube) سے دی جاتی ہے ، لہذا اس کی دیکھ بھال عام آدمی کے بس کی نہیں۔ اس کو اگر وطن منتقل کیا بھی جائے تو ایرپورٹ سے سیدھے Ambulance کے ذریعہ کسی اسپتال ہی میں منتقل کرنا ہوگا یا پھر اسے یہیں اسپتال میں رکھ کر وقت کا انتظار کرنا ہوگا ۔ اس شخص کے تعلق سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا اس پر عمل آوری کیلئے ایک بڑی رقم درکار ہوگی ۔یعنی پھر بات وہیں آتی ہے کہ یہ ذمہ داری یا خرچ کون اٹھائے گا ۔ ہندوستانی وزارت خارجہ ؟ ریاستی حکومت تلنگانہ ؟ سفارتخانہ ہندو ریاض ؟ یا انڈین کمیونٹی ؟
غیر ملکیوں کا خروج
اس ہفتہ کی یہ دوسری خبر بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔ یہ خبر ہے مملکت سے لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن کو انکی ملازمت سے فارغ کردیئے جانے کی ہے۔ سعودی محکمہ اعداد و شمار نے اس ہفتہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 ء کی پہلی سہ ماہی میں دو لاکھ 34 ہزار غیر ملکی ان کی ملازمتوں سے نکال دیئے گئے ۔ 2017 ء کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر غیر ملکی ملازمین کی تعداد 10.42 ملین سے گر کر 10.18 ہوگئی ۔ رپورٹ کے مطابق ہر روز 2.66 غیر ملکی خواتین لیبر مارکٹ میں اپنی ملازمت کھو رہی ہے ۔ اس حساب سے 1859 ء پر ہفتہ اور 7966 ہر ماہ غیر ملکی عورتیں ملازمت سے فارغ کی جارہی ہیں۔ بتایا گیا کہ سعودی مثلاً شیان روزگار میں 1.33 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق ’’غیر قانونی تارکین سے پاک وطن‘‘ مہم کے تحت اب تک 13 لاکھ 59 ہزار 345 تارکین گرفتار ہوئے ہیں۔ ان میں سے 10 لاکھ 17 ہزار 427 تارکین اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب تھے ۔ 2 لاکھ 33 ہزار 125 تارکین لیبر قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے جبکہ ایک لاکھ 8 ہزار 793 تارکین سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب تھے ۔ سیکورٹی فورس نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار 26 صفر 1439 ھ سے 21 شوال 1439 ھ تک کے ہیں۔ واضح رہے کہ مملکت بھر میں ’’غیر قانونی تارکین وطن سے پاک وطن ’’مہم کا سلسلہ پچھلے ایک سال سے زائد عرصہ سے چل رہا ہے۔ اس مہم کے تحت مملکت کے مختلف علاقوں میں تفتیشی کارروائی جاری ہے ۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ مہم کے دوران اب تک 21 ہزار 200 افراد کو غیر قانونی طور پر دراندازی کرتے ہوئے پکڑا گیاہے ۔ ان میں سے 52 فیصد کا تعلق یمن سے تھا، 45 فیصد ایتھوپین تھے جبکہ 3 فیصد دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اسی طرح 882 افراد گرفتار ہوئے ہیں جو غیر قانونی طور پر مملکت سے باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ غیر قانونی تارکین کو پناہ دینے یا انہیں مختلف سہولتیں فراہم کرنے کے الزام میں اب تک 2254 افراد گرفتار ہوئے ہیں ۔ ان میں سے 446 سعودی شہری ہیں۔ غیر قانونی تارکین کو مختلف سہولتیں فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار شدگان میں سے 419 افراد کے ساتھ قانونی کارروائی کرنے کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ 27 سعودی شہری ابھی تک قید میں ہیں۔ اقامہ اور لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب 3 لاکھ 46 ہزار 976 تارکین کو مملکت سے بے دخل کردیا گیا ہے ۔ بتایا گیا کہ یکم محرم 1440 ھ سے غیر قانونی تارکین وطن کی پکڑ و دھکڑ میں مزید شدت پیدا کی جائے گی ۔ اس تفتیش کے دوران تمام قسم کے تجارتی مراکز ، دفاتر اور خانگی کمپنیوں اور کارخانوں وغیرہ پر دھاوے کرتے ہوئے ایسے تارکین وطن کو نشانہ بنایا جائے گا جو اپنے اقامہ work permit میں درج پروفیشن سے مختلف خدمت پر متعین ہیں۔ یہ مہم مزید لاکھوں تارکین وطن کو بیروزگار کرے گی۔
خارجی باشندوں کے مملکت سے بے دخل کئے جانے سے جو شعبے متاثر نظر آرہے ہیں، ان میں کرایہ پر چلنے والے فلیٹس اور Villas وغیرہ ہیں۔ آج ہر دوسری بلڈنگ پر کرایہ پر حاصل کیجئے کا بورڈ لگا ہے ۔ اسی طرح بازاروں میں ہزاروں دکانیں یا تو ویران پڑی ہیں یا بند ہوگئی ہیں یا ان پر برائے فروخت کے بورڈ لگے نظر آرہے ہیں۔ چھوٹے بقالوں سے لیکر بڑے بڑے مالس کے دکاندار بیوپار کے بری طرح گرجانے سے پریشان ہیں۔ چھوٹی بڑی ریسٹورنٹس تک کے کاروبار آدھے ہوگئے ہیں۔ اس پر سے تاجروں کیلئے لیبر یا کاریگر کو رکھنا مہنگا ہوگیا ہے کیونکہ ا قامہ کی تجدید کرانے اور اس سے متعلق ادا شدنی فیس میں اضافے کردیئے گئے ہیں ۔ بجلی اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اگلے چند مہینوں میں یہاں کی عام صورتحال کیا رہے گی اس کے تصور سے خارجی باشندوں کے رونگھٹے کھڑے ہور ہے ہیں۔
knwasif@yahoo.com