قدیر زماں 

یاد رفتگان
میرا کالم مجتبیٰ حسین
قدیر زماں ہمارے لگ بھگ نصف صدی پرانے دوست ہیں۔ 1953 ء میں ہمارے دوست وہاب عندلیب نے کچھ احباب کے ساتھ مل کر کاچی گوڑہ میں ایک گلبرگہ کاٹیج قائم کیا تھا جہاں گلبرگہ سے آنے والے طلبہ امداد باہمی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اس کاٹیج کو چلایا کرتے تھے ۔ اس امداد باہمی میں ہمارا حصہ ’’امداد‘‘ میں کم اور ’’باہمی‘‘ میں زیادہ ہوا کرتا تھا ۔ اگرچہ اس کاٹیج میں سبھی گلبرگہ کے طلبہ رہتے تھے لیکن قدیر زماں غالباً اکیلے ایسے طالب علم تھے جن کا تعلق کریم نگر سے تھا ۔ گلبرگہ میں کریم نگر کی اس ملاوٹ کے خلاف جب ہم احتجاج کرتے تھے تو وہاب عندلیب اپنی روشن خیالی اور وسیع المشربی کو ثابت کرنے کیلئے اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے مسئلہ پر ایک لمبا چوڑا لکچر دیا کرتے تھے ۔ گلبرگہ کے طلباء کی اکثریت کے درمیان وہ قدیر زماں کو کریم نگر کی اقلیت سمجھتے تھے اور جی جان سے ان کا تحفظ کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قدیر زماں شروع سے ہی ہم سے بدکتے رہتے ہیں اور ماشاء اللہ اتنی پرانی دوستی کے باوجود آج بھی بدکتے ہیں ۔ چاہے کچھ بھی ہو ان کا شمار ہمارے پرانے دوستوں میں ہوتا ہے جن کی تعداد اب دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ اسی لئے وہ ہمیں عزیز بھی ہیں۔ ہمارے دوست حیات لکھنوی کا ایک شعر ہے  ؎
وہ بُرے ہوں کہ بھلے جو بھی ہمیں پیارے ہیں
اب نیا دوست کوئی ہم تو بنانے سے رہے
کسی پتھر پر پانی کے قطروں کے گرنے کا عمل لگاتار جاری رہے تو پتھر بھی گھسنے لگ جاتا ہے ۔ اس مثال میں ہماری حیثیت پتھر کی سی اور قدیر زماں کی حیثیت پانی کے قطروں کی سی ہے ۔ غرض قدیر زماں سے اپنے دیرینہ مراسم کو بیان کرنے کیلئے ایک دفتر چاہئے اوراس دفتر کو ہم پھر کبھی کھولیں گے ۔ یوں بھی پنڈورا کے باکس کو کھولنا کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ آج ان کا ذکر کرنے کی ضرورت ہمیں اس لئے پیش آئی کہ پچھلے دنوں ہمیں ان کی لکھی ہوئی ایک انگریزی کتاب ملی ہے جس کا عنوان “BRIBERY” ہے ۔ اس کتاب کو پاکر ہمیں سب سے پہلے خوشی تو یہ حاصل ہوئی کہ قدیر زماں اب اردو کے بجائے انگریزی میں لکھنے لگے ہیں۔ ماشاء اللہ وہ تو اتنی اچھی انگریزی لکھ لیتے ہیں کہ وہ انگریزی ادب کے ’’شمس العلمائ‘‘ اور ’’ لسّان العصر‘’ وغیرہ کہلائے جاسکتے ہیں۔ یہ تو ان کا کرم ہے کہ اتنی اچھی انگریزی جاننے کے باوجود اتنے برس تک خواہ مخواہ ہی اردو جیسی پسماندہ زبان میں اپنا وقت برباد کرتے رہے ۔ ان کی جگہ ہم ہوتے تو کب کے اردو سے جاچکے ہوتے اور اردو والے ہمیں صدائیں دیتے رہ جاتے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ انگریز اپنے آپ ہی اس ملک کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ اگر نہ گئے ہوتے تو قدیر زماں کی انگریزی کو پڑھ کر ضرور چلے جاتے کہ میاں اب اس ملک میں ہمارا کیا کام ۔ سنبھالو ہماری زبان اور اپنا راج پاٹھ۔ غرض قدیر زماں کو چونکہ اپنے بیان کیلئے کچھ اور وسعت چاہئے تھی تو وہ انگریزی ادب میں چلے گئے ۔ یوں بھی زبان تو اظہار کا ایک ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ قدیر زماں کی خوبی یہ ہے کہ سماج میں جب بھی کوئی بُرائی دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف آواز ضرور اُٹھاتے ہیں اور اس وقت تک آواز اٹھاتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ خود اس برُائی کا حصہ نہ بن جائیں۔ چنانچہ ان کی زیر نظر کتاب اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ قدیر زماں نے اس کتاب میں ’’رشوت ستانی‘‘ کے خلاف بڑے زور و شور سے آواز اُٹھائی ہے اور ان رشوتوں کا بطور خاص ذ کر کیا ہے جو انہوں نے مختلف افرد کو دیں بلکہ یہ تک تسلیم کیا ہے کہ آج وہ جو کچھ ہیں رشوت دینے کی وجہ سے ہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1951 ء میں کلکٹر کریم نگر کے دفتر میں ایک عہدیدار کو پچاس روپئے کی رشوت دینے کی وجہ سے ہی ان کا تقرر بحیثیت ٹائپسٹ عمل میں آیا تھا اور یہی پچاس روپئے ان کی آنے والی زندگی کی عمارت میں سنگ بنیاد کی حیثیت اختیار کر گئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ 1991 ء میں جب وہ کوآپریٹیو انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل کے باوقار عہدہ سے ریٹائر ہوئے تو انہیں اپنے وظیفہ کے بھاری بقائے جات کو حاصل کرنے کیلئے پھر موٹی رقم بطور رشوت دینی پڑی ۔ گویا جس رشوت کی مدد سے اپنی سرکاری ملازمت کا آغاز کیا تھا اسی رشوت کے ذریعہ اپنی ملازمت کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونکی۔ پہلی رشوت اور آخری رشوت کے درمیان بھی انہیں اپنے کئی کارناموں کے سلسلہ میں بار بار رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے ان رشوتوں کا بھی اس کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔
ہزاروں رشوتیں ایسی کہ ہر رشوت پہ دم نکلے
یوں لگتا ہے جیسے وہ سرکاری فرائض کم انجام دیتے رہے اور رشوت دینے کی ’’جین ڈائری‘‘ زیادہ مرتب کرتے رہے۔ بہرحال جب وہ باعزت طور پر ریٹائر ہوگئے تو ان کے ضمیر نے جاگنا شروع کردیا ۔ یوں بھی ہمارے یہاں ضمیر اسی وقت جاگتا ہے جب خود آدمی کو نیند آنے لگتی ہے ۔ان کے ضمیر نے اب انہیں جھنجھوڑنا شروع کیا تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کتاب کے ذریعہ ساری قوم کو جھنجھوڑا جائے۔ گویا ضمیر ، قدیر زماں کو جھنجھوڑ رہا ہے اور جواباً قدیر زماں قوم کو جھنجھوڑ رہے ہیں ۔ کریم نگر کے اس عہدیدار کو جس نے 1951 ء میں قدیر زماں کو ملازمت دینے کے عوض ان سے پچاس روپئے کی رشوت لی تھی اگر پتہ چل جاتا کہ وہ بعد میں اس موضوع پرایک مبسوط کتاب لکھیں گے تو بخدا وہ قدیر زماں کو اُلٹا رشوت دیتا  کہ بھیا ! میں تمہیں اچھی سے اچھی ملازمت دیتا ہوں مگر وعدہ کرو کہ کوئی کتاب نہیں لکھو گے ۔ ہمیں اس وقت ایک لطیفہ یاد آیا کہ ایک کنجوس مکھی چوس شخص مرنے کے بعد دوسری دنیا میں پہنچا اور جنّت کے داروغہ سے ملتمس ہوا کہ اسے جنت میں جانے کی اجازت دی جائے ۔ داروغہ جنّت نے پوچھا ’’اگر تم نے نیچے کی دنیا میں کوئی نیک کام کیا ہو تو بتاؤ تاکہ اس کی بنیاد پر تمہیں جنت میں بھیجا جاسکے‘‘۔ کنجوس آدمی نے دماغ پر زور دیا مگر اسے کوئی نیک کام یاد نہیں آیا ۔ بہت سوچ بچار کے بعد جب  اسے اپنا ایک نیک کام یاد آیا تو خوشی خوشی بولا ’’ایک بار ایک بڑھیا بھوک سے تڑپ رہی تھی تو میں نے اُسے ایک چونّی دی تھی‘‘۔ اس پر جنت کے داروغہ نے جنت کے چوکیدار سے کہا ’’میاں اس کی چونّی واپس کرو اور اسے لے جاکر دوزخ میں ڈال دو‘‘۔ مبادا یہ نہ سمجھئے کہ قدیر زماں نے کوئی نیک کام نہیں کیا ہے ۔ ان کا ایک نیک کام نہیں کیا ہے۔ وہ کوئی برا کام کر ہی نہیں سکتے ( کتاب لکھنے کے سوا) ، ان کا ایک نیک کام یہی کیا کم ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ہمارے دوست بنے ہوئے ہیں ۔ جبکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسے ہم جیسا دوست مل جائے اسے کسی دشمن کی حاجت نہیں ہوتی ۔ ہزار بات کی ایک بات یہ کہ قدیر زماں اصل میں ایک سادہ لوح اور معصوم آدمی ہیں۔ وہ تو اتنے سادہ لوح ہیں کہ ایک بار ہم نے مذاق میں اپنی آواز بدل کر انہیں بی بی سی کے انگریزی لہجہ میں فون کیا اور کہا I am John Major from London. I want to talk to Kadir Zaman    (ان دنوں جان میجر برطانیہ کے وزیراعظم تھے) قدیر زماں نے کسی قدر جھجھک کر پوچھا ’’معاف کیجئے ، آپ کون بول رہیں ؟‘‘۔
ہم نے پھر جان میجر کا حوالہ دیا تو نہایت ادب کے ساتھ اپنی مخصوص انگریزی میں “Good Moring, Your Excellency” وغیرہ کہا ۔ تب ہم نے اپنے اسی لہجہ اور اعتماد کے ساتھ کہا ’’مسٹر قدیر زماں ہم ہندوستان اور برطانیہ کے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے ‘‘۔ اس پر قدیر زماں نے بے ساختہ کہا  “Your Excellency ! My humble services are Always at you disposal”  ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور فون رکھ دیا۔
شام میں وہ ہمیں ملے تو حسب معمول ان سے کسی بات پر اختلاف ہوگیا۔ تُنک کر بولے آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ جس آدمی کے پاس وزیراعظم برطانیہ جان میجر کے فون آتے ہوں وہاں آپ کی کیا حیثیت ہے۔ اور ہم اپنی حیثیت پر کفِ افسوس ملتے رہ گئے ۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔ بہرحال یہ ان کی سادہ لوحی نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں بوفورس اسکینڈل چل رہا ہو، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے لیڈروں کو رشوت دینے کا معاملہ درپیش ہو، جہاں چارہ گھوٹالے میں کروڑوں روپیوں کے وارے نیارے ہورہے ہوں ، وہاں ان کے پچاس روپیوں اور ہزار ڈیڑھ ہزار روپیوں کی رشوتوں کو کون پوچھے گا۔ بھلا نقار خانہ میں کسی نے طوطی کی آواز سنی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ قدیر زماں خود اپنی ذات سے ایک ایسا طوطی ہیں جس میں ہر دم ایک سالم نقار خانہ گونجتا رہتا ہے ۔ ان کی ابتدائی رشوت کا ایک واقعہ تو بہت ہی دلچسپ ہے۔ 1951 ء میں ایک دن وہ اپنے چچا کی نئی نویلی سائیکل کو لے کر غفلت میں کاچی گوڑہ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے تھے جہاں ریلوے پولیس کے ایک داروغہ نے ان کی سائیکل کو ضبط کرلیا اور اس کی رہائی کے لئے دو روپئے رشوت دینے کا طلب گار ہوا ۔ ان کے پاس اس وقت دو روپئے بھی نہیں تھے ۔ بہت پریشان ہوئے ۔ آخر کار انہوں نے ضمانت کے طور پر اپنی شیروانی داروغہ کے پاس رکھوائی اور گھر جاکر دو روپئے لے آئے۔ تب کہیں جاکر اپنے چچا کی سائیکل اور اپنی شیروانی واپس حاصل کی ۔ رشوت کے اس واقعہ کو انہوں نے ایسے کرب اور اذّیت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ لگتا ہے قلم اب ٹوٹا کہ تب ٹوٹا۔ تاہم اس ناخوشگوار واقعہ کا ایک خوشگوار اثر یہ ہوا کہ قدیر زماں نے بعد میں شیروانی پہننا ہی ترک کردیا ۔ بش شرٹ اور شرٹ جیسے اوچھے لباسوں پر اُتر آئے پھر بھی اسے ان کی ہمت ہی کہنا چاہئے ۔ ان کی جگہ ہم ہوتے تو سرے سے لباس پہننا ہی ترک کردیتے ۔ اس کتاب میں اور بھی کئی دلچسپ واقعات ہیں جن میں رشوت دینے کے نت نئے طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قدیر زماں نے ایک عہدیدار کو رشوت دینے کا ایک انوکھا  طریقہ ایجاد کیا تھا ۔ وہ اس عہدیدار کے ساتھ تاش کھیلنے میں مصروف ہوجاتے تھے اور جان بوجھ کر اس وقت تک ہارتے رہتے تھے جب تک کہ رشوت کی مطلوبہ رقم قدیر زماں کی جیب میں سے نکل کر عہدیدار کی جیب میں منتقل نہیں ہوجاتی تھی ۔ ایسی رشوتیں تو ہم نے بھی اپنی سرکاری ملازمت میں بہت سی دی ہیں ۔ ہمارے ایک عہدیدار بالا شاعر تھے اور جب بھی وہ ہمیں شعر سناتے تھے توہم اس پر کچھ اس طرح داد دیتے تھے کہ لگتا تھا رشوت دے رہے ہیں۔ آخر میں ہمارے عہدیدار بالا کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ اس دنیا میں ان سے بڑا شاعر اور ہم سے بڑا سخن فہم پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگرچہ قدیر زماں کی یہ کتاب رشوت ستانی کے خلاف ایک احتجاج کے طور پر شائع کی گئی ہے لیکن دیدۂ بینا رکھنے والے اصحاب اس کو بطور ’’ہدایت نامہ رشوت ستانی‘‘ کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔ فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست۔
آخر میں یہ عرض کرتے چلیں کہ اس کتاب کو لکھتے وقت قدیر زماں کی نیّت بالکل صاف رہی ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو ان کے ضمیر نے لکھوایا۔ مانا کہ انہوں نے جو رشوت دی ہے کہ اس کی رقم بوفورس اسکینڈل وغیرہ کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن قدیر زماں کوئی سیاست  داں تو ہیں نہیں کہ بھاری رشوتیں لیتے اور دیتے رہیں۔ فوٹو گرافی میں ایک طریقہ تصویروں کو انلارج (Enlarge) کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ آپ اس کتاب کو اپنے ذہن میں انلارج کریں تو آپ پر حقیقت آشکار ہوگی۔
تو حضرات ! ہمارے تھوڑے لکھے کو بہت جانئے اور آج ہی سے رشوت دینا اور لینا بند کردیجئے ۔ یہ بہت بُری لعنت ہے ۔ اتنی بُری لعنت ہے کہ قدیر زماں  جیسے ادیب کو کتاب لکھنے پرمجبور کردیتی ہے ۔ اس کالم کے عوض ہم قدیر زماں سے کچھ نہیں چاہتے ۔ بس اتنی ہی گزارش ہے کہ جب بھی ہم حیدرآباد آئیں تو اپنی موٹر میں ہماری سیر کرادیں۔ یوں بھی ہم ان کی موٹر میں اکثر گھومتے رہتے ہیں نعوذ باللہ  یہ نہ سمجھئے کہ قدیر زماں ہمیں اپنی موٹر میں گھماکر ہمیں رشوت دے رہے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ وہ تو ہمارے دوست ٹھہرے۔    (23 نومبر ، 1997 ئ)
پس نوشت
بالآخر 20 جنوری کو قدیر زماں طویل علالت کے بعد ہمیں یکا و تنہا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ۔ اِن سے ہمارے 65 برس پرانے مراسم تھے ۔ اس اعتبار سے وہ ہماری نوجوانی کے دنوں کے اکیلے دوست باقی رہ گئے تھے ۔ ادب اور ثقافت سے اُن کا سروکار نہایت گہرا تھا ۔ وہ افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور تبصرہ نگار بھی تھے ۔ ان کے بعض ڈرامے خاصے مقبول ہوئے ۔ چار سال پہلے انہوں نے شمس الرحمن فاروقی کے شہرہ آفاق ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی تلخیص ’’وزیر خانم‘‘ کے عنوان سے کی تھی جسے ادبی حلقوں میں خاصا سراہا گیا تھا ۔ وہ طویل عرصہ سے صاحبِ فراش تھے۔ میں اور پروفیسر بیگ احساس وقفہ وقفہ سے ان کی عیادت کیلئے اُن کے گھر جایا کرتے تھے ۔ دس بارہ دن پہلے ہم ان کے گھر گئے تو سورہے تھے۔ ہمارے آنے کی آہٹ سن کر اچانک جاگ گئے ۔ بستر سے اٹھنے کی کوشش بھی کی مگر ہم لوگوں نے انہیں منع کردیا۔ ہمیں دیکھ کر ان کے چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا ۔ تھوڑی دیر کے لئے ان کی باتوں میں علالت اور کمزوری کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آئے ۔ میں نے موقع کو غنیمت جان کر اپنے فون سے گلبرگہ میں وہاب عندلیب سے اورالہ آباد میں شمس الرحمن فاروقی سے ان کی بات کروائی ۔ بے حد خوش ہوئے، وہ ان دونوں اصحاب کی بڑی عزت کرتے تھے ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ ان سے یہ میری آخری ملاقات ہوگی ۔ (مجتبیٰ حسین)