قرآن مجید اور دَورِ حاضر کے مسلمان

عصر حاضر کے مسلمانوں کا حال ایسا ہے، جیسا کہ کمینوں کے دسترخوان پر ایک یتیم کا ہوتا ہے۔ صاحبانِ عقل سے مخفی نہیں ہے کہ آج پوری طاغوتی طاقتیں ہمیں سطح ارض سے محو کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ باری تعالیٰ سے قطع تعلق، دین سے دُوری اور احکامِ قرآنی سے بے اعتنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جسے خود اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو‘‘۔قرآن مجید اتنی عظیم الشان کتاب ہے، جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سید الانبیائ، خاتم الانبیاء اور رحمۃ للعالمین جیسے القاب سے ملقب کیا اور اپنی تعلیمات کے ذریعہ لوگوں کو تحت الثریٰ سے رفعتِ ثریا تک پہنچا دیا، جو قیامت تک انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔ خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم قرآن پاک اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا علمی و عملی نمونہ تھے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے ’’رضی اللّٰہ عنھم ورضوا عنہ‘‘ کی سند سے سرفراز کیا۔قرآن مجید بنی نوع انسان کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا دستورِ حیات ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر وہ زندگی کے ہر میدان میں سرفرازی اور بلندی حاصل کرسکتے ہیں۔ افسوس کہ موجودہ دَور کے مسلمان قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ دُنیا میں بہت کم ایسے مسلمان ہیں، جو قرآن کریم کو اُس کے صحیح اور حقیقی مقاصد کی نظر سے دیکھتے اور کثرتِ تلاوت سے نیکیاں حاصل کرتے ہوں۔ قرآن مجید بحر ذخار ہے، جس کو ہم بڑے سے بڑے ظرف میں بھی بند نہیں کرسکتے۔ دُنیا و آخرت کے وہ کونسے مسائل ہیں، جن کو اجمالاً یا تفصیلاً قرآن پاک میں نہ بیان کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک کو سمجھ کر تلاوت کرنے اور اُس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) فاطمہ بانو