قران

اور ہم نے انھیں دین کے معاملہ میں واضح دلائل دیئے ، پس آپس میں انھوں نے جھگڑنا شروع نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ انہیں ( حقائق کا) صحیح علم آگیا۔ محض باہمی حسد و عناد کے باعث یقینا آپ کا رب فیصلہ فرمائے گا ان کے درمیان قیامت کے دن جن باتوں میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ۔ (سورۃ الجاثیہ۔ ۱۷)
دین کے معاملہ میں انہیں کسی مخمصہ اور ابہام میں نہیں رہنے دیا گیا بلکہ عقائدِ صحیحہ ، اعمالِ حُسنہ اور اخلاقِ پسندیدہ کے بارے میں انہیں واضح ہدایات دے دی گئیں اور پُختہ دلائل سے انہیں ثابت کردیا گیا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی  ہے کہ  الامر  سے مراد حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس ہے یعنی حضورؐ کے متعلق ایسی واضح نشانیاں انہیں بتادی گئیں جن سے وہ بآسانی حضور  ؐ  کو پہچان کر ایمان لاسکتے تھے ۔ (روح المعانی ، قرطبی)۔ بنی اسرائیل متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور ان کا یہ اختلاف شدید نوعیت کا تھا ۔ اس انتشار نے ان کی دینی اور اخلاقی زندگی کو گوناگوں خرابیوں کی آماجگاہ بنادیا تھا ۔ فرقہ بندی کے باعث ان کی ظاہری قوت بھی پاش پاش ہوگئی تھی ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے اس اختلاف اور انتشار کی وجہ ان کی بے علمی اور جہالت نہ تھی ، سب کچھ جانتے تھے ۔ محض باہمی حسد اور کینہ کے باعث وہ الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ گئے تھے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کرنے لگے ۔ قیامت کے روز ان کے باہمی اختلاف کا فیصلہ کردیا جائے گا ۔