قران

کیا ہم نے ہلاک نہیں کردیا جو ان سے پہلے تھے۔ (سورۃ المرسلات۔۱۶)
اہل مکہ جو بڑی شدت سے وقوع قیامت کا انکار کرتے تھے، انھیں بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ اپنے سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے انجام پر غور کریں اور اس کی وجہ تلاش کریں تو انھیں قیامت پر ایمان لانے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔ عاد، ثمود، قوم نوح، قوم فرعون، جسمانی قوت اور زور میں کسی سے کم نہ تھیں۔ دولت و ثروت کے بھی ان کے پاس انبار تھے۔ ان کے پاس لشکر جرار تھے، ان کے سپاہی تجربہ کار اور جنگجو تھے، ان کے پاس ماہرین حرب جرنیلوں کی کمی نہ تھی، اپنے زمانے کے معیار کے مطابق وہ علوم و فنون میں بھی کسی قوم سے پیچھے نہ تھے، ان کی کاروباری مہارت بھی لاجواب تھی۔ اگر ان چیزوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ان قوموں کو مدت دراز تک عزت و اقبال کی زندگی بسر کرنی چاہئے تھی، ان کے اقتدار کا نقارہ دیر تک بجتا رہتا، لیکن اے اہل مکہ! تم یہ جانتے ہو کہ انھیں آناً فاناً تباہ کردیا گیا۔ اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے اعمال بڑے قبیح، ان کی حرکتیں بڑی ذلیل اور ان کے اخلاق بہت بگڑے ہوئے تھے۔ جھوٹ، بدعہدی، کم تولنا، کمزور لوگوں پر ظلم و تشدد ان کا وتیرہ بن گیا تھا۔ وہ عیش و عشرت میں بڑی دریا دلی سے اپنی دولت لٹاتے اور سادہ لوح لوگوں کو بڑی بے دردی سے لوٹتے۔ گمراہی اور برائی میں بغیر کسی جھجک کے ان کے یوں مگن ہونے کا سبب یہی تو تھا کہ انھیں اپنے محاسبہ کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ اگر انھیں یہ خیال ہوتا کہ ایک روز انھیں ضرور اپنے رب کے روبرو پیش ہوکر حساب دینا ہے تو وہ یوں فسق و فجور میں غرق نہ ہوتے۔ یہاں تک کہ ان کی بداعمالیوں کے طبعی نتائج اس دنیا میں ہی ظاہر ہو گئے اور انھیں تباہ و برباد کردیا گیا۔ اے اہل مکہ! اگر تم بھی اسی قسم کے ہولناک انجام سے دو چار ہونا چاہتے ہو تو اس روش کو مت چھوڑو اور اگر تم اپنے آپ کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہتے تو روز قیامت پر ایمان لاؤ۔